تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     20-08-2016

’میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس‘

میں عمران خان کی سیاست کو دیکھتا اور اکثر جون ایلیا کو یاد کرتا ہوں ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
یہ محض شاعری نہیں، جون کی آپ بیتی ہے جو دو مصرعوں میں سمٹ آئی ہے۔ نرگسیت نے جون ایلیا کو برباد کیا اور یہی عمران خان کے درپے ہے۔ خود پسندی جب خود پرستی میں ڈھلتی ہے تو آدمی عالم ِمثال کو اپنے اردگر دیکھتا ہے۔ اسے گمان ہوتا ہے کہ اس کا تخیل امرِ واقعہ میں ڈھل چکا۔ اس کی آنکھ کھلتی تو ہے مگر تاخیر کے ساتھ۔ اس کے بعد تنہائی ہوتی ہے اور عمرِ رائیگاں کا ماتم۔ تنہائی نرگسیت کا نا گزیر نتیجہ ہے جس سے بچنا محال ہے۔
میں اب عمران خان کے بارے میں کچھ لکھنے سے گریز کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سعی لاحاصل ہے۔ اس کانتیجہ ان دو حرفوںکے سوا کچھ نہیں جو اس کی محبت میں گرفتار کچھ لوگ بھیجتے ہیں، اکثر بغیر پڑھے اور سمجھے۔ محبت میں بڑا نقص یہ ہے کہ وہ حقیقت پسندانہ تجزیے کی صلاحیت سے محروم ہو تی ہے۔ محبوب آب و گل سے نہیں، رنگ و خوشبوسے تخلیق ہوتا ہے۔ اس لیے عرض کرتا رہتا ہوں کہ اہل سیاست سے رومان نہیں پالنا چاہیے۔ سیاست کی دنیا اور ہے، دل کی دنیا اور۔ یہ بات کہی تو جا سکتی ہے، سمجھائی نہیں جا سکتی، خود کو بھی نہیں۔ اس لیے دشنام کو محبت کی مجبوری سمجھ کر نظر انداز کرتا ہوں۔کہتے ہیں کہ کچھ افراد کو بطور خاص یہی ذمہ داری سونپی گئی کہ ناقدین پردو حرف بھیجتے رہیں۔ حقیقت خدا جانے۔ میں گریز کے خواہش کے باوجود، پھر لکھنے بیٹھ جاتا ہوں تو اسے کالم نگار کی مجبوری سمجھا جائے کہ اس کے لیے عصری سیاست سے گریز مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
پاکستان کا آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی متبادل قیادت نہیں۔ نواز شریف روایتی سیاست کا جدید ایڈیشن ہیں۔ ان کی سیاست انہی خطوط پر استوار ہے جو مدتوں سے قائم ہیں۔ اس میں کوئی ندرت ہے نہ جدت۔ وہ اِس روایتی سیاست کی خوبیوں اور خامیوں، دونوں کے نمائندہ ہیں۔ یہ ایک پیکج ڈیل ہے۔ نواز شریف کے انتخاب کا مطلب دونوں کو قبول کرنا ہے۔ مثال کے طور پر روایتی سیاست میں سب سے اہم نکتہ سیاسی کامیابی ہے۔ حلقۂ انتخاب میں کامیاب ہونا ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ کون امیدوار اس کی اہلیت رکھتا ہے۔ جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے(Electables) اس سیاست کا فطری انتخاب ہیں۔ اخلاق اور دیانت سکہ رائج الوقت نہیں ہیں۔ نواز شریف صاحب کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اخلاق کی خاطر، نشست ضائع کرنے کا خطرہ مول لیں۔ روایتی سیاست کا درس یہی ہے۔ اگر کہیں حسن اتفاق سے اخلاق اور عصبیت جمع ہو جائیں تو یقیناً نواز شریف اس پر مسرور ہوںگے۔ وہ شاید یہی چاہتے ہوں، لیکن محض دیانت ان کی ترجیح نہیں ہو سکتی۔ پیپلز پارٹی کی سیاست بھی اس سے مختلف نہیں۔
پاکستان کو اس سیاسی کلچر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی سماجی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ جمہوریت سماجی تبدیلی کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ جمہوریت کی موجودگی میں بہتری کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ جمہوریت خود ایک سماجی تبدیلی ہے۔ نظام ِا قدار کی مکمل تبدیلی جوسماجی تبدیلی کے لیے ناگزیر ہے،اگر نہ بھی آئے توجمہوریت سے وابستہ خیر بھی کچھ کم نہیں۔ اگر ہم اس پر ہی کھڑے ہو جائیں کہ قیادت کی تبدیلی ہمیشہ جمہوری طریقے سے آئے گی تو اس سے بھی اصلاح کے بہت امکانات وابستہ ہیں۔ انہی میں سے ایک یہ ہے کہ عوام کے پاس اگر بہتر متبادل ہو تو لوگ اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ بہتری کا تعلق افراد سے ہوتا ہے اور نظام سے بھی۔ جمہوری تبدیلی کے نتیجے میں جس حد تک بہتری ممکن تھی، عمران خان اسے برپا کر سکتے تھے۔ افسوس کہ انہوں نے یہ موقع گنوا دیا۔
عمران خان اپنی افتاد طبع کے باعث مثبت سیاست سے تدریجاً منفی سیاست کی طرف بڑھے۔ اب وہ پوری طرح رد عمل کی سیاست کا شکار ہو چکے۔ ردِ عمل ایک منفی جذبہ ہے۔ ہیجان، رومان اور انتقام اب ان کی سیاست کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ پے در پے ناکامیوں نے انہیں اس سیاست میں پختہ تر کر دیا ہے۔ اس منفی سیاست کے باعث ان کی شخصیت کا مثبت پہلو ایک تخریبی قوت بن چکا ہے۔ یہ مثبت پہلو جہد ِمسلسل ہے۔ ان کی نرگسیت نے انہیں یہ سکھایا ہے کہ انسان جہد ِمسلسل سے ہر ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتا ہے۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ فاسٹ بالر نہیں بن سکتے۔ انہوں نے محنت سے اس تاثر کو بدل ڈالا۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے، وہ اب یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ سیاست کو بھی بدل ڈالیںگے۔کرکٹ اور سیاست کا فرق کبھی ان کی سمجھ میں نہیں آسکا۔ نرگسیت کے ساتھ جب سماجی اور سیاسی حرکیات سے عدم واقفیت جمع ہو جائیں تو پھر ایک المیہ ہی تخلیق ہو سکتا ہے۔ 
وہ نواز شریف کا متبادل بن سکتے تھے اگر وہ جمہوری تبدیلی کے عمل کو سمجھتے ہوئے سیاست کرتے اور قوم کے سامنے ایک متبادل رکھتے۔ یہ متبادل قیادت اور پروگرام دونوں صورتوں میں ہونا چاہیے تھا۔ وہ ایسا نہیں کر سکے۔ اس امرِ واقعہ سے اب انکار مشکل ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ میں قیادت اور جماعتی کلچر میں کوئی جوہری فرق ہے۔ لوگ اس کو مانتے ہیں لیکن عمران خان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ بھی ایک واہمہ (myth) ہے۔ ان کے بارے میں اب بہت سی باتیں عدالتوں کے رو برو کھلنے والی ہیں۔ یہ بھرم بھی اب چند دن کا مہمان ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کا انہوں نے دفاع کیا ہے۔ پھر دیانت داری کا یہ تصور بھی میرے لیے کبھی قابل فہم نہیں رہا کہ ہر بد دیانت کی بد دیانتی پر پردہ ڈال دینا چاہیے اگر وہ آپ کا سیاسی ہم سفر بن جائے۔ اس سوچ کے ساتھ بھی اگر کوئی شخص 'ذاتی طور پر دیانت دار‘ مانا جا سکتا ہے تو پھرلغت میں 'دیانت‘ کے معانی کو بدل دینا چاہیے۔ 
آج وہ ہر صورت میں نوازشریف صاحب کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ رد عمل کی اس نفسیات نے عمران کو روایتی سیاست کے میدان میں لا کھڑا کیا ہے۔ انہیں شاید اندازہ نہیں یہ نواز شریف کا میدان ہے۔ یہاں پر ان کی فتح کے امکانات بہت کم ہیں۔ آج ان کی مقبولیت کا گراف نیچے گیا ہے تو ان کی جماعت کے لوگ ن لیگ کے دروازے پر دستک دینے لگے ہیں۔ ان 'بڑے راہنماؤں‘ کے مطالبات اتنے چھوٹے ہیں کہ آدمی کو اس اخلاقی پستی پر حیرت ہوتی ہے۔ اس پر بھی ن لیگ کے لوگ سوچ رہے ہیں کہ انہیں قبول کیا جائے یانہ کیا جائے۔ 
اب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ مقبولیت کم ہو جائے تو بھی وہ پاناما لیکس کو انجام تک پہنچائیں گے۔ یہ کم و بیش واضح ہے کہ وہ قانونی جنگ نہیں جیت سکتے۔ اس کے باوجود رد عمل کی سیاست پر ان کا اصرار اُن کی سیاست کا راستہ مزید تنگ کر دے گا۔ مجھے ملال ہے کہ بطور قوم ہم نے متبادل قیادت کے فروغ کا ایک موقع گنوا دیا۔ افسوس یہ ہے کہ خود عمران خان کو اس کا اندازہ نہیں۔ جون ایلیا کی طرح نرگسیت انہیں بھی اس موڑ پہ لے آئی کہ انہیں اپنا نفع نقصان بھی دکھائی نہیں دیتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved