تحریر : افضل رحمٰن تاریخ اشاعت     17-08-2016

خوف

جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم اگرچہ یورپ کے ملکوں نے جیت لی تھیں مگر اس تمام عرصے کے دوران وہاں عام لوگوں پر خوف کی فضا ہی طاری رہی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین کے ساتھ شروع ہونے والی سرد جنگ نے بھی یورپ کی عوام پر خوف طاری رکھا۔ پھر گزشتہ صدی کے آخری حصے میں جب سویت یونین ٹوٹا تو پھر یورپی ملکوں کے عوام کو عشروں سے جاری خوف کی فضا سے نجات ملی۔
یورپ کی سوسائٹی چونکہ سیکولر ہے لہٰذا وہاں صرف سوشل سائنٹسٹ اپنے تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں کہ کس طر ح خوف سے نجات ہو سکتی ہے۔ انہی تجزیوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے یورپ کے ملکوں کے درمیان باہمی اتحاد کی تحریک پیدا ہوئی جو یورپی مشترکہ منڈی اور یورپی یونین پر منتج ہوئی۔ گزشتہ دو عشرے جو یورپی ملکوں کو خوف کی فضا سے چھٹکارہ حاصل رہا وہ یہ سمجھتے رہے کہ اپنوں نے خوف سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔
یورپ کی اس سیکولر سوچ کے برعکس اسلامی قوانین خوف کے بارے میں پروردگار کے قائم کردہ ہیں۔ کوئی معاشرہ اگر ظلم کرے، ظلم کا ساتھ دے یا محض ظلم پر خاموش ہی رہے، اس پر خدائی قانون کے تحت کسی نہ کسی طور سے خوف کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔
یورپ کے سوشل سائنٹسٹوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ باہمی اتحاد کے ذریعے خوف کی وہ فضا ختم کرلیں گے جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ باہمی لڑائیوں سے پیدا ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس وقت یورپ میں ایسی کوئی فضا نہیں ہے لیکن ہر طرف خوف طاری ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ 14 اگست کو جب ہم یوم آزادی منا رہے تھے اور ہماری گلیوں بازاروں میں آتش بازی ہو رہی تھی، فرانس کے ایک سیاحتی مرکز میں کسی بچے کے ایک دو پٹاخے چھوڑنے سے دوسو سے زیادہ لوگوں میں وہ بھگدڑ مچی کہ کئی زخمی ہو گئے۔ لوگ سمجھے کہ یہ بھی ویسا ہی فائرنگ کا واقعہ ہے جیسے واقعات اب یورپ کے مختلف شہروں میں معمول بن چکے ہیں۔
ایک روز قبل 13اگست کو سوئٹزر لینڈ میں چلتی گاڑی میں ایک شخص نے چاقو سے حملہ کر کے ایک عورت کو قتل اور پانچ دیگر کو زخمی کر دیا۔ حملہ آور بھی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔ اس واقعے نے پورے سوئٹزرلینڈ کو خوفزدہ کر دیا جس کو امن اور سکون کا ایک ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کے بہت سے واقعات حالیہ دنوں میں منظر عام پر آچکے ہیں جو اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ یورپ کا معاشرہ ایک مرتبہ پھر خوف کا شکار ہو چکا ہے اور دانشوروں اور سیاستدانوں کی ایسی گفتگو سننے میں آرہی کہ ''اب ہمیں دہشت گردی کے ساتھ ہی جینا پڑے گا‘‘۔
اب ذرا ایک نظر امریکہ پر ڈال لیتے ہیں جہاں حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک کو گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد دہشت گردی سے محفوظ بنا لیا ہے۔ اس تمام حفاظت کے باوجود معاشرے کی حالت ملاحظہ ہو۔
پندرہ اگست کو نیویارک کے جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر ایک خاتون نے دور سے آتی لوگوں کی تالیوں اور شور کی آواز کو فائرنگ سمجھ کر ہنگامی صورتحال پیدا کر دی۔ جن لوگوں کے شور سے دھوکا ہوا وہ اولمپک کھیل دیکھ رہے تھے اور جیت کے لمحات پر آپے سے باہر ہو گئے تھے۔ صرف اتنی بات تھی جس کے بعد کئی ٹرمینلز کی مکمل تلاشی لی گئی اور ٹرمینل نمبر 8 کو تو بالکل خالی کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ ہو رہا تھا کہ کسی نے فون پر اطلاع دی کہ ٹرمینل نمبر 1 پر فائرنگ ہو گئی ہے۔ گھنٹوں یہ صورتحال رہی۔ چونکہ در حقیقت فائرنگ کی رپورٹ تھی ہی خوف پر مبنی لہٰذا آخر کار حالات معمول پر آ گئے۔
امریکہ میں اصلی فائرنگ کے واقعات بھی مسلسل ہو رہے ہیں اور اُن کی وجہ سے معاشرے میں جو خوف موجود ہے وہ ہر امریکی محسوس کرتا ہے۔ خوف کی فضا مزید گہری سیاہ فام امریکیوں کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعات کے خلاف احتجاج اور پھر پولیس پر حملوں سے پیدا ہو رہی تھی کہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نامی ایک اُمید وار نے اپنے بیانات ہی سے اپنی جماعت سمیت امریکیوں کی اکثریت کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ یورپ میں سوشل سائنٹسٹوں کے اس نظریے کے غلط ثابت ہونے کے بعد کہ اتحاد کی مدد سے خوف کی فضا کوشکست دی جا سکتی ہے، امریکہ بہادر کا یہ نکتہ نظر بھی فلاپ ہو چکا ہے کہ وہ سکیورٹی پر اربوں ڈالر خرچ کر کے شہری آزادیوں کا گلا گھونٹ کر اور مسلمانوں کو بے بنیاد الزامات کے ذریعے ہدف بنا کر امریکی معاشرے کو خوف کی فضا سے باہر نکال سکتے ہیں۔
اس دنیا میں سب سے زیادہ خوف کی فضا میں اسرائیل کے عوام رہتے ہیں۔ وہاں کوئی گھر ایسا نہیں جہاں خوف کے سائے نہ ہوں۔ اس کے برعکس جس آبادی پر اسرائیلی ظلم کرتے ہیں وہ اسرائیل سے خطرہ ضرور محسوس کرتے ہیں مگر کسی فلسطینی کے چہرے پر آپ کو خوف دکھائی نہیں دے گا۔
پروردگار کے نظام کے اس قدر واضح مظاہر پوری دنیا میں موجود ہیں مگر دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ معاشرے اپنے دانشوروں کی انتہائی سوچ بچار کے باوجود اِن مظاہر تک نہیں پہنچ پا رہے اور اس ازلی قانون کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں کہ ظلم کرنے کے منفی اثرات سے ظالم بچ نہیں سکتا اور اس دنیا میں ظلم کرنے کا ایک واضح نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ظالم معاشرے یا ظلم پر خاموش رہنے والے معاشرے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مغرب کی جو ثقافتی یلغار ہر طرف جاری ہے اس سے ہمارا ملک بھی متاثر ہے۔ ہمارے ہاں بھی لوگ مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ عام لوگوں کو مذہب سے دور کرنے میں سب سے زیادہ حصہ تو ہمارے مذہبی طبقوں کا ہے جن کا کردار اس قدر داغدار اور واضح طور پر لوگوں کے سامنے ہے کہ عام لوگ ان کی کسی بات کو حق سچ ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ ہزار دو ہزار لوگ اکٹھے کر کے شور تو ہر کوئی مچا لیتا ہے لیکن انتخابات میں مذہبی طبقے کا جو حال ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
پھر مغربی تہذیب کے زیر اثر ہمارے ہاں کچھ سیکولر لوگ پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ بھی لوگوں کو جوراہ دکھاتے ہیں وہ اوپر سے تو بہت جاذب نظر ہوتی ہے مگر جب اس کی حقیقت افراد پر کھلتی ہے تو وہ نہ اِدھر کے رہتے ہیں نہ اُدھر کے۔
اگر وہ اس خدائی قانون کو سمجھ لیں کہ ظلم خوف کو جنم دیتا ہے تو مذہب سے ان کی بیگانگی بھی دور ہو سکتی ہے اور اُن کو یہ سمجھ میں بھی آ جائے گا کہ ہمارے حکمران جو اپنی سکیورٹی اتنی سخت رکھتے ہیں، درجنوں گاڑیوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، گھروں کو قلعوں میں تبدیل کر رکھا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکمران خوف کا شکار ہیں۔ ان پر یہ خوف وہ ظلم طاری کرتا ہے جو یہ اپنے ہی ملک کے لوگوں پر مسلسل روا رکھے ہوئے ہیں۔
آج بھی اگر ہمارے حکمران ظلم اور خوف کے تعلق کو سمجھ جائیں اور ظلم کی پالیسیاں چھوڑ کر حقیقی عوامی فلاح و بہبود کی پالیسیاں اپنا لیں تو پروردگار اِن پر سے خوف کا عذاب اُٹھا لے گا۔ اب تو کون سا خوف ہے جو اِن حکمرانوں کو نہیں۔ اقتدار سے ہٹنے کا خوف، بدعنوانی میں پکڑے جانے کا خوف، موذی امراض میں مبتلا ہونے کا خوف، بیرون ملک اپنی دولت کے لٹ جانے کا خوف... علی ہذا القیاس۔ ظلم اور خوف کے خدائی قانون کو مغرب کا لادین معاشرہ اگر نہیں سمجھ پا رہا تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ مغربی معاشرہ تو مذہب کو طلاق دے چکا ہے مگر ہم لوگ تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کہتے ہیں، قرآن کو اللہ کا کلام مانتے ہیں پھر بھی ہمارا مسلسل ظلم کا ارتکاب کرنے والے اِن حکمرانوں کو برداشت کرنا، انتخابات میں اِن کو ووٹ دینا کیسے جائز ہے۔ اگر جائز ہے تو پھر بحیثیت قوم ہم سب کا ہر وقت کسی نہ کسی مصیبت کے نازل ہونے سے خوفزدہ رہنا بھی جائز ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved