تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-08-2016

آج کیا پکائیں؟

خیالی پلائو
کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں ڈھنگ کی چیز پکانا نصیب ہی نہیں ہوتی۔ چاول کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں تو گوشت مردہ مرغیوں کا دستیاب ہوتا ہے یا گدھوں کا۔ چنانچہ مرغی کا گوشت کھانے کے بعد انڈے دینے کو جی چاہتا اور پھر کُڑک بیٹھنے کو‘ تو گدھے کا گوشت کھا کر ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے یا دولتیاں جھاڑنے کو اور نرم جگہ پر لیٹنے کو۔ ان حالات کے پیش نظر ہم نے اس مشکل کا جو حل نکالا ہے اس کے مطابق صرف خیالی پلائو پکانا ہی ممکن ہے جس کے لیے اور کسی بھی چیز کی بجائے صرف ذہنی یکسوئی کی ضرورت ہے یعنی آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں نیز آنکھیں بھی بند رکھیں۔ سمجھ لیں کہ چاول آپ نے پہلے ہی پانی میں بھگو رکھے ہیں‘ اس کے بعد اس میں جس قسم کا گوشت درکار ہو‘ اس پر خوب سوچ بچار کر لیں اور دھیمی آنچ پر رکھ دیں اور نمک‘ دار چینی وغیرہ ڈالنے کا بھی پورا پورا خیال رکھیں۔ کوئی نصف گھنٹے کے بعد نہایت لاجواب پلائو تیار ہو گا‘ خود کھائیں اور بچوں کے علاوہ اپنی سہیلیوں کو بھی کھلائیں اور خدا کا شکر بجا لائیں۔
کھچڑی
یہ اکیلی خاتون کے بس کا روگ نہیں ہے جبکہ ایک سے زیادہ جتنی بھی ہوں اس کا پکنا اتنا ہی آسان ہو گا۔ اس دوران فوکس اسی پر رکھیں جس کے خلاف کھچڑی پکانا مطلوب ہو۔ دھیمی آنچ کا تردد روا رکھنے کی ضرورت نہیں کہ جہاں ایک سے زیادہ خواتین جمع ہوں گی وہاں دھیمی آنچ کے پیدا ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہو گا‘ تاہم خیال رہے کہ آنچ بہت زیادہ تیز بھی نہ ہونے پائے کیونکہ زیادہ شور شرابے سے اس شخصیت کو پتا چل سکتا ہے جس کے خلاف یہ کھچڑی پکائی جا رہی ہو گی۔ اس کے لوازمات کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے لیے دال اور چاول بھی درکار نہیں ہو گا اور خواتین یہ باتیں اچھی طرح سے جانتی بھی ہیں۔ تاہم یہ واحد پکوان ہے جو بڑی محنت اور رازداری سے تیار کیا جاتا ہے۔ سیاستدان حضرات ایک دوسرے کے خلاف یہ پکوان اکثر تیار کرتے ہیں۔ ان سے بھی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن یہ پکوان کھانے کے کام نہیں آتا جبکہ اس کے تیار ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد کا مرحلہ آتا ہے تاکہ جلداز جلد نتیجہ خیز ہو سکے ایک بار مؤثر نہ ہونے کی صورت میں اس عمل کو بار بار دہرا بھی سکتی ہیں۔
باسی کڑھی
اس کے لیے ضروری ہے کہ کڑھی کو اتنے دن تک باسی رکھیں جب تک کہ اس میں خود اُبال آنا شروع نہ ہو جائیں۔ اسے ٹھنڈی جگہ پر رکھیں تاکہ خراب نہ ہو کیونکہ اس میں ٹھنڈی جگہ پر ہی ابال آتا ہے نیز وقتا فوقتاً ڈھکنا اٹھا کر دیکھتی رہیں کہ اُبال آیا ہے یا نہیں۔ چکھنے سے بھی پتا چل جاتا ہے کہ اُبال اگر نہیں آیا تو مزید کتنی دیر میں آ جائے گا بشرطیکہ آپ چکھتے چکھتے حسب عادت ساری ہی چٹ نہ کر جائیں کیونکہ آپ کی باسی کڑھی میں اُبال آنے کا بہرحال نوٹس لیا جائے گا کیونکہ یہ زیادہ تر میاں کے خلاف ہی آتا ہے اگرچہ میاں پر اس کا اثر کم ہی ہوتا ہے کیونکہ اس جعل سازی کو وہ بھی خوب اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کیونکہ ابال شروع شروع کا ہی کارگر ہو سکتا ہے یعنی گُر بہ کشتن روزِ اوّل ورنہ میاں کی اپنی کڑھی میں بھی اُبال آ سکتا ہے جس سے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں!
ٹیڑھی کھیر
سویٹ ڈش کے بغیر کھانے کا کوئی مزہ نہیں ہے اس لیے خواتینِ خانہ اس کا خاص اہتمام کرتی ہیں اور مہمانوں کی تواضع کے لیے اسے بہت ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ سالن میں مرچ زیادہ پڑ جانے کی صورت میں بھی یہ نہایت مفید رہتی ہے اور مہمان بصورت دیگر بھی اسے بہت ذوق و شوق سے کھاتے ہیں، یہاں تک کہ خاتونِ خانہ بے چاری کے لیے کچھ بھی نہیں بچتا اور اسے محض صبر و شکر پر گزارہ کرنا پڑتا ہے اور چونکہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اس لیے وہ اسی کو سویٹ ڈش سمجھ لیتی ہیں۔ تاہم اس کا ایک مجرب حل اور طریقہ یہ ہے کہ کھیر اس قدر گرم ہو کہ کم سے کم ہی کھائی جا سکے۔ کھیر کا فلسفہ یہ ہے کہ اسے ٹھنڈی کر کے کھانا چاہیے لیکن حصولِ مقصد کے لیے مہمانوں کے سامنے نہایت گرما گرم کھیر رکھیں‘ حتیٰ کہ وہ اس پر پھونکیں ہی مارتے رہ جائیں جبکہ یہ وہ چراغ ہے جو پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا اور اگر آپ کی کوتاہی سے یہ ٹھنڈی بھی ہو جائے تو اسے اس قدر ٹیڑھی کر دیں کہ مہمان سوچتے ہی رہ جائیں کہ اسے کس طرف سے کھایا جائے۔ آزمائش شرط ہے۔
مرغی کے پکوڑے
یہ ایک خاص ڈش ہے جسے نہایت رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ اس کی ترکیب نہایت آسان ہے یعنی سب سے پہلے بہت اچھی قسم کا بیسن حاصل کریں کیونکہ دکاندار عام طور سے بیسن کی بجائے مکئی کا آٹا تھما دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس میں حسب ضرورت پانی ملائیں‘ پھر نمک مرچ پیاز اور اس کے علاوہ آلو بھی ڈال سکتی ہیں۔ اس کے بعد کڑاہی میں کوکنگ آئل یا ڈالڈا گھی ڈال کر اسے تیز آنچ پر گرم ہونے دیں۔ جب شوں شوں کی آواز آنے لگے تو پکوڑے بنا بنا کر اس میں ڈالتی جائیں۔ جب پک کر سرخ ہو جائیں تو اتار لیں۔ لیجیے مرغی کے پکوڑے تیار ہیں۔ انہیں مرغی کے آگے ڈالیں نہایت رغبت سے کھائے گی بلکہ اس سے ہمسایوں کی مرغیوں کی ضیافت کا اہتمام بھی ہو جائے گا۔ چنانچہ آہ آہ کر کے انہیں بھی اکٹھی کر لیں۔ تاہم ضیافت ختم ہونے کے بعد ہمسایوں کی مرغیاں پوری دیانتداری سے واپس بھی کرنی ہیں۔
شامی کباب
یہ صرف شام کے وقت کھائے جاتے ہیں اور اسی لیے شامی کباب کہلاتے ہیں۔ دوپہری اور شبینہ کباب اور ہوتے ہیں۔ کھانے والا کوئی محبوب مہمان ہو تو اس کے آنے کے بعد ایسی صورت حال پیدا نہ ہونے دیں کہ بقول شاعر ؎
شراب سیخ پہ ڈالی‘ کباب شیشے میں 
کیونکہ اس طرح کرنے سے شراب کا تو بیڑہ غرق ہو ہی جائے گا، کباب کا بھی ستیاناس ہو کر رہ جائے گا۔ بلکہ ساری شام ہی برباد ہو جائیگی اور مہمان الگ ناراض ہو گا‘ اور شاید وہ دوبارہ قدم رنجہ فرمانے کی زحمت ہی نہ کرے‘ یعنی داڑھی سے مونچھیں بڑھ جائیں، آپ کی‘ مہمان کی نہیں!
آج کا مقطع
ظفرؔ پھرتا ہوں میں بیزار ہی اس شہر میں یو ںتو
مگر پھر بھی کسی شے کی طلبگاری میں رہتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved