تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     17-08-2016

توسیع

آج جنرل ضیاالحق کی برسی ہے۔ ایک حادثاتی موت نے انہیں منصبِ شہادت پر فائز کیا۔ ہم تو ظاہر پر حکم لگاتے ہیں، خدا اور بندے کے معاملے میں فیصلہ دینے کے مجاز نہیں۔ تاہم انہوں نے جو حکمتِ عملی اپنائی، اس کے اثرات پر بات ہوتی رہے گی کہ حال کا کوئی تجزیہ ماضی کے حوالے ہی سے معتبر ٹھہرتا ہے۔ ان کا ایک ورثہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہے۔ وہ خود صدر تھے اور آرمی چیف بھی۔ خود ہی اپنی ملازمت کا دورانیہ بڑھاتے رہے۔ آج ایک بار پھر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع زیرِ بحث ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ آئین نے یہ اختیار وزیرِ اعظم کو دے رکھا ہے۔ غیب کے پردے میں کیا ہے، میں نہیں جانتا۔ ایک تجزیہ ہے جو ہم ظواہر کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
ایک ادارے میں اعلیٰ ترین منصب کی مدت میں توسیع، نئی قیادت کے ابھرنے کو روک دیتی ہے۔ دنیا میں غیر معمولی صلاحیتوں کے لوگ آتے ہیں لیکن قدرت کا نظام یہ ہے کہ کوئی ناگزیر نہیں ہوتا۔ سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی بصیرت کے مظاہر، تاریخِ اسلام کے اوّلیں دور کے ہر صفحے پر رقم ہیں۔ مگر جس حکمت کا مظاہرہ انہوں نے رسالت مآبﷺ کی دنیا سے رخصت کے موقع پر کیا، واقعہ یہ ہے کہ اس کی نظیر انسانی زندگی میں کم تلاش کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کی محبت و عقیدت ہی نہیں، سیاست و سیادت کا مرکز خاموش ہوگیا تھا۔ ایسے خلا کہ آدمی سوچے تو پِتّہ پانی ہوجائے۔ ان لمحات میں امیرالمومنین کا خطبہ، ایک مومن کی بصیرت کا شاہکار ہے جو نظامِ قدرت میں کارفرما حکمت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فرمایا: '' تم میں سے جو محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا، وہ جان لے کہ حضورؐ دنیا سے رخصت ہو چکے۔ جو اﷲ کی عبادت کرتا ہے، وہ جان لے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے‘‘۔ پھر قرآنِ مجید کی آیت پڑھی:''محمد سوا اس کے کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے۔ پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھرجاؤ گے‘‘ (آل عمران 144:3 ترجمہ: مو لا نامود ودی۔) لوگوں نے سنا اور گمان کیا کہ یہ آیت شاید آج ہی نازل ہوئی ہے۔
جنرل راحیل شریف ہماری عسکری ہی نہیں قومی تاریخ کے ناقابلِ فراموش کردار ہیں۔ انہوں نے وہ بھاری پتھر اُٹھانے کا ارادہ کیا، جو ان کے پیش رو نہیں اُٹھا سکے۔ انہوں نے ہی فوج کے ساتھ ریاست اور عوام کو بتایا کہ ملک کی سلامتی کو درپیش سب سے بڑا خطرہ اب بھارت نہیں، وہ دہشت گردی ہے جو آکاس بیل کی طرح پاکستان کے وجود سے لپٹ گئی ہے۔ پاکستان کو بچانا ہے تو اس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ یہ تصور انہوں نے اس وقت پیش کیا جب وہ آرمی چیف نہیں تھے۔ جب وہ اس منصب پر فائز ہوئے تو ملک کی سیاسی قیادت بھی تبدیل ہو چکی تھی اور اس باب میں اس کے نتائجِ فکر بھی وہی تھے جو جنرل صاحب کے تھے۔ یوں ضربِ عضب ممکن ہوئی اور آج اﷲ کا شکر ہے کہ ملک اس کیفیت سے ایک حد تک نکل چکا، جس میں چند سال پہلے مبتلا تھا۔ دہشت گردی کا خاتمہ انتہا پسندی کے خاتمے سے وابستہ ہے۔ انتہا پسندی کا خاتمہ حکومت کا کام ہے۔ وہ اس بات میں ابھی تک یک سو نہیں۔ انتہا پسندی ختم نہیں ہوگی تو دہشت گردی کو دست و بازو میسر رہیں گے۔ ایک طرف کٹیں گے، دوسری طرف مزید اُبھر آئیں گے۔ 
فوج کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وہ بطور ادارہ کام کرتی ہے۔ ضربِ عضب فوج کے حسنِِ کارکردگی کا مظہر ہے۔ فوج نے اسے بطور ادارہ اختیار کیا ہے۔ یہ مشن انشااﷲ جاری رہے گا۔ جنرل ضیاالحق کے دور سے توسیع کے سبب، ترقی کا فطری عمل بار بار روکا گیا۔ جنرل مشرف، جنرل اشفاق کیانی سب کو توسیع ملی۔ اب اس عمل کو تھم جانا چاہیے۔ نئی قیادت کے ابھرنے کا یہی موقع ہوتا ہے۔ پرچم ایک توانا ہاتھ سے تازہ دم ہاتھ کو منتقل ہو تا رہے تو ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ ہماری فوج کا تربیتی نظام شاندار ہے۔ اس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مقابلہ نہیں۔ جس خاندان میں میجر شبیر شہید جیسے سپوت پیدا ہوئے ہوں،آدمی خیال کرتا ہے کہ ان جیسا اب کہاں آئے گا۔ اللہ نے اسی گھر کو جنرل راحیل شریف سے بھی نواز دیا۔ یہ قدرت کا اعلانِ عام ہے کہ اس کے سوتے خشک نہیں ہوئے۔ باصلاحیت افراد کی آمد کا سلسلہ رکا نہیں۔ ہمیں بھی اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
ہمارے ہاں تجزیے کی روایت کبھی اصل مسئلے پر مرتکز نہیں رہتی۔ یہ اپنے مدار سے ہٹتی اورخلطِ مبحث کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ جنرل راحیل شریف کی توسیع کے معاملے میں بھی ہو رہا ہے۔ کوئی ان کا موازنہ نوازشریف صاحب سے کر رہا ہے، کوئی اسے سول ملٹری تعلقات کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔ یہ سب خلطِ مبحث ہے۔ جنرل راحیل شریف کا موازنہ جنرل اشفاق کیانی سے ہو سکتا ہے اور نواشریف کا یوسف رضا گیلانی سے۔ سول ملٹری تعلقات کو زیر بحث لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم وزیراعظم کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہیں نہ آ رمی چیف کے بارے میں۔ ہم در اصل یہ کہنا چاہتے ہیں، ایسے اہم ترین مناسب پر فائز افراد بھی ذاتی سود و زیاں کی بنیاد پر اہم ترین فیصلے کرتے ہیں۔ وزیراعظم کی عزت تو خیر ہم لازم نہیں سمجھتے، کم از کم آرمی چیف کی عزت کا تو کچھ لحاظ ہونا چاہیے۔
ادارہ سازی شاید ہماری سرشت میں نہیں۔ سیاسی جماعتیں دیکھیے تو موروثیت کے اصول پر منظم ہو رہی ہیں۔ باپ کے بیٹا، بیٹی یا خاوند کے بعد بیوی اور اس کے برعکس۔مدرسے کا مہتمم اپنے بیٹے ہی کو اپنا جانشین بناتا ہے۔ اور تو اور خانقاہ کا گدی نشین بھی بیٹے ہی کوگدی اور مرید سونپتا ہے جیسے وراثت سونپی جاتی ہے۔ ہماری سوچ فرد کے گرد گھومتی ہے۔ اسی لیے ہمیں جمہوریت بھی اچھی نہیں لگتی کہ اس میں ہم انفرادی دانش سے اجتماعی دانش کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو لوگ جمہوریت کو بھی لونڈی بنانے کا ہنر سیکھ گئے ہیں جیسے ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت۔ جو لوگ دیانت داری سے توسیع کے حق میں ہیں، ان کی سوچ بھی اس خدشے کا حاصل ہے کہ معلوم نہیں جنرل راحیل کے بعد کوئی اہل آ دمی آتا ہے یا نہیں۔ یہ فوج کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ جو قیادت ادارے کی تربیت سے ابھر کر سامنے آتی ہے، اس کی کارکرد گی پر ادارے کی نظر ہو تی ہے اور وہ اس کا معاون ہوتا ہے۔ اس لیے غلطی کا امکان کم ہوتا ہے۔
انسان ماہ و سال کی قید میں جیتا ہے۔ اس سے فرار ممکن نہیں۔ یہ وہ اصول ہے جس کا اطلاق اللہ کے رسولوں پر بھی ہوتا ہے۔ انسانی زندگی بھی اسی اصول پر مرتب ہوتی ہے۔ تاہم بعض لوگ وقت کی اس قید میں ایسا کام کر جاتے ہیں جو صدقہ جاریہ کی طرح ان کے جانے کے بعد بھی انسانوں کو آسودہ رکھتا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانا بھی دراصل اندھیروں کو ختم کرنا اور امید کے چراغ روشن کرنا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس غیر متنازع ہیرو بہت کم ہیں۔ جو ہو سکتے تھے، سیاست کے شوق نے انہیں متنازع بنا دیا۔ میں جنرل صاحب کا نام ایسے افراد کی فہرست میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved