تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     21-08-2016

سانحۂ بہاولپور کے بعد…!!

17اگست کو جنرل ضیاء الحق کی 28ویں برسی منائی گئی۔ کبھی اس موقع پر فیصل مسجد کے گردو پیش لاکھوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ اب یہ تعداد ہزاروں تک آ گئی ہے۔ ان میں سے بھی بیشتر کا تعلق اعجاز الحق کے حلقۂ انتخاب(ہارون آباد) سے ہوتا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد اور خطے میں ہندوستان کی بالادستی کے عزائم کو خاک میں ملا دینے کے حوالے سے ضیاء الحق کا کردار تاریخ کا حصہ بن چکا۔ پاکستان کے داخلی معاملات پر ان کے اثرات بھی ایک اہم موضوع ہے۔
آج پاکستان کی سیاست میں اعجاز الحق اپنے والد کے سیاسی ورثے کی علامت ہے۔''شہید جہادِ افغانستان‘‘ کی نسبت سے ہم اس سے ایک خاص تعلقِ خاطر محسوس کرتے۔ اس نے نائن الیون کے بعد واشنگٹن سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو جانے اور پاکستان کے قومی مفادات کو اپنے اقتدار کے لیے قربان کر دینے والے ڈکٹیٹر کی ''نوکری‘‘ کر لی‘ تو ہمارا دل کھٹا ہو گیا۔ ان دنوں ہم جدہ میں ہوتے تھے۔ وہ عمرے پر آتا تو اس سے ملنے کی کوئی خواہش نہ ہوتی۔
پھر ڈکٹیٹر رخصت ہو گیا وقت گزرا تو اعجاز سے ہماری شکایت بھی مدھم ہوتی چلی گئی۔جولائی2009میں وہ جدہ آیا تو اس سے طویل ملاقات ہوئی۔ اس کے بعض حصے قارئین کے لیے اب بھی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ وہ بتا رہا تھا:''سانحۂ بہاولپور کے بعد بہت زور لگایا گیا کہ ہم عملی سیاست میں نہ آئیں۔ تب جنرل حمید گل آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ ہم عملی سیاست سے دور رہیں۔ یہ بات انہوں نے مجھ سے بھی کی اور میری والدہ سے بھی کہی۔ 
''آپ کو یاد ہو گا ‘ ہم نے سانحۂ بہاولپور کے چند ہی روز بعد بعض اہم شخصیات پر انگلی اٹھائی تھی۔ چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شمیم عالم کے ساتھ ٹیلی فون پر میری کافی تو تو میں میں ہوئی جب حادثہ ہوا یہ بہاولپور کے کور کمانڈر تھے۔ جنرل اسلم بیگ جو اس سانحہ کے بعد آرمی چیف بنے‘ ان کے نام سامنے بھی کئی سوالیہ نشانات تھے۔ ان کا طیارہ ابھی بہاولپور کی فضائوں میں تھا‘ جب انہیں اس سانحہ کی اطلاع مل گئی لیکن انہوں نے وہاں اترنے کی بجائے راولپنڈی کا رخ کیا۔ اسلم بیگ نے مارشل لاء لگانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن انہیں اپنے فوجی رفقا کی حمایت حاصل نہ ہو سکی ۔چونکہ ہم فوج کی اہم شخصیات کی طرف انگلی اٹھا رہے تھے‘ شاید اس لیے جنرل حمید گل کا اصرار تھا کہ ہم عملی سیاست میں نہ آئیں۔ میرے خیال میں اس میں کچھ ہاتھ امریکیوں کا بھی تھا۔ ہم ایف بی آئی کے حوالے سے بھی سوالات اٹھانے لگے تھے کہ اس حادثے کی تحقیقات کے لیے وہ کیوں نہیں آئی جبکہ اس میں امریکی سفیر اور امریکی ملٹری اتاشی بھی مارے گئے تھے۔ بیرونِ ملک کسی امریکی کو حادثہ پیش آنے کی صورت میں ایف بی آئی 48گھنٹے کے اندر وہاں پہنچنے کی پابند ہے۔ ایف بی آئی سانحۂ بہاولپور کے دس ماہ بعد پہنچی اور وہ بھی اس لیے کہ ہم بہت شور مچانے لگے تھے۔ میں (غیر ملکی بنک میں ملازمت کے سلسلے میں) بحرین میں تھا جب پاکستان میں نئے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر انوار الحق اور ہارون اختر(جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحبزادے) سے ملاقات کی۔ ہم نے کچھ شواہد پیش کئے تھے کہ اس حادثے میں استعمال ہونے والی اعصابی گیس کہاں سے آئی‘ یہ جہاز کے اندر کس طرح پہنچی؟ اس حوالے سے ایر مارشل حکیم اللہ کے سامنے بھی سوالیہ نشان تھا۔ اس ملاقات میں رابرٹ اوکلے نے انوار سے کہا کہ اعجاز سیاست میں آنا چاہتا ہے تو اس طرح کی باتیں کم کر دے۔ ان دنوں سی آئی کا سائوتھ ایسٹ ایشیا ہیڈ کوارٹر پاکستان میں تھا اور مسٹر''B‘‘ اس کے سربراہ تھے۔ ہم ان سے رابطے میں رہتے کہ حادثے کے بارے میں جو بھی نئی اطلاعات ملیں‘ ان سے شیئر کر سکیں۔
ادھر نواز شریف کا اصرار تھا کہ ہم سیاست میں ضرور آئیں۔20اگست کو ضیاء الحق کی تدفین پر جس طرح لاکھوں لوگ امڈ آئے تھے ‘ اس نے اینٹی پیپلز پارٹی عناصر کو نیا حوصلہ دیا تھا۔ شہادت کے بعد یہ نیا ضیاء الحق تھا جو دریافت ہوا۔ نواز شریف کئی بار والدہ صاحبہ کے پاس آئے۔ ایک بار جنرل فضل حق اور ایک اور موقع پر گورنر مخدوم سجاد حسین قریشی(شاہ محمود قریشی کے والد محترم) بھی ان کے ساتھ تھے۔ والدہ صاحبہ کاجواب تھا کہ آپ ہی آگے بڑھیں‘ ہم آپ کو پوری طرح سپورٹ کریں گے‘‘۔
''ایک طرف جنرل حمیدگل آپ کو سیاست میں آنے روک رہے تھے‘ دوسری طرف انہوں نے پیپلز پارٹی کو کٹ ٹو سائز کرنے کے لیے‘ اس کی مخالف تمام سیاسی قوتوں کو متحد کیا اور آئی جے آئی بنائی‘‘۔...''یہ واقعی بڑی عجیب و غریب صورتِ حال تھی۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ امریکیوں کا دبائو تھا یا حمید گل‘ اسلم بیگ کے کہنے پر یہ سب کچھ کر رہے تھے‘ جن پر ہم نے سانحۂ بہاولپور کے حوالے سے براہ راست الزام لگایا تھا۔ ہمارے پاس بہت سے شواہد تھے کہ انہوں نے (جنر ل بیگ) اٹاپسی رکوائی۔ سی ایم ایچ بہاولپور سے ڈیڈ باڈی کے کچھ ٹکڑے معائنے کے لیے لاہور بھجوائے گئے‘ جنرل بیگ نے انہیں واپس نہ آنے دیا اور سی ایم ایچ کے سٹاف کو دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کر دیا‘‘۔
''لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آئی جے آئی کی تشکیل میں جنرل حمید گل کو‘ جنرل بیگ کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی‘‘؟''جی ہاں! جنرل بیگ اور جنرل حمید گل نے آئی جے آئی بنوائی۔ جتوئی صاحب اس کے پہلے سربراہ تھے۔ ان کے بعد مولانا سمیع الحق کی باری تھی لیکن وہ نواز شریف کے حق میں دستبردار ہو گئے...1988ء کے الیکشن میں ہمایوں اختر کا اصرار تھا کہ ہم اپنی الگ جماعت بنائیں لیکن والدہ صاحبہ نواز شریف کو اپنی حمایت کا یقین دلا چکی تھیں۔ 1990ء کا الیکشن ہم نے مسلم لیگ (آئی جے آئی) کے ٹکٹ پر لڑا اور کامیاب ہوئے‘‘۔
یہاں ہم نے نواز‘ اعجاز تعلقات کے حوالے سے ایک نازک سوال کیا۔'' نواز شریف کے حوالے سے آپ کا ایک نفسیاتی مسئلہ بھی رہا آپ اس احساس سے نجات نہیں پا سکے کہ اینٹی بھٹو سیاست آپ کے والد کی وراثت بن گئی تھی۔ آپ1988ء میں بحرین میں بنک کی ملازمت چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے‘ جبکہ نواز شریف رِسک کی پروا کیے بغیر‘ اینٹی پیپلز پارٹی عناصر کی لیڈری کے لیے میدان میں موجود تھے‘ اور یوں وہ اس وراثت کے حقدار بن گئے‘‘۔
اعجاز الحق نے یہاں ایک دلچسپ بات بتائی: ''اپریل1993ء میں جب صدر اسحاق اور وزیر اعظم نواز شریف میں کشمکش عروج کو پہنچی اور صدر نے انہیں گھر بھجوانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے مجھے ایوانِ صدر بلایا اس وقت صدر کے کہنے پر‘ نواز شریف کابینہ کے بعض وزراء استعفے پیش کر چکے تھے۔ صدر نے کہا کہ اگر میں بھی استعفیٰ دیدوں تو وہ مجھے عبوری وزیر اعظم بنا دیں گے۔ میں کوئی وعدہ کیے بغیر اُٹھ آیا ۔اگلے دن صدر کے پرنسپل سیکرٹری نے میری بیگم کو فون کیا کہ اعجاز صاحب نے صدر کو کوئی ''کاغذ‘‘ بھجوانا تھا‘ وہ بھجوا دیں۔ ایوانِ صدر نے اس کے لیے میری پریس کانفرنس کا اہتمام بھی کر دیا تھا لیکن میں آمادہ نہ ہوا۔ الٰہی بخش سومرو ‘ ہمایوں اختر‘ عبدالستار لالیکا اور صدیق کانجو جیسے لوگوں نے استعفے دیدیے تھے لیکن میں کسی سازش کا حصہ بننے کو تیار نہ ہوا۔‘‘
''تب والدہ بھی تو آپ کو ''راہ راست‘‘ پر رکھتی تھیں‘‘۔؟ ''ہاں!ان کا بھی ایک رول تھا۔ میاں صاحب کے ہمارے خاندان سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ انہیں جب بھی کوئی شکایت ہوتی‘ وہ والدہ سے بات کرتے۔ میری سرگرمیوں کے بارے میں انہیں شک ضرور رہتا تھا۔ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سربراہ بریگیڈیئر امتیاز کو ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا بہت شوق تھا۔ ان میں میرا فون بھی تھا۔ ایک دن آرمی چیف جنرل آصف نواز کے ہاں ایک فیملی گیٹ ٹو گیدر تھی‘ میں نے انہیں بتایا کہ بریگیڈیئر امتیاز ہمارے ٹیلی فون سنتے اور پھر نواز شریف کو غلط سلط بتاتے ہیں۔ اس پر جنرل آصف نواز نے کہا‘ میں آرمی چیف ہوں اور وہ میرے ٹیلی فون بھی ٹیپ کرتا ہے۔ میں اگلے دن پہلی بار آئی بی ہیڈ کوارٹر گیا اور بریگیڈیئر امتیاز سے کہا‘ تم کیوں ‘ ہمیں مروانے لگے ہو؟ آرمی چیف کا کہنا ہے کہ تم اس کے ٹیلی فون بھی ٹیپ کرتے ہو۔ اس پر اس نے جواب دیا‘ میں جنرل آصف نواز کے ٹیلی فون ٹیپ نہیں کرتا۔ جن سے وہ بات کرتے ہیں‘ ان کے ٹیلی فون ٹیپ کرتا ہوں۔ جب جنرل آصف نواز نے مجھے یہ بات بتائی تو وہ بہت غصے میں تھے۔ انہوں نے بریگیڈیر امتیاز کے متعلق بڑی تلخی کے ساتھ کہا: "I'll sort this bastard out"ایک اور موقع پر ایک کھانے میں‘ وہ یونیفارم میں تھے۔ میں بھی وہاں تھا۔ انہوں نے بریگیڈیئر امتیاز کو دیکھا تو اپنی سٹک اس کے پیٹ میں مار دی۔ کچھ دنوں بعد وہ ہارٹ اٹیک میں انتقال کر گئے۔ ورنہ حالات ایک اور مارشل لاء کی طرف جا رہے تھے‘‘
یہاں ہمیں اعجاز الحق سے ایک اور گفتگو یاد آئی۔''جب بھی‘ ایسی ''کارروائی‘‘ کرانا ہوتی ہے‘ تو کچھ لوگ اس قسم کی غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور وزیر اعظم جونیجو کے درمیان بھی اسی طرح غلط فہمیاں پیدا کی گئیں۔ مثلاً میرے والد کو بتایا گیا کہ محمد خاں جونیجو آپ کے فون ٹیپ کروا رہے ہیں۔ انہیں کچھ کیسٹ بھی لا کر دی گئیں۔ ان کے اے ڈی سی نے مجھے بتایا کہ جنرل صاحب نے خاصے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اسے دیکھو‘ میری والدہ کی گفتگو بھی ٹیپ کروا رہا ہے۔ میری دادی کراچی میں میرے چچا سے بات کرتیں کبھی مجھ سے بحرین میں رابطہ کر لیتی تھیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ آپ کے گھر آنے والی گاڑیوں کی ویڈیو کیسٹ بنائی جا رہی ہیں۔ اگرچہ جنیوا معاہدے کے نتیجے میں بھی اختلافات تھے لیکن ان باتوں نے کشیدگی میں اضافہ کیا جس کا نتیجہ بالآخر 28مئی 1988ء کو جونیجو حکومت کی برطرفی کی صورت میں نکلا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved