انسان کے پاس جب کرنے کو کچھ بھی نہ ہو تو کچھ بھی کرنے لگتا ہے۔ یہ بات خصوصی طور پر ماہرین اور محققین کے حوالے سے بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے۔ موضوعات اب ختم پر ہیں۔ اِس دنیا کو جو کچھ درکار تھا وہ مل چکا ہے۔ جو ایجاد کیا جانا تھا وہ ایجاد کیا جاچکا ہے۔ جو کچھ دریافت کرنا تھا وہ دریافت کرلیا گیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کس موضوع پر دادِ تحقیق دی جائے، کیا سوچا جائے کہ جو دنیا کا بھلا کرے۔ حق یہ ہے کہ اب تحقیق کے لیے موضوع کی تلاش بھی تحقیق کا بن چکا موضوع ہے! ماہرین اور محققین میں دوڑ سی لگی ہوئی ہے کہ کس طور عجیب و غریب نکات پر تحقیق کرکے زیادہ سے زیادہ داد وصولی اور بٹوری جائے! معاملہ جب یہ ہو تو دنیا کا تو کیا بھلا ہونا ہے، سچ یہ ہے کہ اب ماہرین اور محققین کی سوچ زندگی کو مزید الجھا رہی ہے، اِس دنیا کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہی کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ذہین افراد کے دوست کم ہوتے ہیں۔ وہ کم لوگوں سے ملتے ہیں اور کم لوگ اُن سے ملتے ہیں۔ اُن کی زندگی میں سب کچھ حساب کتاب کے تحت ہوتا ہے۔ وہ غیر ضروری طور پر خوش بھی نہیں ہوتے اور کسی جواز کے بغیر کوئی رنج بھی انہیں دامن گیر نہیں ہوتا۔ اِس بار ماہرین کی نظر ذہین افراد پر جاکر ٹھہری ہے۔ اُنہیں یہ فکر لاحق ہوئی ہے کہ ذہین افراد کے دوستوں کی تعداد کم کیوں ہوتی ہے۔
ماہرین کا بھی عجیب ہی حال ہے۔ اگر کسی کے دوست زیادہ ہو تو اُس کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں کہ تعداد کس طور گھٹائی جائے۔ کئی بار باضابطہ تحقیق کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس کے زیادہ دوست ہوں وہ پریشانی سے دوچار رہتا ہے اور کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتا۔ مشورہ دیا جاتا ہے کہ دوست کم رکھیے تاکہ زندگی میں توازن بھی قائم رہے اور کچھ کر دکھانے کی گنجائش بھی پیدا ہو۔ تخلیقی جوہر رکھنے والوں کو خاص طور پر اس مشورے سے نوازا جاتا ہے کہ لوگوں سے دور دور رہیں، اپنے کام پر توجہ دیں اور تنہائی کو رفیق بنائیں۔
ماہرین جس تنہائی کو تخلیقی جوہر رکھنے والوں کے لیے نعمت قرار دیتے ہیں اُسی کے حوالے سے منفی اثرات ثابت کرنے کے لیے تحقیق کا ڈول ڈال بیٹھے ہیں۔ ماہرین نے ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ ذہین افراد تنہائی زیادہ پسند کرتے ہیں۔ لوگوں سے ملنا جلنا اُنہیں عام طور پر بھاتا نہیں۔ اگر مجبوری کی حالت میں زیادہ لوگوں سے ملنا پڑے تو وہ بے مزا سے ہوجاتے ہیں۔ گویا یہ کہا جارہا ہے کہ زندگی کو مزیدار بنانا ہے تو دوستوں کی تعداد بڑھائیے اور تنہائی کو لات مار کر ایک طرف کر دیجیے۔
ذہین افراد کا حلقۂ احباب محدود ہونے کا سبب؟
ماہرین کہتے ہیں کہ عام طور پر ذہین افراد کسی بھی حوالے سے اپنا مخصوص اور پختہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ عام آدمی کے مقابلے میں اُن کی سوچ خاصی مختلف اور بلند ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ پُھسپُھسی اور کھوکھلی سوچ رکھنے والوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ ہم، آپ ... سبھی جانتے ہیں کہ عام آدمی ہر معاملے میں انتہائی سطحی بات کرتا ہے۔ اور کیوں نہ کرے؟ عام آدمی جو ہوا! مگر ذہین افراد کا ''المیہ‘‘ یہ ہے کہ اُن سے سطحی باتیں ہضم نہیں ہو پاتیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی الگ دنیا بساتے ہیں اور عام لوگوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔
ماہرین جو کچھ بیان کر رہے ہیں اُسے غالبؔ نے یُوں بیان کیا ہے ع
گویم مشکل، وگر نہ گویم مشکل
ایک طرف تو تحقیق کے ذریعے مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر اِس دنیا میں کچھ کر دکھانا ہے تو اپنے وجود کی گہرائیوں میں اُتر جائیے اور دُنیا و اہلِ دُنیا سے رابطے منقطع یا کمزور کرکے تنہائی کو اپنائیے۔ اور دوسری طرف تنہائی کے عذاب سے ڈرایا بھی جارہا ہے! ماہرین کو اس موضوع پر بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ اُن کے مشوروں پر عمل کرکے برباد ہونے والا انسان جائے تو کہاں جائے!
ماہرین نفسیات دوستوں کے بارے میں بہت عجیب نظریات کے حامل ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم کا لازوال انشائیہ ''مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘ تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔ جو کچھ اُنہوں نے بیان کیا اُس کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے کہ دوستی کے نام پر کیا جانے والا احسان کبھی کبھی عذاب ہی کی ایک شکل ہوا کرتا ہے! جب احباب دخل در معقولات فرماتے ہوئے یہ ‘‘انکشاف‘‘ کرتے ہیں کہ وہ تو مصیب ڈھونے میں مدد دے رہے ہیں، بوجھ کم کر رہے ہیں تو دل سے بے ساختہ نکلتا ہے ؎
اور کوئی طلب ابنائِ زمانہ سے نہیں
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا!
سجاد حیدر یلدرم کو یکسر اور سر بہ سر جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ دوستوں سے گفتگو جذبات کی سطح پر توازن پیدا کرتی ہے اور یہ کہ اگر کوئی ڈپریشن میں مبتلا ہو اور کسی معالج سے ملاقات سے قبل اپنے دوستوں سے جی بھر کے باتیں کرلے تو اُس کا آدھا مرض تو وہیں ختم ہو جاتا ہے! ماہرین ذرا یہ بھی بتادیں کہ ایسے دوست کہاں پائے جاتے ہیں جن سے گفتگو کرکے انسان کے دل کا آدھا بوجھ اور ذہن پر چھائے ہوئے ڈپریشن کا نصف ختم ہوجاتا ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم نے اپنے مطالبے پر زیادہ زور دیا تو ماہرین ڈپریشن کم کرنے میں مدد دینے والے دوستوں کے حوالے سے بھی تحقیق شروع کردیں گے!
ماہرین سے کسی کی خوشی زیادہ برداشت یا ہضم نہں ہوتی۔ وہ جب بھی کسی کو زیادہ خوش دیکھتے ہیں تو فوراً تحقیق کا ڈول ڈالتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اور اگر کوئی معقول سبب سمجھ میں آجائے تو اُسے کچھ اِس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ لوگ تجسّس کے ساتھ ساتھ شک میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ماہرین نے ''نگری نگری پِھرا مسافر‘‘ کے مابین خوب بھٹک کر اور چھان پھٹک کرنے کے بعد بتایا ہے کہ چھوٹے اور کم آبادی والے شہروں کے لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں اور ایسا اِس لیے ہے کہ آبادی کم ہونے کے باعث اُن کے دوستوں کی تعداد بھی کم ہوتی ہے یعنی غیر ضروری باتیں سُننے سے وہ خود بھی ذہنی الجھنوں کا شکار نہیں ہوتے!
ذہانت، تنہائی، خوشی اور دوستوں کی تعداد ... اِن چار اُمور کے باہمی تفاعل کے بارے میں تحقیق کرکے ماہرین یہ سمجھ رہے ہیں کہ اُنہوں نے الجھنیں اور پریشانیاں دور کرنے کی کوشش کی ہے مگر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اندھے کی طرح لاٹھی گھمادی ہے!
ہم خدا ناخواستہ کوئی ماہر یا محقق تو نہیں مگر پھر بھی بیشتر معاملات میں اپنی ایک باضابطہ رائے رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ رائے ہم دوسروں پو ٹھونسنے یا مسلّط کرنے کی بیماری میں مبتلا نہیں۔ دوست کتنے ہونے چاہئیں اِس معاملے میں ہماری رائے یہ ہے کہ مُونچھیں ہوں تو نتّھوم رام جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں! اگر دوست بنانے ہی ہیں تو ڈھنگ کے بنائیے۔ سوچے سمجھے بغیر کسی سے بھی بے تکلف ہوجانا اور دوستی کا روگ پالنا کسی بھی اعتبار سے دانش مندی نہیں۔ ماہرین نے یہ بتاکر کوئی احسان نہیں کیا کہ ذہین افراد کے دوست کم ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ذہین افراد دوستوں کی تعداد کم رکھنے کے حوالے سے کوئی باضابطہ پلاننگ کرتے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ عام آدمی بیشتر معاملات میں بے ڈھنگی سوچ کا حامل ہوتا ہے۔ جہاں اُسے اپنی سوچ بے ڈھنگی معلوم ہوتی ہے وہاں جانے سے خود ہی گریز کرتا ہے۔ یعنی قدرت نے ذہین اور معقول افراد کو انٹ شنٹ افراد کی دوستی سے محفوظ رکھنے کا خود ہی انتظام کر رکھا ہے! اگر ماہرین اور محققین نشاندہی نہ کریں تب بھی یہ ہونا ہے کیونکہ یہ ہوتا آیا ہے۔
ہم آپ کو دوستی کے حوالے سے یہ معقول مشورہ دینا چاہیں گے کہ دوستی سے متعلق تحقیق کے نتائج پڑھنے سے گریز کیجیے۔ ماہرین آپ کو الجھادیں گے۔ دوست کتنے ہونے چاہئیں اور کتنے نہیں سے ہٹ کر پھر آپ یہ سوچ سوچ کر پاگل ہوجائیں گے کہ دوست ہونے بھی چاہئیں یا نہیں!