گفتگو ہی نہیں‘ قلم بھی غضب کا بیباک ہے‘ نشانہ جنس مخالف ہی کو بنایا جاتا ہے۔ مرد کیسا کچھ خود غرض اور حرص و ہوا کا پتلا ہو‘ یہ خاص موضوع ہے۔
پاکستان اور زاہدہ ہم عمر ہیں۔ ہم عمروں میں گاڑھی چھننا چاہیے لیکن یہاں مادر وطن سے یک گو نہ احتراز ہی پایا میں نے تو ‘اس ملک کے معرض وجود میں آنے کے محرکات پر جم کر ہمارا تنک ظرف تنگ نظر ممدوح بولتا ہی کب ہے۔ مفروضات میں قومی زندگی تباہ کر دی۔ ہماری قیادت خود غرضوں کی پوٹ رسوائے عالم چلی آ رہی ہے۔ مسلم لیگ اپنا کیا دھرا بھول بھال کر ایک طرف ہو بیٹھی۔ نوجوان نسل کی برگشتگیٔ خاطر کا جائزہ لینے والے کیا ہوئے۔ عقیدت کے لحاظ سے زاہدہ ملحد ہیں۔ موحد ہوتیں تو چل بھی جاتیں‘ روحانیت سے کوسوں دور ‘ خدا واسطے کا بیر‘ مادیت اور روٹی کپڑا اور مکان کی علمبردار‘ ہندی دیومالائی تہذیب پر جان چھڑکتی اور جھنڈے گاڑتی رہتی ہیں‘ مذہبی ہوں سیاسی ہوں‘ اپنے عقائد میں پختہ مگر انتہا پسند نہیں ہیں‘ سنانے کے ساتھ ساتھ سنتی بھی ہیں‘ مسلمان کی خرابیوں کی تہمت اسلام پر لگانا قرین انصاف تو میں سمجھتا ہوں ‘ نہیں ہے۔
ہماری آر جار بڑھتے بڑھتے ڈیرے ڈالنے تک پہنچی ‘ رات دن کا اٹھنا بیٹھنا ‘رہنا سونا‘ کھانا پینا‘ کھلا ہوا تو ہاتھ ہے ہی زاہدہ کا‘ روپے پیسے کی ریل پیل ہو تو جی چاہے گھر اُجاڑ دیجیے۔ ذرا ہاتھ اپنی شاہ خرچیوں کے طفیل تنگ ہوا اور یہ آگئیں مکھی چوسنے پر۔ دو انڈے کیوں ایک کھایئے، خدا کے لیے ابھی تو دھلوایا ہے یہ بدبخت قالین‘ جوتے اتار کر بھی تو بیٹھا جا سکتا ہے‘ پائوں اوپر رکھنے سے صوفوں کا یہ ہلکا رنگ ہی بدل جائے گا۔ ہائے اللہ قلم کھول کے تو نہ رکھیے اور جھٹکیے وٹکیے گا نہیں‘ ادھر ادھر چھینٹے اور داغ دھبے پڑ گئے تو سب رنگ روغن یہیں دھروا لوں گی۔ یہ سب ہنسی کھیل میں ہوتا ہے بظاہر ''ذری ذری‘‘ بات پر ایسی کڑی نظر رکھنا اور خبر لینا توبہ ہے بھاڑ میں جائے یہ مفت کا کھانا اور رہنا‘ ہم تو مردانہ نشست و برخواست کے آدمی اور عادی ہیں‘ میری وہ نیم مردہ سی قبائلیت کیا آسودہ ہو گی یہاں‘ چلو ہٹائو زیادہ محبتیں نہ بھگارو‘ کیسی اسیری کہاں کی رہائی بہت ہو چکا ‘ سمیٹو اپنا بوریا اٹھائو اپنا بستر‘ یہاں مین میخ نکلے گی‘کیڑے ڈالے اور نکالے جائیں گے‘ عورت ہیں نا آخر بہارن کہیں کی۔
3جنوری 1983ء پوسٹ آفس بکس11126‘ گلشن اقبال کراچی فون463609, 461702
انیس شاہ آداب
یاد تو آپ بہت آتے ہیں لیکن قلم اٹھانے میں جس قدر کاہل میں ہوں‘ شاید ہی کوئی ہو۔ آپ کا لکھا ہوا خاکہ ملا تھا۔ بہت اچھا تھا۔ آپ نے لکھا ہے کہ میں نے تو بس ایک چوتھائی زہر اگلا ہے آپ کے خلاف۔ تو شاہ صاحب یہ ایک چوتھائی زہر کیا ہوتا ہے۔ مسودہ تو آپ کے پاس ہو گا‘ اگر نہ ہو تو میں فوٹو سٹیٹ بھیج دوں تو آپ دل کی ساری بھڑاس نکال سکیں۔ یوں بھی زہر دل میں رہتا ہے تو دل سڑنے لگتا ہے۔
آپ کے بھیجے ہوئے سنگھی صاحب آئے تھے۔ ان کو آپ کے خاکوں کا مسودہ دے دیا تھا۔ اگر کبھی موقع ملے تو رسید دے دیجیے گا۔
گھر گزشتہ دو مہینے سے بیمارستان بنا ہوا ہے۔ ایک پیر ہسپتال میں ہے تو دوسرا دہلیز میں گھر میں تو کبھی کبھی میرا سایہ جاتا ہے۔
اور کیا لکھوں۔۔۔؟
مخلص
زاہدہ حنا 12-3-83
ایک مشاعرے میں اگلے روز کشور ناہید نے بتایا کہ تمہیں زاہدہ حنا کا خاکہ نہیں لکھنا چاہیے تھا‘ اس نے بھی اس کا برا منایا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میں نے نہیں لکھا بلکہ نقلِ کُفر کُفر نباشد کے مصداق کسی کا لکھا اور کتاب میں چھپا ہوا تھا خاکہ ہی میں نے نقل کیا ہے۔ وہ بھی جونؔ کا توں نہیں بلکہ کئی جگہ سے ایڈٹ کر کے لکھا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ زاہدہ اس کا برا منائیں گی تو میں ہرگز یہ کام نہ کرتا۔ بلکہ جب میں نے یہ خاکے شروع کیے تو انہیں اس وقت ہی مجھے منع کر دینا چاہیے تھا۔ زاہدہ حنا کی جتنی قدر میرے دل میں ہے وہ اس سے خوب واقف ہیں اور میں انہیں کشور ناہید‘ فہمیدہ ریاض اور ڈاکٹر فاطمہ حسن سے کسی طور کم نہیں سمجھتا۔ پھر اس جوڑے کے درمیان جو لمحات گزرے ہیں،اس سے کون ناواقف ہے کہ گھروں میں ایسی بدقسمتیاں رونما ہوتی ہی رہتی ہیں۔ بہرحال‘ ان کی اس دل آزاری پر میں ان سے تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں‘ وہ ایک بڑی ادیب ہیں۔ اس لیے دل بھی بڑا رکھیں۔ جونؔ میرے بھی دوست تھے‘ اس لیے ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ میں نے خوشی سے نقل نہیں کیا ہو گا۔
پہلے ارادہ تھا کہ یہ خاکے ختم ہوتے ہیں تو میں ان کی شہرہ آفاق تصنیف ''سفر نامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ قسط وار نقل کیا کروں گا لیکن ایک اور کتاب میرے ہاتھ لگی ہے جو بھی خاکوں ہی کا مجموعہ ہے اور موصوف جس کے مرتب ہیں اور جس کا عنوان ہے''غیر معیاری خاکے‘‘ جو مختلف مصنفین کے تحریر کردہ ہیں۔ سو‘ اس سے پہلے میں اس کتاب میں سے کچھ خاکے پیش کروں گا۔ اس کا دلچسپ انتساب اس طرح سے ہے:
دادا پیر محمد شاہ جیلانی زمیندار سے کچھ آگے اور جاگیردار سے قریب کے آدمی تھے‘ ان کے مرتے ہی خرید کم فروخت زیادہ اور بندر بانٹ میں زمینیں بس نام کی رہ گئیں‘ اس پر بھی ابّا سید مبارک شاہ جیلانی کے اُٹھتے ہی سالے مند شاہ ولد پیر احمد ولد محمد شاہ اس کا بھائی ولی محمد شاہ خود میرا بھائی مہدی شاہ‘ احمد شاہ ولد سالے مند‘ کلیم ولد سالے مند محمد شاہ ولد مہدی شاہ ولد عبدالستار شاہ تقریباً سارا خاندان مجھ پر پل پڑا۔ سبھی کے تقاضے چلے آ رہے ہیں‘ کوئی دو ایکڑ کی بات کرتا ہے کوئی ایک بیگھے کی کوئی حد براری کی‘ کوئی کتابوں کی لائبریری کی عمارت توڑ کر آدھا ملبہ اٹھالے جانے کی‘ تو کیا دادا کی ساری جاگیر میرے تصرف میں ہے‘ تینتالیس(43) برسوں سے یہ گدھ میری بوٹیاں نوچ رہے ہیں‘ ان کی ڈھٹائی اور میری سخت جانی کی داد دیجیے گا۔
انیس شاہ 12دسمبر دو ہزار تیرہ‘ محمد آباد تحصیل صادق آباد
سو‘ یہ کتاب یا اس میں سے چیدہ چیدہ خاکے انشاء اللہ اگلے ہفتے سے شروع کروں گا‘ موصوف کے اپنے تحریر کردہ دو خاکے بھی شامل ہیں جن میں رئیس امروہوی کا خاکہ بھی ہے لیکن یہ وہی ہے جو ہم ان خاکوں میں پیش کر چکے ہیں‘ البتہ اس کے علاوہ چند خاکے پیش کروں گا جن میں گیان چند کا لکھا ہوا غالبؔ کا خاکہ اور شاہد احمد دہلوی کا تحریر کردہ جوش ملیح آبادی کا خاکہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
اس کتاب میں کل بارہ خاکے ہیں‘ اسے فکشن ہائوس لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 360 روپے رکھی گئی ہے۔
آج کا مقطع
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں، ظفرؔ
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف