تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     19-08-2016

بیٹا شہید ہو گیا‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے

برصغیر میں تحریک آزادی کے دوران اگر ہندو انتہاپسندوں نے مسلم دشمنی پر مبنی تحریکیں نہ چلائی ہوتیں‘ اکھنڈ بھارت کے نعرے نہ لگائے ہوتے اور پاکستان کی مخالفت نہ کی ہوتی‘ تو مسلمانوں نے کبھی اپنے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ یہ ہندو انتہاپسند ہی تھے‘ جنہوں نے مسلمانوں کو دھکیل دھکیل کر مطالبہ پاکستان پر مجبور کیا۔ ہمارے تو قائداعظمؒ بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے حامی نہیں تھے۔ حد یہ ہے کہ ہندو انتہاپرستوں سے تنگ آ کر‘ مسلمانوں نے اپنے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا‘ اس وقت تک بھی پاکستان کا نام مسلمان قیادت کے ذہن میں نہیں تھا۔ جس دن قرارداد پاکستان منظور ہوئی‘ تو لاہور کے ہندو اخباروں نے سرخیاں لگائیں کہ ''مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کر دیا ہے۔‘‘ ہندو میڈیا نے ہمیں پاکستان کا نام دیا اور اس کے بعد مسلمانوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ہندو انتہاپسندوں نے مطالبہ پاکستان کو کبھی ذہن سے تسلیم نہیں کیا۔ یہاں تک کہ پاکستان بن بھی گیا‘ ہندوانتہاپسندوں کی پاکستان کی دشمنی میں اضافہ ہوتا گیا۔ مسلم دشمنی میں قوم پرست ہندوئوں کی دو جماعتیں راشٹریہ سیوک سنگھ اور ہندو مہاسبھا پیش پیش تھیں۔ گوڈسے ایک متعصب ہندو خاندان میں پیدا ہو ا۔ناتھورام کی پیدائش تک اس کے گھر میں کوئی لڑکی نہیں تھی۔ اس کی ماں نے ناتھورام کو ایک لڑکی کے روپ میں پروان چڑھایا۔ یہ نفسیات کے ماہرین جانتے ہوں گے کہ بچپن میں لڑکی کی حیثیت سے رہنے کی بنا پر اس کے ذہن میں قاتلانہ رحجانات کیسے پیدا ہوئے؟ بہرحال ناتھورام کا متعصب ذہن گاندھی کے قتل کی طرف کیوں مائل ہوا؟ ہندوستان کی تقسیم کے وقت کانگرس اور مسلم لیگ دونوں کے درمیان طے پایا تھا کہ دونوں ملکوں کو تقسیم کے فارمولے کے تحت ‘ریاستی اثاثوں میں اتفاق رائے سے طے شدہ اصول کے مطابق ‘حصہ دیا جائے گا۔ لیکن کانگرسی حکومت پر ہندو انتہا پسندی کا اثر غالب آ گیا۔ انتہاپسند ہندوئوں کے کانگرسی لیڈر‘ جو حکومت میں گہرا اثرورسوخ رکھتے تھے‘ انہوں نے پاکستان کے حصے کے اثاثے طے شدہ فارمولے کے تحت دینے سے انکار کر دیا۔گاندھی جی نے بھارتی حکومت کی اس بے اصولی پر احتجاج کرتے ہوئے‘ مرن برت رکھتے ہوئے اعلان کر دیا کہ جب تک پاکستان کو اس کا حصہ طے شدہ اصولوں کی بنیاد پر نہیں دیا جائے گا‘ وہ کھانا پینا بند رکھیں گے۔ گاندھی جی کی ایک عادت تھی کہ وہ صبح کی پوجا کے لئے کھلی محفل جمایا کرتے‘ جس میں تمام لوگوں کو بلاامتیاز مذہب شریک ہونے کی اجازت تھی۔ خبیث ناتھورام اس بات پر سخت غصے میں تھاکہ گاندھی جی‘ پاکستان کو اس کا حصہ دینے پر کیوں اصرار کر رہے ہیں؟ اس نے اپنے چھ ساتھیوں کو ملا کر‘ گاندھی جی کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ لیکن وہ اکیلا ہی پستول کے ساتھ گاندھی جی کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور ابھی پوجا شروع ہوئی تھی کہ ناتھورام نے پستول نکال کر‘ گاندھی جی پر گولیاں چلا دیں اور یہ ضعیف بوڑھا فوراً ہی موت کی آغوش میں چلا گیا۔ گاندھی جی کی احتجاجی موت کے نتیجے میں کانگریس کی حکومت پر سخت دبائو آیا اور اس نے پاکستان کے حصے کے اثاثے معاہدے کے مطابق دے دیئے۔ اس تاریخی واقعہ سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ہندو کی سیاست کتنی بھی لبرل ہو‘ آخری فیصلے کے وقت متعصب ہندو ہی غالب آتے ہیں۔ 
بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کی مثال بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ کانگرس کی سیکولرسیاست پر آخر کار متعصب ہندو ذہنیت غالب آئی اور بی جے پی جو انتہاپسند ہندوئوں کا سیاسی اتحاد ہے‘ وہ انتخابات میں کامیاب ہو گئی۔ نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم بنے۔ عمومی خیال یہ تھا کہ اب ہندوازم ‘ سیاست پر غالب آ جائے گا۔ مودی نے ابتدا میں یہ بھی کوشش کی کہ انتہاپسندانہ ہندو نظریات کو فروغ دیا جائے۔ لیکن اکثریت کی مزاحمت کی وجہ سے وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی‘ بھارتی حکمرانوں کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی۔ مودی کو سب سے زیادہ دکھ اور صدمہ اس بات کا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارت میں ہوتے ہوئے بھی کشمیری پنڈتوں کو ‘جو کہ فسادات کے دوران کشمیر چھوڑ کر بھارت آ گئے تھے‘ واپس کشمیر آ کر آباد ہونے کی اجازت نہ دی۔ ریاستی حکومت نے بھارتی شہری جن کی اکثریت ظاہر ہے ہندو تھی‘ ان کے لئے مقبوضہ کشمیر جائیدادیں خریدنے پر قانونی پابندی عائد کر دی۔ مودی جیسے کٹرہندوکے لئے یہ بات بڑی تکلیف دہ تھی کہ اس کی حکومت میں بھارتی ہندو‘ کشمیر کے اندر جائیدادیں نہیں بنا سکتے۔ بھارتی وزیراعظم بن کر‘ مودی کی شدید خواہش تھی کہ کشمیرجنت نظیر میں بھارتی ہندو جائیدادیں خرید کر ‘اپنی اجارہ داریاں قائم کر لیں۔ کشمیریوں کو داد دینا پڑتی ہے کہ ہندو کے اقتدار اور حکمرانی کے باوجود انہوں نے اس قانون میں ترمیم سے انکار کر دیا۔ 
مودی نے اپنی پارٹی کی معقول نمائندگی کے باوجود کشمیر میں بی جے پی کی ریاستی حکومت بنانے کی پوری کوشش کی۔ لیکن مفتی سعید کی پارٹی اسمبلی میں اچھی پوزیشن لے آئی اور اس طرح مودی کو‘ مفتی سعید کی سربراہی میں مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن ریاست انتظامیہ میں ہندو بیوروکریسی بھاری اکثریت میں تھی اور اسی کی رپورٹوں کی روشنی میں کشمیر کے اندر ہندونواز پالیسیاں بنا کر جبراً نافذ کی جانے لگیں۔ ظاہر ہے مسلمانوں میں ردعمل ہونا تھا۔ ان کی طرف سے مخالفت ہوئی‘ تو ریاست میں پہلے سے موجود فوج کو متحرک کر دیا گیا۔ اس نے شہروں میں آتے ہی بلاجواز پوری آبادی کو عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں سمیت گھروں میں قید کر دیا۔ نوجوانوں نے مزاحمت کی‘ تو ان پر وحشیانہ تشدد شروع کر دیا گیا۔ یہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ نہتے نوجوانوں پر وہ بدترین اسلحہ استعمال کیا گیا‘ جس کا استعمال پوری دنیا میں ممنوع ہے۔ برہان الدین وانی ایک پرجوش نوجوان تھا‘ جو کشمیری عوام کے لئے آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ موجودہ تحریک آزادی اسی نوجوان کے خون سے روشن ہوئی۔ وانی کی شہادت کے بعد‘ بھارت کے ریاستی ظلم و جبر میں اضافہ ہوتا گیا۔ برہان الدین وانی مزاحمتی جنگ میں بھارتی فوجوں کے لئے مشکلات کھڑی کر رہا تھا۔ بھارت کے ایک فوجی دستے نے منصوبہ بندی کے بعد اسے گھیر کے شہید کر دیا اور اس شہادت میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ‘شعلوں میں ڈھل گئی۔ اس جوان رعنا کی موت پر تمام اہل کشمیر کو دکھ تھا۔ وانی کشمیر کے حسن کی مثال تھا۔ بہت ہینڈسم تھا۔ بہت ہی شریف اور نیک دل۔ قتل و غارت گری پر وہ یقین ہی نہیں رکھتا تھا۔ ایک مغربی صحافی جسٹن رولٹ نے جب وانی کے اہل خاندان سے ملاقات کی‘ تو اس کی والدہ میمونہ اور والد مظفروانی کے حوصلے میں ذرا بھی کمی نہیں آئی تھی۔ باپ نے کہا ''ہمیں اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خوشی ہے۔‘‘ اس کی والدہ نے بتایا کہ ''جہاد کی طرف جانے کے بارے میں میری اپنے بیٹے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ جہاد تو ہم پر فرض ہے۔ جب دنیا سے جائیں گے تو اللہ پوچھے گا کہ میرے لئے کیا کیا۔ بیٹا جوان ہوا تو ہم نے اللہ کی راہ پر جانے دیا۔ برہان جب اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا تو بتائے گا کہ جب میں پندرہ برس کا تھا تو گھر سے نکلا۔ میں نے اللہ کی راہ میں جان دی۔‘‘ مظفر وانی کے الفاظ تھے ''یہاں ایسا کوئی نوجوان نہیں ہے‘ جسے بھارتی فوج نے مارا پیٹا نہ ہو۔ بہت سی عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ ان کے شوہر شہید ہو گئے۔ جب یہ سب اتنا بڑھ گیا ‘ تو ہم سب لوگ جمع ہو کر آزادی کے لئے گھروں سے باہر نکل آئے۔‘‘برہان کی ماں نے عزم و ہمت سے تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا ''ہم نے بیٹا کھو دیا لیکن اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved