تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-08-2016

سول ایوارڈز‘ ابراہیم جویو‘ پنجابی صفحہ اور غزل

حکومت نے اس بار 109 پاکستانیوں کو سول ایوارڈز دیئے ہیں۔ ستارہ امتیاز پانے والوں میں جو لوگ نمایاں ہیں اُن میںنیر علی دادا‘ شہناز وزیر علی‘ مستنصر حسین تارڑ شامل ہیں اور تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والوں میں محمد سلیم الرحمن‘ زاہد مسعود‘ ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو‘ روحی کنجاہی‘ سرفراز شاہد‘ شاکر شجاع آبادی‘ خورشید ندیم‘ غازی صلاح الدین جبکہ تمغہ امتیاز حاصل کرنے والوں میں نذیر عامر‘ پروین ملک‘ محمد حمید شاہد اور جلیل عالی شامل ہیں۔ کچھ حضرات کو یہ ایوارڈ کئی سال پہلے مل جانا چاہیے تھا جن میں محمد سلیم الرحمن‘ انور شعور اور روحی کنجاہی بطور خاص شامل ہیں۔ اس عاجز کی جانب سے ان جملہ معززین کو دلی مبارک باد۔ اس کے ساتھ خوشی کی ایک خبر یہ ہے کہ سندھی ادیب ابراہیم جویو ماشاء اللہ ایک سو ایک سال کے ہو گئے ہیں جبکہ ہفتہ کے روز انہوں نے شاعروں‘ ادیبوں‘ سیاست کاروں‘ سول سوسائٹی کے نمائندوں اور اپنے مداحوں کے جھرمٹ میں اپنی سالگرہ منائی جس کا اہتمام سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی نے حیدرآباد کے ایک ہوٹل میں کر رکھا تھا۔ جہاں جویو کی تین کتابوں کی رسم رونمائی بھی منعقد ہوئی۔ ایم پی اے مہتاب اکبر راشدی کا کہنا ہے کہ جویو کے پاس کوئی جائیداد‘ پلازہ یا بڑا اثاثہ نہیں ہے۔
پنجابی صفحہ اس دفعہ بھی بھرپور نظر آیا جس میں پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمن کا انٹرویو پنجابی زبان کے محسن مسعود کھدرپوش پر خصوصی مضمون کتابوں پر تبصرہ‘ شاعری اور تقریبات کی رپورٹ شامل ہے مثلاً پروین ملک کی آب بیتی ''کسیاں دا پانی‘‘ کی تقریب رونمائی جس میں منو بھائی‘ مشتاق صوفی‘ زاہد حسن‘ جمیل احمد پال اور دیگران نے شرکت کی جبکہ حلقہ ارباب ذوق ناروے کی طرف سے خالد حسین تھتھیال کی تصنیف ''سفنے بیجے برف وچ‘‘تقریب رونمائی کا احوال بھی شامل ہے۔ دیگر اردو اخبارات کی طرف سے بھی پنجابی صفحے کا اہتمام ہونا چاہیے جبکہ سبھی پنجابی ہیں اور ماں بولی کے مقروض بھی۔
اور اب اس صفحے پر انجم قریشی کی یہ نظم :
سوکن
سرگھی ویلے
تیری سوچاںورگی اک عورت
مینوں جگا دیندی اے
ٹھردا اے پنڈا کدی
کدی اگ لگ جاندی اے
پاسے بھردیاں دینہ چڑھدا اے
تے رب دے نور نال
ہنیرمڑھیا جاندا اے
باغاں دے شور وچ
میں اپنی ہوش دا چُلہا بال کے
حوصلے دی کاڑھنی وچ
جگراتے پادینی آں
اس کے علاوہ ثروت محی الدین کے قلم سے ''مُڈھلی تعلیم تے ماں بولی‘‘ کے موضوع پر مضمون ہے جبکہ کلام بابا فرید کے عنوان سے بابا جی کا یہ شعر درج کیا گیا ہے ؎
اُٹھ فریدا سُتیا جھاڑو دے مسیت
تُوں سُتا رب جاگدا تیری ڈاہڈے نال پریت
کم و بیش ہر اردو روزنامہ ہفتے میں ایک بار اردو ادب کے صفحے کا اہتمام کرتا ہے۔ اگر اس میں نصف صفحہ پنجابی کے لیے مخصوص کر دیا جائے تو بھی بسا غنیمت ہے جبکہ پنجابی زبان کے ساتھ ہمارا عمومی رویہ بھی نہایت افسوسناک ہے۔ پنجابی رسالوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور ایک آدھ برائے نام سا اخبار بھی دکھائی دے جاتا ہے اور اس طرح پنجابی زبان کی حق تلفی کے ہم خود ہی مرتکب ہو رہے ہیں حالانکہ عام گفتگو میں ہم پنجابی زبان ہی استعمال کرتے ہیں جبکہ ہمارے بچے اردو اور انگریزی کو وسیلہ اظہار بتاتے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے‘ اس کا استعمال سر آنکھوں پر‘ لیکن ہم پر کچھ حق مادری زبان کا بھی ہے‘ تھوڑی سی توجہ اس طرف بھی! اور اب آخر میں تلافی ٔمافات کی کوشش کے طور پر یہ تازہ پنجابی غزل :
آپے کھیڈے کوڈ کبڈیاں
آپے نک لکیراں کڈھیاں
پباں بھار جگاڑے کڈھے
کھلے کھلے سوں گیاں اڈیاں
سائیاں ویکھن دیاں نیڑیوں
تھوڑیاں پھڑیاں‘ بوہتیاں چھڈیاں
سُکیا ماس تے لہو دیہی دا
رڑکن اندرے اندر ہڈیاں
دکھ دا کھدر پیا اُنیویں
باہر اندر چل رہیاں کھڈیاں
رسا نچوڑن لئی بندیاں دا
چار چوفیر مشیناں اڈیاں
لاشاں لئی برابر ہویا
کیہہ دفنائیاں تے کیہہ گڈیاں
جھلیا نیئں پہلا ہی ہلاّ
ناساں رہ گیّاں سوٹڈیاں
ہن ظفرے نوں پئے صلاحو
موئے بابے دیاں اکھیں وڈیاں
آج کا مقطع
ظفر کے ہاتھ بھی خالی ہیں اور دل بھی‘ مگر
اِسی نے آپ کا اُمیدوار ہونا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved