بلاول بھٹو نے یہ نعرہ ایجاد کر کے ''مودی کا جو یار ہے‘ غدار ہے غدار ہے‘‘ پاکستان اور بھارت کے بنیادی تضاد کو عین وقت پر نمایاں کیا ہے۔اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑا جھکائو نمودار ہو رہا ہے۔ اسی کو دیکھ کر بھارتی وزیراعظم‘ نریندر مودی نے کشمیر پر قبضے کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ‘ ریاست پاکستان کے علاقوں پر منہ مارنا شروع کر دیا اور جوش میں آکر انہوں نے ‘ بھارت کے گزشتہ یومِ آزادی کے موقع پربلوچستان‘ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت کی طرف بھی اپنے مذموم عزائم کی کمندیں پھینکیں اور اپنی جارحانہ پالیسی کو مزید توسیع دینے کی کوشش کی۔ مزید سے مراد یہ ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر پر قبضے کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے‘ پاکستانی کشمیر اور بلوچستان تک مذموم نظریں اٹھانا شروع کیں لیکن آخر کار پاکستان کے عوام اپنے جذبہ حب الوطنی پر قابو نہ رکھ سکے اورسرکاری پالیسیوں کے خلاف ‘باغیانہ جذبہ اتنی شدت سے ابھرا اور وہ بھی بلوچستان تک‘ جہاں مدتوں سے بیرونی فنڈنگ بھی‘ ہمارے سب سے بڑے صوبے میں علیحدگی کے جذبات پھیلانے میں ناکام رہی۔ بلوچستان اور گلگت کے خلاف بھارتی عزائم کا کھلا نعرہ لگانے کا حوصلہ‘نریندر مودی نے دکھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں کے خلاف بھارتی عزائم کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ نریندر مودی کی مادر پارٹی بی جے پی‘ روز اول ہی سے پاکستان کو ہڑپ کرنے کے نعرے لگا رہی ہے لیکن پاکستان نے اپنی دفاعی قوت میں مسلسل اضافے اور قوم کے حب الوطنی کے ارتکاز کی وجہ سے‘ بھارتی انتہا پسند اکھنڈ بھارت کے نعرے لگانے سے گریز اں ہو گئے۔ہماری بد قسمتی کہ مغربی پاکستان کے جاگیردار حکمرانوں اور فوج نے‘ اقتدار پر قبضہ جما کر‘ مشرقی پاکستانی عوام کے اکثریتی حقوق سلب کر لئے اور اس نا انصافی کے خلاف ‘ان کی بغاوت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ بھارت نے مشرقی پاکستان کو ہم سے علیحدہ کرلیا۔ بھارتی اسے آج بھی اپنی فتح سمجھتے ہیں۔یہ ہماری بد قسمتی تھی کہ حکمرانی کے بھوکے‘ طاقت ور طبقوں نے ‘مشرقی پاکستان کی اکثریت کے حقوق چھین کر قومی یک جہتی کی جڑیں کمزور کر دیں۔ بھارت کو موقع مل گیا کہ وہ آبادی کے اعتبار سے ہمارے ملک کے سب سے بڑے صوبے پر‘ فوجی طاقت سے قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گیا۔
شکست خوردہ باقی ماندہ پاکستانی عوام نے ملک کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے کیا اور نہ صرف فوج کے حوصلے دوبارہ بلند کر کے‘ اسے پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور بنا دیا بلکہ ایٹمی طاقت بننے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ نام نہاد عالمی برادری میں کشمیر کا کیس پاکستان کے حکمران طبقوں نے‘ اپنی حماقتوں سے کمزور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ گزشتہ چند ماہ سے پاکستان کی اعلیٰ قیادت میں‘ ہمسائیگی کی خواہش میں شدت پیدا ہوتے دیکھ کر‘ بنیے کی فطرت کے عین مطابق‘ بھارت کی ہوس بڑھنے لگی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر کے‘ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ پوری ریاست کو ہڑپ کرنے کے لئے‘ کشمیری عوام پر مظالم میں اضافہ شروع کر دیا۔بھارت کے عزائم کو بے نقاب ہوتے دیکھ کر‘ کشمیریوں کی نوجوان نسل کے جذبہ آزادی کو مہمیز ملی اور انہوں نے مزاحمت تیز کر دی۔ نتیجے میں‘ قابض بھارتی افواج نے بغاوت کو پھیلتے دیکھ کر‘ اپنی موجودگی اور ظلم و ستم کے ماحول میں‘ بغاوت کو بڑھتے دیکھ کر بد حواسی میں‘ کرفیو کے تسلسل اور پھیلائو میں اضافہ شروع کر دیا۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کے رابطے کاٹ دیئے۔ نہتے شہریوں پر ظلم وستم بڑھا کے‘ ان کی زندگی اجیرن کر دی اور دن کے ساتھ رات کا کرفیو بھی نافذ کر دیا۔پٹرول اور ڈیزل کی سپلائی روک دی گئی۔ دودھ‘ سبزیاں اور دیگر غذائی اجناس‘ لے کر جانے والی گاڑیوں کو شہروں اور قصبوں میں‘ داخل ہونے کے اجازت نامے ختم کر کے‘ ضروری غذائی اشیا کی فراہمی بھی بند کر دی۔ جس واقعے نے کشمیریوں کے صبر کا آخری بند بھی توڑ دیا‘ وہ جنوبی قصبے کھر یوشار میں ہلاکت کا نیا واقعہ تھا۔ مقامی باشندوں کے مطابق‘ قابض فوجیوں نے رات کو گائوں پر دھاوا بولا اور کئی نوجوانوں کو گرفتار کر کے‘ کھریو میں قید کر دیا۔ رات کی تاریکیوں میں ان نوجوانوں پر شدید جسمانی تشدد کیا گیا۔ جس کے دوران تیس سالہ لیکچرار‘ شبیر احمد کی شہادت ہو گئی۔ اگلے دن شبیر شہید کی لاش کھریو پہنچائی گئی تو وہاں کہرام مچ گیا۔ اس سے پہلے 14 اور15 اگست کو‘ سخت ترین کرفیو کے دوران‘ مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں چھ نوجوان شہید ہو گئے تھے۔یاد رہے 8جولائی کو مسلح کمانڈر‘ برہان وانی کی پولیس آپریشن کے دوران شہادت پر‘ کشمیریوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا اور بھارت مخالف‘ احتجاجی لہرتمام وادی میں پھیل گئی۔ا س تحریک کو دبانے کے لئے غضب ناک بھارتی افواج مشتعل ہو کر‘ اشتعال کی حالت میں نہتے عوام پر چڑھ دوڑی۔ ان فوجی کارروائیوں کے دوران‘70نہتے کشمیری شہید ہو گئے اور پانچ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ تازہ دم فوج کے حملوں کے دوران‘ بھارتی افواج نے ان ممنوع ہتھیار وں کااستعمال بھی کیا‘ جن پر عالمی قوانین کے تحت پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ ان میں لوہے کے پتھرے یا پیلیٹس کا وحشیانہ استعمال کیا گیا۔جن کا ہدف بننے والے نہتے انسانوں کے سارے جسم میں‘ لوہے کے ٹکڑے گھس گئے اورجن نوجوانوں کے منہ سامنے آگئے‘ ان کے چہرے اور آنکھیں بری طرح سے متاثر ہوئیں اور بیشتر نوجوان بینائی سے محروم ہو گئے۔
نہتے کشمیریوں کے جسمانی زخموں اور آنکھوں سے محرومی نے‘ مودی کے حوصلے اتنے بڑھا دئیے کہ اس نے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر‘ تاریخی لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے‘ پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت کو بھی‘ اپنی ہوس کی لپیٹ میں لے لیا۔حد یہ ہے کہ بھارت کے حامی مسلمان لیڈر ‘عمر عبداللہ بھی‘ اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے۔انہوں نے اپوزیشن کے دیگر گروپوں کے ہمراہ‘ شہادتوں کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا اور اعلان کیا کہ وہ بھارتی صدر‘ پرناب مکھرجی سے ملاقات کر کے‘ ان وحشیانہ مظالم کی تفصیل بتائیں گے۔مبصرین کہتے ہیں کہ ظلم و ستم کی یلغار کے دوران‘ نریندر مودی اور مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے‘ مظالم کی نئی لہر کے نتیجے میں جو بیانات دئیے‘ ان سے عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہو گیا۔15اگست کو محبوبہ مفتی نے انڈیا زندہ باد کا نعرہ بلند کر کے‘ سب کو حیران کر دیا اور عوام سے اپیل کی'' بندوق اور تشدد سے کچھ حاصل نہیں ہوگا‘‘۔
مقبوضہ کشمیر میں بلند پہاڑوں پر‘ امر ناتھ کے نام سے ہندوئوں کی ایک مقدس گپھا(غار) واقع ہے۔ جہاں ہندو بھاری تعداد میں قافلے بنا کر‘ پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے‘ اپنے اس مقدس مقام پر پہنچتے اور پوجا کرتے ہیں۔ ہندوئوں کے ان قافلوں پر باغی مسلمان نوجوان موقع پاکر‘ حملے کیا کرتے تھے۔ بھارتی حکومت نے یاتریوں کی حفاظت کرنے کے لئے‘ مسلح بھارتی محافظ راستوں پر متعین کر دئیے۔ یاتریوں پر حملوں کا سلسلہ جب روکا نہ جا سکا تو فوجی محافظوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے لگا۔ اس مرتبہ دس ہزار فوجیوں پر مشتمل نفری تمام راستے کی حفاظت پر مامور تھی۔ ان فوجیوں کے علاوہ‘ مسلح رضا کاروں کو بھی راستے کے اردگرد شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں اضافی طور پر متعین کیا جانے لگا۔ ان سب کے علاوہ چار ہزار افرادپر مشتمل گوریلا دستے‘ نئی دہلی سے کشمیر پہنچائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ لاکھ افراد پر مشتمل پولیس کی بھاری نفری الگ یاتروں کی حفاظت پر لگی ہوئی تھی۔غیر مسلح اہلکار بھی تیس ہزار کی تعداد میں‘ ریاست کی بستیوں میں پھیلے ہوئے تھے۔اگلے چند روز میں اتر پردیش کے علاوہ دیگر بھارتی ریاستوں میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ انتخابی عمل بحال رکھنے کے لئے‘ بھارتی فوج وسیع پیمانے پر ان ریاستوں میں بھی تعینات کی جائے گی۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں چاروں طرف مسلح افواج کی بھاری تعداد میں موجودگی کی وجہ سے ‘ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی سیاسی مجبوریوں میں اضافہ ہو جائے گا۔انہیں خوف ہے کہ عوامی تحریک کو دبانے کے لئے فوج کا استعمال کیا گیا تو فل سکیل کریک ڈائون ہو سکتا ہے۔سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قدم قدم پر بھارت کے مسلح محافظوں کی موجودگی میں بھی‘ ریاست میں امن و امان قائم نہیں رکھا جا سکتا تو مودی اور ان کے ساتھی حواس باختہ ہو کر‘ بڑے پیمانے پر جنگی کارروائیاں شروع کر سکتے ہیں‘ جس کے نتیجے کا کسی کو بھی اندازہ نہیں۔