تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     22-08-2016

بات صرف دہشت گردی پر ہی کیوں ؟

لگتا ہے کہ ہماری سرکار کی پاکستان پالیسی رام بھروسے ہی چل رہی ہے ۔وزیراعظم نیا پینترا کھول رہے ہیں اور خارجہ سیکرٹری پرانا راگ ہی آلاپ رہے ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ دونوں میں کوئی صلاح مشورہ ہی نہ ہوا ہو ۔مودی نے کہا کہ پاک قبضے والا کشمیر اصلی مدعہ ہے۔ گلگت ہے۔بلتستان ہے ۔یہ دونوں علاقے کشمیر سے بھی بڑے ہیں ۔اگر یہ مدعے ہیں تو ان پر بات کرو ۔ڈرتے کیوں ہو ؟تم ان پر بات کروگے تو پاکستان تمہارے کشمیر پر بات کرے گا ؟تم کمزور ہو کیا ؟کشمیر پر تم کو دُم دبانے کی ضرورت کیا ہے ؟تم دم دباتے ہو تو تم دنیا کو یہ پیغام دیتے ہو کہ تمہاری دال میں کچھ کالا ہے ۔پہلی مرتبہ کسی بھارتی وزیراعظم نے ہمت کی اور اس بات کو دہرایا ہے ‘جو میں بھارت اور پاکستان میں اپنی تقاریر کے دوران کہتا رہا ہوں اور لکھتا رہا ہوں ۔اب ایک وزیراعظم نے ایک بات بولنے کی ہمت کی ہے تو اسے پروان چڑھانے کا کام وزارت خارجہ کے ذمہ ہے لیکن خارجہ سیکریٹری جے شنکر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان سے کشمیر پر کوئی بات نہیں کریں گے ۔وہ پاکستان جانے کو تیار ہیں لیکن وہ صرف دہشتگردی پر بات کریں گے ۔ایک حد تک وہ ٹھیک ہیں ‘کیونکہ دہشتگردی کے سبب ہی کسی دیگر مدعہ پر بھی بات نہیں ہو پا رہی ہے۔ دہشتگردی پر ضرور بات کریں لیکن صرف اسی پر کیوں ؟گزشتہ برس یہ طے ہو اتھا کہ دونوں خارجہ سیکریٹری لگ بھگ درجن بھر مدعوں پر بات کریں گے ۔جو فہرست بنی تھی ‘اسمیں کشمیر مدعہ سب سے اوپر تھا ۔میں کہتا ہوں کہ جے شنکر جب جائیں ‘تب جائیں ‘ابھی ارون جیٹلی خود کیوں نہیں جاتے ؟پاکستانی لیڈروں‘ فوج کے جنرلوں اور صحافیوں سے وہ سیدھی بات کیوں نہیں کرتے ؟جیٹلی بھی اپنی بات دہشتگردی سے شروع کریں لیکن دہشتگردی کی اماں کو نہ بھولیں ؟وہ کیا ہے ؟وہ کون ہے ؟وہ کشمیر ہے ۔کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو پھر کیا دہشتگردی زندہ رہے گی؟آپ صرف پتے توڑنے کی فراق میں ہیں ۔میں آپ سے جڑ کھودنے کی سفارش کر رہا ہوں ۔وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کا ذکر چھیڑا ہے یعنی بر کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے تو تمہارے افسروں سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لیڈروں کو مہابھارت کے ابھمنیو کی طرح چکر ویوہ میں پھنسنے نہ دیں گے۔ خارجہ پالیسی کی سمجھ ہمارے نوسکھئے لیڈروں سے انہیں کہیں زیادہ ہے ۔وہ پرانی لکیر پیٹنے کی بجائے نئی لکیر کو لمبی کھینچنے کی کوشش کریں ۔پاکستان کو 'دوزخ ‘کہنے سے کام نہیں چلے گا ۔اگر وہ دوزخ ہے تو بھی بھارت کے تعاون کے بنا وہ جنت نہیں بن سکتا۔ 
جیٹلی کیوں نہ جائیں ؟
اگلے ہفتے اسلام آباد میں سارک کے وزرائے خزانہ کی بیٹھک ہونے والی ہے ۔خبر ہے کہ بھارت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی اسمیں جائیں گے ۔سارک کے وزرائے داخلہ کی بیٹھک میں ہمارے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ گئے تھے اور انہوں نے دہشتگردی پر کھر ی کھری سنائی تھی ۔انہیںنہ تو بولنے سے روکا گیا‘نہ ٹوکا گیا اور نہ ہی ان کے استقبال میںکوئی کمی رکھی گئی ۔ٹی وی چینلوں پر ان کے خطاب کو اسی طرح لائیو نشر نہیں کیا گیا ‘جیسے دوسرے غیر پاکستانی وزرائے داخلہ کا نہیں کیا گیا ۔راج ناتھ گئے اور بولے تو کئی ممالک اور بھارت کے عوام کوپتا چلا کہ پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر ایک بھارتی وزیر نے سب کچھ کہہ دیا ۔
لیکن اب جیٹلی کونہیں بھیجنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے ‘کیونکہ گزشتہ ایک ہفتہ میں کئی فرق کی دراڑیں زیادہ چوڑی ہو گئی ہیں ۔میاں نواز نے کشمیر کو لے کر پھر اقوام متحدہ سے گوہار لگائی ہے ۔کشمیر پر ہنگامہ کھڑاکرنے والے حافظ سعید کو دوبارہ ٹی وی چینلوں پر آنے کی اجازت مل گئی ہے ۔پابندی اٹھا لی گئی ہے ۔ادھر لال قلعے سے پہلی بار بھارت کے وزیراعظم نے بلوچستا ن‘گلگت اور پاک قبضے کے کشمیر کے مسائل کو ہوا دی ہے ۔انہوں نے پاکستان کو پریشانی میں ڈال دیا ہے ۔پاکستان اب چپ نہیں بیٹھے گا ۔وہ بھی حملے کا کوئی نیا رخ اپنائے گا ۔ایسے میں بھارت سرکار جیٹلی کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کر رہی ہے ‘جیسا کہ بنگلہ دیش نے اپنے وزیر داخلہ کو نہیں بھیجا تھا ۔لیکن میں مانتا ہوں کہ بھارت‘ بنگلہ دیش نہیں ہے ۔بھارت سارک کی روح ہے ۔بھارت کے بنا سارک کیا ہے ؟اگر آپ چاہتے ہیں کہ اگلی سارک کانفرنس ہو تو وزرائے خزانہ کی بیٹھک میں جیٹلی کو ضرور بھیجا جانا چاہیے ۔جیٹلی کو ڈر کس بات کا ہے ؟یہ ٹھیک ہے کہ جیٹلی کے سفارتی تعلقات میں نزاکت ذرا کم ہے اور راج ناتھ کے مقابلے دم بھی نہیں ہے لیکن وہ جائیں اور بھارت کا نظریہ جم کر پیش کریں اور پاک لیڈروں سے کھل کر بات کریں تو بھارت کا عوام ان کے ساتھ ہو گا ۔ 
بیدار جمہوریت
وزیراعظم نریندر مودی پر پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے لکشمن ریکھا کی حکم عدولی کردی ہے ۔میں تو کہتا ہوں کہ پورے جنوب ایشیا میں یعنی برما سے ایران تک اور تبت سے مالدیپ تک کسی بھی ملک میں اگر ایک آدمی بھی دکھی ہے یا پریشان ہے تو ہم سب جنوب ایشیا کے باشندوں کا فرض ہے کہ ہم اسی کا حال پوچھیں ‘اسکی مدد کریں ۔نیپال یا بنگلہ دیش میں زلزلہ یا سیلاب وغیرہ آجاتے ہیں تو ہم سارے ملک دوڑ پڑتے ہیں یا نہیں ؟بلوچ ہوں ‘کشمیری ہوں ‘سندھی ہوں ‘پٹھان ہوں‘ تبتی ہوں سبھی ہمارے ہی خاندان کے لوگ ہیں۔اسی طرح اگر بھارت میں کسی خاص فرقے پر کوئی مصیبت آجائے تو پاکستان‘ نیپال بنگلہ دیش اپنی ہمدردی کیوں نہیں ظاہر کرسکتے ؟
لیکن کسی بھی ملک کو توڑنے کی بات بالکل غلط ہے ‘چاہے وہ پاکستان کرے یا بھارت کرے ۔مودی نے بلوچستان کو توڑنے کی بات نہیں کہی ہے ۔انہوں نے کونسی لال ریکھا پار کردی ہے؟ بھارت تو جنوب ایشیا کا سب سے بڑا ‘سب سے طاقتور اور سب سے مال دار ملک ہے ۔اگر وہ جنوب ایشیا کے ڈیڑھ ارب لوگوں کی فکر نہیں کرے گا تو کون کرے گا ؟لیکن اس لائق بننے کے لیے بھارت کو پہلے اپنے ہی گھر کو سدھارنا ہوگا ۔اسے دیکھنا ہوگا کہ اسکا کوئی کشمیری ‘کوئی نگا ‘کوئی میزو‘کوئی تامل ‘کوئی سکھ‘ کوئی مسلم ‘کوئی دلت ایسی پریشانی میں نہ رہے کہ کسی پڑوسی ملک کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت پڑے ۔بھارت یہ کرشمہ کر سکتا ہے ‘کیونکہ یہ بیدار جمہوریت ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved