تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     22-08-2016

تبدیل ہوتا ہوا جنوبی افریقہ

آخر کار جنوبی افریقہ سے کچھ اچھی خبریں آرہی ہیں۔برس ہا برس کے معاشی انحطاط ،بے روزگاری اور بدعنوانی کے بعد آخر کار حالیہ دنوں ہونے والے انتخابات نے اس ستم زدہ قوم کے لیے امید کی کچھ شمع روشن کردی۔ افریقی نیشنل کانگرس کا قیام 1912 ء میں عمل میں آیا۔ مقصد برطانیہ سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ 1994ء سے، جب دوسال پہلے نسلی امتیاز کا خاتمہ ہوا، یہ حکومت میں تھی۔ درحقیقت حالیہ میونسپل انتخابات کے انعقاد تک، نیلسن منڈیلاکی جماعت نے ہر الیکشن میں ساٹھ فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے ۔ پریٹوریا(Pretoria) میں مرکزی حکومت چلانے کے علاوہ اُنہیں کیپ ٹائون کے علاوہ ہر اہم شہر میں حکومت حاصل تھی۔ کیپ ٹائون میں 2009 ء سے ڈیموکریٹ الائنس کی حکومت ہے ۔ ''سفیدپارٹی‘‘ کے طور پر جانا جانے والے ڈیموکریٹ الائنس کیپ ٹائون سے باہر قدم نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکا، تاہم اب جبکہ ایک پرکشش سیاہ فام سیاست دان ،Mmusi Maimane، اس کی قیادت کررہے ہیںتو اس جماعت نے کئی ایک بڑے شہروں میں افریقی نیشنل کانگرس کو 55 فیصد ووٹوں تک محدود کردیا ہے۔ اس کا چوبیس فیصد ووٹ حاصل کرلینا ایک کامیابی تصور کی جارہی ہے ۔ اگرچہ افریقی نیشنل کانگرس ابھی بھی دیہی علاقوں میں بے حد مقبول ہے ، لیکن بڑے شہروں میں اس کا ووٹ بنک متاثر ہوا ہے ۔ 
حالیہ انتخابات میں سامنے آنے والے ایشوز ہم تیسری دنیا کے باشندوں کے جانے پہنچانے ہیں۔ بدعنوانی، بے روزگاری اور سہولیات کی ناقص فراہمی وغیرہ۔ صدر جیکب زوما کے دور میں ان تینوں معاملات میں تیزی آئی۔ صدر زوما کے ذاتی رویے پر سفید فاموں کے سیاہ فاموں نے بھی تنقید کی ۔ جب میں اس سال کے شروع میں جنوبی افریقہ میں تھاتو مجھے صدر کے دفاع میں کوئی آواز سنائی نہ دی۔ ڈیموکریٹ الائنس کی اچھی کارکردگی کی وجہ یہ تھی کہ اس نے کیپ ٹائون میں اچھی حکومت قائم کرتے ہوئے اپنی ساکھ بنا لی تھی۔ اب یہ کیپ ٹائون کے علاوہ جوہانسبرگ ، پریٹوریا اور سب سے اہم نیلسن منڈیلا بے میں بھی حکومت بنانے جارہے ہیں۔ 
افریقی نیشنل کانگرس کے لیے اپنے قیام کی جگہ پر شکست ایک شدید صدمہ تھا۔ تاہم دیہی علاقوں میں اس کی کامیابی معاملات کو تلخ بنا دے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈیموکریٹ الائنس کیپ ٹائون کے علاوہ کہیں بھی واضح مارجن سے جیتنے میں کامیاب نہیں ہوا، اسے مذکورہ شہروں میں حکومت سازی کے لیے ایک انتہاپسند جماعت ''ای ایف ایف‘‘( اکنامک فریڈم فائیٹرز)کی حمایت درکار ہوگی۔ نوجوان اور بھڑکیلے مزاج والے جولیس میلما کی قیادت میں ای ایف ایف نے آٹھ فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اس کے معاشی پلان میں بینکوں کو قومی تحویل میں لینا اور سفید فاموں سے فارمز کو چھڑوانا شامل ہے ۔ اپنی ہمسایہ ریاست، زمبابوے میں رابرٹ موگابے کی ایسی ہی جذباتی پالیسیوں سے ہونے والی تباہی دیکھتے ہوئے زیادہ تر جنوبی افریقہ کے شہریوں نے ای ایف ایف کا انتہائی بائیں بازو کا ایجنڈا مسترد کردیا۔ دوسری طرف بیروزگاری کی شرح پچیس فیصد تک پہنچ جانے سے کچھ نوجوان افراد ای ایف ایف کے نظریات کو اپناتے دکھائی دیتے ہیں۔ 
تاہم جنوبی افریقہ میں اہم ترین ایشو بدعنوانی ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر شہریوں نے ا فریقی نیشنل کانگرس کی بجائے ڈیموکریٹ الائنس، ای ایف ایف اور دیگر چھوٹی جماعتوں کو ووٹ دیے ہیں۔ اگرچہ افریقی نیشنل کانگرس نے انتخابات پر ایک بلین رنڈ (71 ملین ڈالر کے مساوی)خر چ کرڈالے لیکن وہ اپنی داغدار شہرت کا مداوا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ زوما کے شاہانہ لائف سٹائل اور ان کی گپتا فیملی سے قربت نے صدر کی جماعت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے ۔ گپتاز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہی زوما کی کابینہ میں وزرا تعینات کرتے تھے۔ فی الحال وہ ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ انتخابات میں ناقص کارکردگی کے بعد شاید صدر جیکب زوما صدارت کا منصب چھوڑ دیں۔ اگر اُنھوں نے ایسا نہ کیا اور اپنی آئینی مدت، 2019 ء تک عہدے پر براجمان رہے تو عین ممکن ہے کہ افریقن نیشنل کانگرس کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ 1994 ء کے بعد پہلی مرتبہ ہوگا کہ جنوبی افریقہ میں مسٹر منڈیلا کی جماعت کے علاوہ کوئی اور حکومت سازی کرے گا۔ 
تاہم ایسا ممکن بنانے کے لیے ڈیموکریٹ الائنس کو شہری علاقوں میں حکومتیں چلاتے ہوئے اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوگی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ای ایف ایف اسے ایسا کرنے دے گی؟ جولیس ملیما کا مفاد اسی میں ہے کہ ڈیموکریٹ الائنس زیادہ کامیاب نہ ہوسکے جبکہ افریقی نیشنل کانگرس بدعنوانی کے بوجھ تلے دب جائے ، یہاں تک کہ ای ایف ایف واحد چوائس بن کر افریقی شہریوںکے سامنے ابھرے ۔ دراصل مسٹر ملیمابھی کبھی افریقی نیشنل کانگرس میں تھے لیکن پھر اُنہیں ''برے رویے ‘‘ کی وجہ سے نکال دیا گیا۔ بڑے شہروں میں پیدا ہونے والے ڈیڈلاک کی وجہ سے ڈیموکریٹ الائنس کو ملنے والی کامیابی کا جوش مدہم سا پڑگیا ہے۔ اس سے پہلے رنڈ ( ا فریقی کرنسی) کی قدر بڑھ رہی تھی لیکن اب اس کا زوال کا سفر جاری ہے ۔ اگرچہ سونے کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے لیکن اشیائے ضرورت کی مارکیٹ گراوٹ کا شکار ہے ۔ چونکہ خام لوہا اور سٹیل جنوبی افریقہ کی اہم برآمدات ہیں ، اس لیے اس کی معیشت دبائو کا سامنا کررہی ہے کیونکہ عالمی سطح پر صنعتی پیداوار کا گراف پست دکھائی دیتا ہے ۔ خشکی کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمت بڑھ گئی ہے ،رنڈ کی قدر کم ہونے سے درآمدات مہنگی ثابت ہوتی ہیں۔ تاہم ایک طویل المدت مسئلہ سرکاری سکولوں میں دی جانے والی تعلیم کے معیار کی تنزلی ہے ۔ آزادی کے فوراً بعد زیادہ تر سفید فام اساتذہ کو ریٹائرڈ کرکے اُن کی جگہ سیاہ فام افراد کو بھرتی کیا گیا۔ اُن میں سے زیادہ تر کوالی فائیڈ نہ تھے لیکن محض جلد کی رنگت کی وجہ سے بھرتی کیے گئے تھے ۔ اس پالیسی نے جنوبی افریقہ کی تعلیم کا کباڑا کردیا۔
چنانچہ افریقی نیشنل کانگرس کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ وہ 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کس طرح حاصل کرے ، جبکہ صدر زوما بھی اپنے منصب پر موجود رہیں۔ فی الحال صدر زوما میگا پراجیکٹس بنا کر بے روزگاری کم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، لیکن افریقہ کے معروضی حالات میں یہ حکمت ِعملی نہ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی افریقہ بہرحال یورپ یا ایشیا کا کوئی ملک نہیں ہے ۔ یہ قدرتی زندگی رکھنے والا افریقی ملک ہے جہاں جنگی حیات کی بہتات ہے اور جہاں سال میں لاتعداد سیاح آتے ہیں۔ یہاں تعمیر و ترقی کے بھاری منصوبے اس جنگی حیات کو شدید نقصان پہنچائیںگے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved