تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     18-08-2016

ڈکٹیٹر۔۔۔۔جس سے لڑنا بہت مشکل تھا

نواب زادہ نصراللہ خان کے سینے میں ضیاء الحق کے حوالے سے بہت سی یادیں محفوظ تھیں۔ جنرل کے ساتھ ان کی پہلی جھڑپ بھٹو کے ساتھ پی این اے کے مذاکرات کے دوران ہوئی تھی۔ بلوچستان سے فوج کی فوری واپسی پی این اے کے مطالبات میں ایک اہم نکتہ تھا۔ بھٹو نے آرمی چیف کو بلا لیا ‘ جس نے آرمی کی فوری واپسی میں حائل مشکلات کا ذکر کیا تو نواب زادہ بھڑک اٹھے۔
پھر حالات کے جبر نے بابائے جمہوریت کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا اتحادی بنا دیا اور یہ ''المیہ‘‘ بھی اس وقت ہوا جب ضیاء الحق اکتوبر1977ء کے انتخابات ملتوی کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان قتل کیس کا سامنا تھا اور جنرل ضیاء الحق ''نئے انتخابات کے لیے فضا کو ساز گار‘‘ بنانے کی خاطر حکومت میں پی این اے کی شمولیت پر اصرار کر رہے تھے۔
پی این اے نے جنرل ضیاء الحق کی بعض یقین دہانیوں کے بعد مارشل لاء کابینہ میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کر دی تو جنرل کا اصرار تھا کہ نواب زادہ صاحب وزارت عظمیٰ یا سینئر منسٹر کی ذمہ داری خود قبول کر لیں۔ بزرگ سیاستدان خود تو زیرِ دام نہ آئے‘ البتہ جنرل صاحب کی کابینہ کے لیے اپنے دو وزراء دے دیے۔ بھٹو کو پھانسی کے بعد پی این اے کے وزراء کابینہ سے باہر آ گئے۔ ان دنوں بھی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ نواب زادہ کی متعدد بار تلخی ہوئی۔ 1981ء میں ایم آر ڈی کے قیام کے بعد سے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات تک کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے کا معاملہ رہا۔
''ضیاء الحق کے ساتھ آپ کی کوئی خوشگوار یاد بھی وابستہ ہے یا ہمیشہ تُو تُو میں میں ہی رہی‘‘؟ ایک شام نواب زادہ صاحب کے ساتھ گپ شپ میں‘ ہم نے استفسار کیا تو وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر گویا ہوئے:
''ان میں انسانی سطح پر بعض خوبیاں بھی تھیں۔ میاں طفیل محمد (مرحوم) کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ میں ضیاء الحق بھی مدعو تھے۔ میں اور میاں محمود علی قصوری (مرحوم) ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ ضیاء الحق پنڈال میں داخل ہوئے۔ ہم پر نظر پڑی تو سیدھے ادھر لپکے۔ اخلاقاً ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ وہ دیر تک یوں ہی کھڑے رہے اور ہمارے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے گپ شپ کرتے رہے۔ وہ دوسری بار الیکشن ملتوی کر چکے تھے جس پر میں نے ان کے خلاف بڑے تندو تیز بیانات دیئے تھے لیکن ان کے رویّے میں وہی ملنساری ‘ انکساری ‘ اخلاق اور مروت تھی۔ وہ آگے بڑھ گئے تو قصوری صاحب نے ہنستے ہوئے کہا :''اس شخص سے لڑنا بہت مشکل ہو گا۔ میری بیوی روز مجھ سے لڑتی ہے کہ ایک شریف آدمی آ گیا ہے تو تمہیں یہ بھی برداشت نہیں ہو رہا۔ اسے تو معاف کردو‘‘۔
نواب زادہ صاحب سے اس گفتگو کے دوران خورشید محمود قصوری بھی آ گئے۔ ہم نے انہیں ابھی ہونے والی گفتگو کے متعلق بتایا‘ تو چھوٹے قصوری نے ہنستے ہوئے کہا :''ہم ساری عمر آمروں کے خلاف لڑتے رہے (یہ ڈکٹیٹر مشرف کی حکومت میں قصوری صاحب کے وزیر خارجہ بننے سے پہلے کی بات ہے) لیکن اس فوجی آمر سے لڑنا واقعی بہت مشکل تھا جس کے متعلق خود ہمارے اپنے عزیز و اقارب میں ہمدردی کے جذبات پائے جاتے تھے اور اس کا سبب اس کی خوش اخلاقی‘ اس کا عجز و انکسار اور مروت و ملنساری تھی۔
اب نواب زادہ صاحب‘ میر غوث بخش بزنجو کا ''تجربہ‘‘ سنا رہے تھے۔ یہ ایم آر ڈی کے دنوں کی بات تھی۔ بزنجو مرحوم نہ صرف ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے مارشل لاء کے خلاف سرگرم تھے‘ بلکہ ضیاء الحق کی افغان پالیسی (سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد) کے بھی سخت ناقد تھے۔ انہیں ماسکو سے کمیونسٹ پارٹی کی یوتھ کانگریس میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی۔ دن بہت تھوڑے تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ متعلقہ سرکاری محکموں میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مختلف حیلوں بہانوں سے ان کی ماسکو روانگی ناممکن بنا دیں گے۔ انہوں نے ضیاء الحق سے فون پر رابطہ کیا ‘ وہ دستیاب نہ ہوئے تو پیغام چھوڑ دیا۔ آدھ گھنٹے بعد ضیاء الحق فون پر تھے۔ بزنجو صاحب نے ''عرضِ مدعا‘‘ کی تو جنرل نے ہنستے ہوئے کہا: ''کمیونسٹوں کے یوتھ بھی آپ کی عمر کے ہوتے ہیں‘‘؟ پندرہ بیس منٹ بعد ضیاء الحق نے دوبارہ رابطہ کیا اور کہا: '' آپ ماسکو کے لیے رختِ سفر باندھیں‘ تمام متعلقہ لوگوں کو آپ کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ ماسکو میں پاکستان کا سفارت خانہ بھی آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہو گا‘‘۔
بزرگ بلوچ لیڈر کے لیے یہ ایک حیرت آمیز خوشگوار تجربہ تھا۔ نواب زادہ کو اپنی یہ روداد سناتے ہوئے انہوں نے بھی قصوری صاحب سے ملتی جلتی بات کہی :''اس شخص سے لڑنا بہت مشکل ہو گا۔‘‘
اور یہ لاہور ایئر پورٹ پر فوجی آمر کے ساتھ ایک اخبار نویس کی جھڑپ کی رو داد ہے۔ تب ہم بھی حاضر تھے وہاں۔ ضیاء الحق اخبار نویسوں سے گفتگو کر چکے تو دلیر و دبنگ نثار عثمانی (مرحوم) نے نیشنل پریس ٹرسٹ کے ان اخبار نویسوں کا مسئلہ اٹھایا جنہیں (ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران) سندھ کے حوالے سے ایک قرار داد پر دستخط کرنے کی پاداش میں برطرفی کے نوٹس دیئے جا چکے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے لہجے میں قدرے تلخی گھل گئی: ''آپ کو اندازہ ہے کہ انہوں نے جس قرار داد پر دستخط کیے‘ وہ کیا تھی؟ آپ ان کی برطرفی کی بات کرتے ہیں‘ شکر کریں کہ میں نے انہیں لٹکایا نہیں‘‘۔
جواب میں نثار عثمانی بھی بھڑک اٹھے: ''جنرل صاحب! آپ اس زمین پر مطلق العنان سہی لیکن یہ نہ بھولیں کہ اوپر اصل قادرِ مطلق بھی ہے۔ زندگی اور موت‘ عزت اور ذلت‘ رزق اور ناداری کے محکمے اس نے اپنے پاس رکھے ہیں‘‘۔ 
فضا خاصی کشیدہ ہو گئی تھی۔ سرکاری افسران کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا‘ ایک جا رہا تھا۔ چند لمحوں بعد جنرل نے سکوت توڑا: ''عثمانی صاحب! میں معذرت چاہتا ہوں۔ آپ نے درست فرمایا‘‘... پھر ہلکا سا قہقہہ لگایا‘ جس میں ندامت کا رنگ نمایاں تھا اور عثمانی صاحب کا کندھا تھپتھپانے لگے۔
ایئر پورٹ سے واپسی پر نثار عثمانی کہہ رہے تھے: ''میں نے ایوب خاں‘ یحییٰ خان اور بھٹو سمیت متعدد فوجی اور سول حکمرانوں کو بھگتایا لیکن اس جیسا Patient Listner (صبر اور سکون کے ساتھ بات سننے والا) نہیں دیکھا۔ اس شخص سے لڑنا بہت مشکل ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved