خضر خان اور غزالہ خان کے بیٹے کیپٹن ہمایوں خان نے عراق میں سینکڑوں لوگوں کی جان بچاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ ان کا خاندان ''خان فیملی‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ دنیا انہیں جان چکی ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ میں داخلے کے تمام راستوں پہ لفظِ خان خطرے کی گھنٹی بجا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی بھارتی فلمسٹار شاہ رخ خان امریکہ جاتے ہیں تو ہر بار وہاں امیگریشن والے ان کو دھر لیتے ہیں۔شاید یہ سکیورٹی والے، جن کو امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے مشتبہ افراد کو پکڑنے کی تربیت دی جاتی ہے، شاہ رخ خان کو دیکھتے ہی کوئی خطرہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اگر وہ اپنے ذاتی طیارے میں وہاں پہنچیں تو ہو سکتا ہے کوئی بات نہ ہو! بہرحال گزشتہ دنوں شاہ رخ خان جب اپنے بچوں کے ہمراہ لاس اینجلس ایئرپورٹ پہ پہنچے تو امریکی امیگریشن کے اہلکاروں نے ایک بار پھر انہیں حراست میں لے لیا۔ ہر بار جب ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو امریکی اخباروں، سوشل میڈیا اور بھارت و پاکستان کے قومی اخباروں میں بھی اس کی خبریں نمایاں طور پر شائع ہوتی ہیں۔ جنیوا میں مقیم معروف ادیب پالو کوئلو بھی ''مائی نیم از خان‘‘ دیکھنے کے بعد شاہ رخ خان کے پرستار بن چکے ہیں۔ انہوں نے ''دی الکیمسٹ‘‘ جیسی بلاک بسٹر کے علاوہ تصوف و روحانیت کے موضوع پہ دیگر کئی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ امریکہ میں امیگریشن عملے کے ہاتھوں شاہ رخ خان کی حراست پر انہوں نے ٹوئٹر پہ آکر ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ ان کے علاوہ بھارت میں امریکی سفیر رچرڈ ورما نے بھی شاہ رخ خان سے معذرت کی۔ رچرڈ ورما کے والدین بھارت سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹر پہ لکھا کہ اس پریشان کن واقعے پہ انہیں افسوس ہے اور اس پہلو پہ کام ہو رہا ہے کہ اس قسم کے واقعات کے اعادے سے بچنا یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شاہ رخ خان کا کام امریکیوں سمیت کروڑوں لوگوں پر اثر رکھتا ہے۔
2009ء میں بھی جب شاہ رخ خان امریکہ پہنچے تھے تو انہیں نیو ہیون کے ایک غیر معروف ایئر پورٹ پہ پوچھ گچھ کے لئے پورے دو گھنٹوں کے لئے روک لیا گیا تھا، حالانکہ وہ وہاں آئیوی لیگ میں شامل ییل یونیورسٹی کی دعوت پہ گئے تھے۔ بعد میں ییل یونیورسٹی کی جانب سے ان سے معذرت کر لی گئی لیکن ان کے وطن (بھارت) میں لوگوں کو یہ معافی قبول نہیں تھی کیونکہ اس سے تین برس قبل بھی شاہ رخ خان کو اسی قسم کے حالات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس وقت نیویارک میں بھارتی قونصلیٹ نے انہیں چھڑوایا تھا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس وقت وہ امریکہ اپنی فلم مائی نیم از خان کی پروموشن کے لئے گئے تھے جس کا معروف ڈائیلاگ ہی یہ تھا کہ My name is Khan, and I am not a terrorist. یعنی میرا نام خان ہے اور میں دہشت گرد نہیں ہوں۔
سو، اگر انسان لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہو، لاکھ پُر کشش ہو، بے شمار لڑکیاں اس کی پرستار ہوں لیکن اگر اس کا خاندانی نام ''خان‘‘ ہو تو امریکہ آمد پر اس کی حراست اور اس سے پوچھ گچھ یقینی ہوگی۔ امریکی ہوائی اڈوں پر ہوم لینڈ سکیورٹی کے ایجنٹوں کے طور پر جن لوگوں کی تعیناتی ہوتی ہے انہیں یہی تربیت دی جاتی ہے کہ ایک خاص حد سے بڑی عمر کے مسلمان مرد جب امریکی سرزمین پہ قدم رکھنے کی کوشش کریں تو ان سے پوچھ گچھ کیسے کی جائے۔انہیںخان، حسن، علی، محمد اور حسین جیسے ناموں کی اقسام کی ایک باقاعدہ فہرست تھمائی گئی ہوتی ہے۔ یہ نام خطرے کی گھنٹیاں بجانے کے لئے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ پاسپورٹ پہ آپ کا نام پڑھتے ہی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا امیگریشن افسر ، جس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوتی ہے، مزید کچھ کہے سنے بغیر آپ کو ایک کاریڈور میں جا کر بائیں مڑنے اور پھر وہاںمزید پوچھ گچھ کے لئے رکنے کا کہہ دیتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جب شاہ رخ خان ممبئی سے روانہ ہو کر نیوجرسی کے ایئر پورٹ پہ اتریں ہوں گے تو یہ سب کیسا رہا ہوگا۔ انہیں شاید امید ہو کہ وہاں ان کا ریڈ کارپٹ جیسا خیر مقدم ہو گا۔ انہیں وہاں آمد کی دعوت بھی تو خصوصی طور پر دی گئی تھی تاکہ وہ شکاگو میں جشنِ آزادی کے جلوس کی قیادت کریں۔ وہ روانہ تو شکاگو کے لئے ہوئے تھے اور ایئر انڈیا کے کیبن سٹاف اور جہاز کے کیپٹن تک نے ان کے بڑے ناز نخرے اٹھائے تھے۔ اس جہاز کا عملہ اور تمام مسافر انہیں روئے زمین پر ایک خدائی نعمت سمجھ رہے تھے۔ بھارت اور دنیا بھر میں مداحوں کی ایسی دیوانگی شاہ رخ خان کے لئے ایک معمول کی بات ہے لیکن امریکہ کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ یہ بڑی ہی عجیب دنیا ہے۔ یہ لوگ بالی ووڈ کے زیرِ اثر بننے والی فلم سلم ڈاگ ملینیئر کوآسکر بے شک دے دیں گے لیکن نیویارک ایئر پورٹ پہ آٹھ ڈالر فی گھنٹہ کے عوض کام کرنے والے اہلکاروں سے یہ توقع کہاں کی جا سکتی ہے کہ وہ اس انڈسٹری کے بڑے بڑے سٹارز کو جانتے بھی ہوں گے۔ ان کے لئے تو ہر ''خان‘‘ ایک جیسا ہے جس سے عقبی کمرے میں مزید پوچھ گچھ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے لئے امریکی امیگریشن والے ''سیکنڈری کوئسچننگ ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ شاہ رخ پُرکشش شخصیت رکھتے ہیں اور اب بھی ان کی ادائیں لڑکوں والی ہی ہیں۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ انہیں گھبرائے ہوئے تاثرات کے حامل اور مسلمان نام رکھنے والے مسافروں کے ہمراہ ایک کمرے میں بٹھا دیا جائے گا۔ انہیں اس بات پہ شدید غصہ آیا ہوا تھا۔ ذرا تصور کیجیے کہ یہ عظیم الشان خان ایک ہی بنچ پہ ایسے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جن کا واحد گناہ یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے اور ان کی عمریں بیس سے پچاس سال کے درمیان تھیں۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہوتی۔ سکیورٹی والے انہیں پھر اندر بھی لے گئے جہاں ان کی تفصیلی جامہ تلاشی ہوئی کہ کہیں انہوں نے اسلحہ اور منشیات تو نہیں چھپائے ہوئے۔ ہو سکتا ہے چونکہ وہ سفر سے تھکے ماندے لگ رہے تھے، بال بھی ان کے بکھرے ہوئے تھے اور آنکھیں بھی ان کی بند ہو رہی تھیں؛ لہٰذا امیگریشن کے اہلکاروں کی تیز نظروں نے ان پہ نشے کا شبہ کر لیا ہو۔ انہوں نے شاہ رخ خان کا سیل فون بھی لے لیا تھا۔ اپنا نام پکارے جانے پہ شاہ رخ خان آگے بڑھے تو ان کی ایک سخت گیر قسم کے افسر کے سامنے پیشی ہوئی۔ پورے دو گھنٹوں تک ان سے پوچھ گچھ ہوتی رہی۔ انہیں فون کرنے کی اجازت دی گئی تو انہوں نے نیویارک میں بھارتی قونصل جنرل کو فون کیا جس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے نئی دہلی میں امریکی سفارت کار کو کال ملائی۔ اس وقت ٹموتھی جے روئمر بھارت میں امریکی سفیر تھے۔ انہوں نے جو بیان دیا وہ بھی کافی عجیب تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم معاملے سے متعلقہ حقائق کی چھان بین کر رہے ہیں کہ سمجھ سکیں ہوا کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ادا کار شاہ رخ خان ایک عالمی آئیکون ہیں اور بطورِ مہمان امریکہ میں ان کا خیر مقدم کیا جائے گا کیونکہ بے شمار امریکی ان سے پیار کرتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ ویسے امریکی امیگریشن والے بھی کیا کریں۔ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد انہیں اپنی سکیورٹی تو سخت کرنی ہی تھی اور اسی لئے اگر وہ امریکہ آنے والے مسلمان مردوںکی پوری چھان بین کر کے ممکنہ دہشت گردوں کو الگ کرتے ہیں تو یہی ان کا کام ہے۔ پوچھ گچھ کرنے والے بڑے مہذب اور پیشہ ورانہ انداز میں اپنا کام کرتے ہیں۔ قانون کے پاسدار ہر امریکی شہری چاہے وہ کالا ہو، گورا ہو، بھورا ہو، مسلمان ہو، ہندو ہو یا یہودی یا عیسائی ہو سب کا فرض ہے کہ وہ امریکہ کو محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکنہ حد تک ان اہلکاروں کے ساتھ تعاون کریں۔ نیوجرسی میں مقیم وین کونورو بھارتی نژاد امریکی اور ایک آئی ٹی سپیشلسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''میں امیگریشن افسران کو الزام نہیں دیتا کیونکہ وہ لوگ صرف اپنا فرض نبھا رہے ہیں جیسا کہ ان سے توقع کی جاتی ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر گیارہ ستمبر جیسا واقعہ بھارت یا پاکستان میں ہوا ہوتا اور وہ سارے کے سارے انیس ہائی جیکر سفید فام امریکی ہوتے تو آپ کے خیال میں پھر ہماری سرحدوں میں داخلے کی کوشش کرنے والے امریکیوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جاتا؟ کیا بھارتی اور پاکستانی امیگریشن افسران امریکیوں کے ساتھ ایسا ہی نہ کرتے جیسا امریکی امیگریشن افسران نے شاہ رخ خان کے ساتھ کیا؟ وین کی بات افسوسناک سہی لیکن بہرحال درست ہے۔ اسلام کے نام پہ قتل و غارت گری کرنے والے چند ایک جنونیوں کی بدولت 1.6بلین مسلمانوں کی تذلیل ہو رہی ہے اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدر منتخب کر لیا گیا تو پھر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دروازے ان سب مسلمانوں پہ بند ہو جائیں گے۔