تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     22-08-2016

لندن پلان(2).....

بات ہو رہی تھی لندن پلان کی ،جو دو طرح کے ہیں۔تاریخی طور پر دونوں طرح کے پلان کا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی نکلا۔خواہ وہ نو آبادیاتی نظام کے ذریعے امریکہ کے وائٹ ہاؤس کو نذرِ آتش کرنے کا ہو‘افریقہ ،ایشیاء ،کو کالونی بنانے کا یا پھر جنگ ِافیون کے ذریعے چین کو تاراج کرنے کا۔
آپ پوچھیں گے کون سے پلان کا کیا نتیجہ...؟مگر اس سوال کے جواب سے پہلے یہ تو جان لیں کہ ہمارے لندن والے'' آف شور ‘‘ پی ایم ہاؤس والے دنوں میں کون سا پلان بنا۔جس کے لیے کئی گورے اور بہت سے رنگ دار حامد کرزئی سمیت دور دیس کے ملکوں سے لندن پہنچے۔ جن کے لیے ایک ہی اکاؤنٹ سے ائیر ٹکٹ خریدے گئے ۔پلان کا ایک حصہ آپ بھی سن لیں جو ایک دیسی سہولت کار کی زبانی یوں ہے۔
''گریٹر افغانیہ کا نعرہ‘‘ اسے یواے ای یا پھر ریاست ہائے متحدہ کی طرز پر اکٹھا کرنے کا کام تین عدد حکومتی امدادیوں نے حال ہی میں شروع کیاہے۔
لندن جانے سے کچھ دن پہلے میں عبدالرحمن کے بالغانہ قومی شناختی کارڈٖ کے لیے پارلیمینٹ ہاؤس میںواقع نادرا کے سہولت سینٹر گیا۔ساتھ پانچ چھ وکیل حضرات بھی تھے۔ہمارے کام کے دوران مولانا شیرانی صاحب چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بھی تشریف لے آئے۔ان سے پرانی یاداللہ ہے۔میں نے ان کا آبائی گھر اور گاؤں شیرانی بھی دیکھا ہوا ہے۔بلکہ ان کے بالا خانے پر فرشی ناشتہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔شیرانی صاحب نے ڈیورنڈ لائن اور ہندوستان کے بٹوارے کے حوالے سے زبردست سوالات اٹھائے ۔میں نے ان کی جرح کے جواب میں جو کچھ کہا وہ ان سے اجازت لے کر وکالت نامہ میں پورا مکالمہ لکھوں گا۔چونکہ یہ ذاتی گفتگو تھی اس لیے شیرانی صاحب سے پوچھ لینا اخلاقی تقاضا سمجھتا ہوں۔البتہ ان کا فوری جواب نہ آیا تو میں اسے'' ہاں‘‘ سمجھ لوںگا۔
اس طرح کی'' ہاں‘‘ہیر سیال سے بھی کروائی گئی تھی۔جو'' وارث شاہ‘‘نے پنجابی اور عالمی لٹریچر میں ایک ''لیجنڈ‘‘بنا دیا۔ہیر وارث شاہ والی ہاں میںایک قاضی صاحب کا خاصا ذکر موجود ہے۔ہیر وارث شاہ کا یہ حصہ پنجابی زبان میں لکھی گئی بہترین ہجو ہے۔اسی موضوع پر بلھے شاہ اورعلامہ اقبال نے بھی کوئی کم شاہکار نہیں لکھے۔چلتے چلتے پوٹھوہاری وسیب کا ایک قصہ سن لیں۔گاؤں کے مولوی صاحب کے گھر میں کوئی بھولی بھٹکی ککڑی (مرغی) گھس آئی۔مولوی صاحب نے اسے ٹوکری میں قید کر دیا۔شام کو مولوی صاحب کی بیگم نے کہا آج کیا پکانا ہے۔مولوی صاحب نے جواب دیا مرغی پکا لو۔سمجھدار بیوی نے کہا وہ تو کسی اور کی ہے ہم اس کے مالک کی اجازت کے بغیر مرغی کیسے ذبح کر لیں۔مولوی صاحب بولے یہ بے چاری لاوارث ہے ۔میں حجرے کی چھت پر چڑھ کر تین دفعہ آواز لگاؤں گا۔ کسی نے مرغی کی ملکیت کا دعویٰ نہ کیا تو پھر اس''حلال مال ‘‘کو کھانا جائز ہو گا۔ورنہ اسے رات کوئی گیڈر یا جنگلی بلا کھا جائے گا۔ چھت پر گیازور دار آواز یوں لگائی...
''ارے...اوئے کسی کی...پھر بولے بیگم چھری لاؤ حلال مال ذبح کرتے ہیں۔بیگم بولی اعلان میں آپ نے مرغی کاتونام ہی نہیں لیا...؟گھا گ مولوی نے یہ کہہ کر بیگم کو لاجواب کر دیا۔''مرغی ‘‘کا نام میں نے دل میں لیا تھا۔باقی اعلان واضح کر دیا...بات لندن پلان سے گھومتے پھرتے لاوارث مرغی کی طرف نجانے کب مڑ گئی۔
واپس مارننگٹن چلتے ہیں۔ویسٹ منسٹر کا یہ علاقہ گورے لوگوں کا ہے۔کوئی عرب فیملی تو دکھائی دے گی مگر باقی ایشیائی باشندے یہاں حسبِ ضرورت ہی آتے ہیں۔کل ایک لائبریری میں کچھ گوروں سے گفتگو کا موقع ملا۔ جن کا تعلق یورپی یونین سے تھا۔کہنے لگے ‘برطانیہ نے1945ء والے گورے ساتھیوں کو سرد جنگ کے بعد سخت مشکل حالات میں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ ایک بات کان کھڑے کردینے کے لیے کافی تھی۔یہی کہ اب کالے ہوں،یا رنگدار سب کو واپس آبائی ملکوں میں جانا ہو گا۔ایک گورے نے معقول اور دلائل سے بھرپور گفتگو کے آخر میں یہ جملہ کہا..."Its Only Question of Timings" ۔مطلب یہ تھا اب یہی فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کون کب واپس جاتا ہے۔اگلے روز آکسفورڈ شہر کے کچھ دوستوں سے ملاقات طے تھی۔ان کے اصرار پر موٹر وے M40کے ذریعے کار سفر شروع ہوا۔آپ یہ جان کر حیران ہوں گے موٹر وے نمبر40پر نہ ملکہ کے نام کی تختی تھی۔نہ ہی افتتاح کے عرصے میں برطانیہ کے وزیراعظم کی انگلی والا کتبہ۔نہ کسی شہزادے کا بینر یا پوسٹر۔
وجہ صاف ظاہر تھی۔یہ کسی حکمران کے خاندانی مال،سے تعمیر ہونے والی شاہراہ نہیں ۔بلکہ اس پر برطانیہ کے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ لگا۔مجھے یاد آیا میرے پیارے وطن کی ہر گلی،ہر سکول تمام پبلک پارک،سرکاری ہسپتال پر کسی نہ کسی''حاتم طائی‘‘ کے نام کا طغریٰ سجا ہو ا ہے۔یوں لگتا ہے ہر پل کا جنگلہ کسی شریف آدمی نے اپنے ہاتھوں سے لوہا کوٹ کوٹ کر تیار کیا۔جبکہ کنکریٹ میں چھپا ہوا بے تحاشا سریا اس سے بھی بڑے شریف کاری گر کی ذاتی ملکیت کا پھل فروٹ ہے۔یہاں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے۔کیا یہ نظام جو برطانیہ میں ہے جہاں سے اس طرز حکمرانی یعنی جمہوریت کا خمیر اٹھا یہ اصلی جمہوریت ہے یا جعلی۔ کیونکہ اگر برطانیہ کی جمہوریت اصلی ہے تو پھر ہمارے ہاں اربوں، کھربوںروپے سے چلنے والا نظامِ حکمرانی کیا ہے۔۔۔؟اور پاکستان میں جمہوریت اصلی ہے جعلی نہیں تو پھر برطانیہ کے نظام کو ڈیموکریسی کی بجائے گلّو کریسی کہنا پڑے گا۔یہی وہ نقطہ ہے جس سے اس سوال کا جواب ملتا ہے کہ لندن پلان کا نتیجہ ہے کیا...؟
انشا جی نے معلوم نہیں کس کے لیے کہا تھا ۔ ؎ 
سچ اچھا پر اس کے لیے
کوئی اور مرے تو اور اچھا...
میں اتنے سالوں بعد فیملی کے ساتھ چھٹی پر نکلا ہوں۔نہیں چاہتا اتنا سچ لکھوں کہ اگلی دفعہ امیگریشن کاؤنٹر سے ہی واپس آنا پڑجائے۔ہیتھرو ائیر پورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر پر میری بیگم صاحبہ ایک صاحبزادی اور عبداللہ کے ساتھ میرے اور عبدالرحمن کے آنے کے دو دن بعد پہنچے۔اس کاؤنٹر سے وہ فاسٹ ٹریک کے ذریعے آئے۔ساتھ والے کاؤنٹر پر میر پور سے تعلق رکھنے والی ایک بزرگ برطانوی شہری پوٹھوہاری زبان میں زور زور سے چیخ رہی تھیں۔گوری کاؤنٹر کلرک کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ساتھ والے کاؤنٹر سے سکھ کو بلایا گیا۔جس نے پوچھا ماں جی یہ کیا ہے۔اماں بولیں ، چھوٹا تندور ۔اگر کسی نے اسے توڑنے کی کوشش کی تو میںاس کا سر توڑ دوں گی۔سکھ نے گوری کو بتایا یہ مٹی سے بنا خالی اوون ہے۔CLAY HOLLOW OVENَََََُ ۔پھر پوچھا اماں کتنے عرصے سے انگلینڈ میں ہو۔جواب ملا 42سال سے۔۔۔سکھ بولا 4لفظ انگریزی کے سیکھ لیے ہوتے۔
یہ واقعہ سن کرمجھے قوم کے نجات دہندہ یاد آ گئے۔لندن میں ڈالروں کے کنٹینر پارک کرنے والوں نے برطانوی سامراج سے کاش جمہوریت کے دو بنیادی اصول ہی سیکھ لیے ہوتے۔
عوام کی حکومت۔عوام کے لیے...(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved