تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-08-2016

بروٹس! خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں

اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے ''کلکم راع وکلکم مسئول‘‘۔ ہر شخص تم میں سے حاکم ہے اور ہر شخص تم میں سے جواب دہ! سب ذمہ دار ہیں‘ ہم سب!
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ابراہیم لوٹ آیا ہے۔ شدید گھبراہٹ کا وہ شکار ہے اور پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ ذہنی دبائو سے بچانے کے لیے اس سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔ کم از کم اگلے دو دن تک۔ فیصل آباد کی پولیس نے غیرمعمولی ذمہ داری ہی نہیں‘ دردمندی کا بھی مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر ریجنل پولیس افسر بلال کمیانہ اور ڈی پی او افضال کوثر نے۔ ہمیشہ یہ خاندان ان کا شکرگزار رہے گا۔ مسلسل اور متواتر کئی ٹیمیں تلاش میں مصروف رہیں۔ آخرکار اسے ڈھونڈ نکالا۔
ابھی کچھ دیر پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر سے ایک دوست نے فون کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بے شک اغوا کے واقعات ہو رہے ہیں اور اس بات میں پولیس کے مؤقف کو من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم دو پہلو اس کے سوا بھی ہیں۔ ماں باپ کی سخت گیری کا شکار زیادہ تر کمسن خود گھروں سے بھاگتے ہیں۔ ان میں سے بعض جونشے کی لت کا شکار ہوتے ہیں‘ جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پھر حکومت سے نفرت کرنے والے ہیں‘ منصوبہ بندی کے ساتھ جو مبالغہ آرائی کرتے اور مہم چلاتے ہیں۔ کچھ تصاویر انہوں نے بھیجیں کہ ملائشیا کے بچوں کو پنجابی بنا کر سوشل میڈیا پر الزامات کی بارش کی گئی۔ ایک سیاسی لیڈر کا نام بھی لیا کہ ایسے لوگوں کی وہ حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کرتے ہیں۔
عرض کیا: بنیادی مسئلہ اور ہے۔ پاکستان کی پولیس‘ سرے سے پولیس ہی نہیں۔ نیویارک اور لندن حتیٰ کہ جدہ‘ دبئی اور خرطوم میں ریاست کی پوری قوت کانسٹیبل کی پشت پر ہوتی ہے۔ قانون کی
ایک چھوٹی سی خلاف ورزی پر بھی‘ اگر وہ دھرلے تو آسانی سے قصوروار بچ نہیں سکتا۔ پاکستان میں پولیس افسر سرے سے افسر ہی نہیں‘ ''ملازم‘‘ ہے۔ طاقتوروں کے رحم و کرم پر۔ اخبار نویس‘ جج اور ایم پی اے سے ڈرائیونگ لائسنس تک طلب نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک میں جو دہشت گردی کا شکار ہے‘ اس بے نیازی کے متحمل ہم کیسے ہو سکتے ہیں؟ ترک پولیس‘ بغاوت کرنے والے فوجی اگر گرفتار کر سکتی ہے تو پاکستان میں یہ کیوں ممکن نہیں کہ بارسوخ لوگ بھی کسی نہ کسی درجے میں‘ اس کے خوف کا شکار ہوں۔ خوف ایک ہتھیار ہے‘ جو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے‘ انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں‘ کارِ سرکار میں بھی۔
سرما کے گزشتہ موسم میں وزیراعلیٰ شہبازشریف سے ملاقات ہوئی تو ان سے عرض کیا تھا کہ 1999ء کے بعد اب تک پولیس میں بہتری کے لیے کوئی ایک قدم بھی وہ کیوں نہ اٹھا سکے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ خاموشی سے وہ سنتے رہے۔ سندھی لیڈروں کی طرح تاویل کی کوشش نہ کی کہ قائداعظم کے زمانے میں بھی کرپشن ہوا کرتی تھی‘ بدامنی کے واقعات ہوا کرتے۔ پانچ برس ہوتے ہیں‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی خواہش پر ایوان وزیراعظم جانا ہوا تو بڑھتی پھیلتی کرپشن اور سرکاری وسائل کے ضیاع پر متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے جواب کا خلاصہ یہ تھا۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا۔ پتھر کے دل‘اس معاشرے کا کیا ہوگا جس کے رہنمایہ انداز فکر اختیار کرلیں۔ ٹی وی پرابھی کچھ دیر قبل لطیف کھوسہ فرما رہے تھے کہ شریف خاندان امانت و دیانت سے محروم ہے۔ اقتدار میں رہنے کا ہرگز اسے کوئی حق نہیں۔ سبحان اللہ‘ آصف علی زرداری تو صلاح الدین ایوبی ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کے دوست اگر ناراض نہ ہوں تو سوال یہ ہے کہ اس میں خبر کیا ہے؟ پیپلزپارٹی کا ایک لیڈر اور وہ بھی جناب لطیف کھوسہ ایسی ذات گرامی‘ اگر کرپشن کی بات کرے تو ناظرین کا وقت ضائع کرنے کا جواز کیا ہے ؎
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی
کوئی احساس نہیں‘ ادراک نہیں‘ نتیجہ یہ کہ کوئی تجزیہ ہی نہیں‘ کوئی منزلِ مراد ہی نہیں ؎
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
سب جانتے ہیں کہ آدم کی اولاد نے تین بنیادی مقاصد کے لیے حکومت کا ادارہ تشکیل دیا تھا۔ امن و امان کا قیام‘ انصاف کی فراہمی اور ملک کا دفاع۔ انفرادی صلاحیتوں کا فروغ‘ معاشی و علمی ترقی‘ صحت اور آزاد خارجہ پالیسی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔ مملکت خداداد میں قومی دفاع کے سوا‘ کس خبر پر کبھی توجہ دی گئی۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک گیریژن سٹیٹ ہے تو ایک اعتبار سے بالکل درست ہے۔ سول ادارے دولے شاہ کے چوہے بن کر رہے گئے۔ خالد لونگو‘ رانا مشہود اور شرجیل میمن ایسے وزیر ملک پر مسلط ہوگئے۔ بگاڑ اورپیہم بگاڑ کے سوا پھر کیا حاصل ہوگا؟ زرداری صاحب کو شرجیل میمن اب بھی عزیز ہیں اور شہباز شریف رانا مشہود کے محافظ ہیں تو ان کی جمہوریت کو کیا شہد لگا کر چاٹا جائے۔ میاں محمد نواز شریف کا ایک عالم فاضل وزیر اشتہاری مجرم پالتا اور ان کے بل پر انتخابی مہم چلاتا ہے ؎ 
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا 
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی
حکمران ہی نہیں‘ اپوزیشن پارٹیوں کا عالم بھی یہی ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے نے ایک مجبور خاندان کی جائیداد پر قبضہ جما رکھا ہے۔کوئی شنوائی نہیں‘ کوئی شنوائی نہیں۔
کوئی معاشرہ‘ تہذیب‘ ترقی اور بالیدگی کی راہ پہ سفر کا آغاز ہی نہیں کر سکتا‘ اگر اس کی پولیس اور عدالتوں سے انصاف کی امید نہ ہو۔ مشکل یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ‘ ترجیحات کا تمام تر انحصار‘ چند افراد‘فی الجملہ شاہی خاندان پہ ہوتا ہے۔ جمہوریت کا رونا بہت ہے اور اس کے ''حسن‘‘ کا تذکرہ بے حد مگر اسمبلیوں کی کوئی سنتا ہے اور نہ کابینہ کی۔ اقبال نے چیخ کر کہا تھا ؎ 
دیو استبداد اور جمہوری بقا میں پائے کوب
تو سمجھتاہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
قائد اعظم اور ان کے چند ساتھیوں‘ مہاتما گاندھی اور ان کے چند رفقا کی مستثنیات کے سوا‘ برصغیر کا سیاستدان اکثر پست رہا۔ آزادی کی تحریک نے لاکھوں نہیں تو ہزاروں اجلے سیاسی کارکن پیدا کیے‘مگر یہ غلیظ اشرافیہ۔ ان کی مگر کم ہی تربیت کی گئی۔ کارکنوں کی صلاحیت سے کم ہی فائدہ اٹھایا گیا۔ برصغیر میں قانون کی تقدیس کا تصور کبھی گہرا نہ ہو سکا۔ آج نہیں‘ لگ بھگ پون صدی پہلے اقبال نے کہا تھا ع
ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست
بیٹھے بٹھائے ایک دن میاں محمد شہباز شریف نے پولیس والوں اور پھر ججوں کی تنخواہیں دو گنا کر دیں۔ کس لیے‘ کس بنیاد پر؟۔ غورو فکر کے بغیر‘ مشاورت کے بغیر‘ منصوبہ بندی کے بغیر فرد واحد جب فیصلے فرمائے گا تو نتیجہ یہی ہو گا۔
لاہور اسلام آباد موٹر وے‘ اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ اسی پنجاب پولیس کے انسپکٹر وہاںاپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پھر قانون وہاں کیوں نافذ ہے؟اس لیے کہ موٹر وے پر قانون کے دائرے میں‘ آزادی عمل انہیں حاصل ہے۔ عقل کے اندھے ہیں کہ غور نہیں کرتے۔ شیکسپیئر کا وہ جملہ: بروٹس خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں‘ ہم میں ہے۔
یہ ہمارے لیڈر ہیں‘آئین اور قانون کی عمل داری جو قائم نہیں ہونے دیتے... اور یہ ہم ہیں جو ان کا احتساب نہیں کرتے۔ ہم سب ذمہ دار ہیں ‘ ہم سب۔ 
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے'' کلکم راع و کلکم مسئول‘‘۔ ہر شخص تم میں سے حاکم ہے اور ہر شخص جواب دہ!
پس تحریر: ٹی او آر کمیٹی سے ایم کیو ایم بھاگ گئی۔ بابر غوری اور فاروق ستار سے اسحق ڈار کا رابطہ ہے۔ دبئی میں آصف علی زرداری سے بھی وہ مل چکے ۔ سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے والے بزرجمہر بدلتی ہوئی صورتحال کو سمجھ رہے ہیں ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved