سوچ بچگانہ‘ ترجیحات غلط اور طریقہ کار فرسودہ۔ یہی ہمارا طرز حکمرانی ہے۔ سعودی عرب میں پھنسے پاکستانیوں کی حالت زار‘ لاہور میں اورنج ٹرین منصوبے پر اصرار اور پاناما سکینڈل کا سامنا کرنے سے فرار‘ ناقص طرز حکمرانی کی کلاسیک مثال ہے۔
سعودی عرب میں بن لادن سمیت مختلف کمپنیوں کے ہزاروں پاکستانی ملازمین مسائل کا شکار دو چار روز قبل نہیں چھ سات ماہ پہلے ہوئے۔ تیل کی قیمتوں میں مسلسل گراوٹ‘ یمن جنگ‘ ایران سے کشیدگی اور امریکہ میں 9/11 کے حوالے سے مقدمات کی بنا پر سعودی عرب معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس کی بڑی تعمیراتی‘ صنعتی و تجارتی کمپنیاں بھی۔ ملازمین کو فارغ کرنے اور تنخواہیں بروقت نہ دینے کی اطلاعات کئی ماہ سے سعودی‘ پاکستانی اور عالمی میڈیا میں گشت کر رہی تھیں‘ مگر حکومت کو ریاض میں پاکستانی سفارت خانے نے اطلاع دی نہ پاکستان کے دفتر خارجہ اور اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کو پتہ چلا‘ تارکین وطن کے حقوق و مفادات کا تحفظ جس کی ذمہ داری ہے۔ پاکستانی میڈیا شور نہ مچاتا اور ''دنیا نیوز‘‘ متاثرین کی فریاد نشر نہ کرتا تو وزیر اعظم ان کی دیکھ بھال کا حکم دیتے نہ پچاس کروڑ روپے کی رقم مختص ہوتی‘ وفاقی وزیر صدرالدین راشدی عازم سعودی عرب بھی نہ ہو پاتے۔
بیرون ملک‘ خصوصاً عرب ممالک میں مقیم پاکستانی قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سالانہ انیس ارب ڈالر کی ترسیلات زر سے بجٹ کا خسارا کسی نہ کسی حد تک پورا ہوتا‘ اور پاکستان میں تارکین وطن کے لواحقین کا چولہا جلتا ہے۔ کہتے ہیں‘ خوشی سے کوئی پرندہ بھی اپنا گھونسلا نہیں چھوڑتا مگر یہ لاکھوں ہوش مند انسان اپنا گھربار‘ عزیز و اقارب اور پیاروں کی قبریں چھوڑ کر تلاش روزگار میں بیرون ملک سدھارے‘ لیکن پیارے وطن کو بھولے نہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ اور سکینڈے نیویا جانے والوں کے برعکس ان لوگوں نے اپنی حق حلال کی کمائی وہاں عیش و عشرت پر لٹانے‘ اور اپنی شناخت سے محروم ہونے کے بجائے پاکستان کو اپنا سب کچھ سمجھا اور پیٹ کاٹ کر اپنی کمائی کا بیشتر حصہ یہاں بھیجا‘ مگر انہیں کسی پاکستانی حکومت اور سفارت خانے نے کبھی توجہ کے قابل نہیں سمجھا۔ وہاں وہ مریں یا جیئں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہیں اب تک ووٹ کا حق حاصل ہے نہ پاکستان میں ان کے لواحقین اور خریدی گئی جائیداد کو تحفظ اور نہ مشکل وقت میں سفارت خانے اور حکومت کی طرف سے خبر گیری کی توقع۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں سے شکایات ایک جیسی ہیں۔ سعودی عرب میں بیروزگار ہو کر کیمپوں میں بند ہزاروں پاکستانیوں کا یہی المیہ ہے اور حکومت پاکستان کا حسب عادت و دستور لاپروائی و بے حسّی پر مبنی رویّہ۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق متاثرین کی تعداد دس ہزار ہے مگر غیر سرکاری اندازوں کے مطابق کئی گنا زیادہ۔ ہزاروں پاکستانیوں نے برطرفی کے بعد تلاش روزگار کے لیے دوسرے شہروں بالخصوص جدہ کا رخ کیا تو پکڑے گئے اور جیلوں میں بند ہیں‘ جن کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ کفیل انہیں پاسپورٹ واپس کرنے پر تیار ہیں نہ کسی قسم کی مدد پر آمادہ۔ بھارت کے ایک وزیر سعودی عرب پہنچے‘ اعلیٰ حکام سے ملاقات کی اور اپنے باشندوں کے لیے متبادل ملازمتیں اور دیگر مراعات لے کر لوٹے مگر پاکستانی وزیر صدرالدین راشدی وطن واپسی پر بھی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ ان کی جدہ اور ریاض میں کسی اہم سعودی عہدیدار سے ملاقات ہو پائی یا نہیں؟ پچاس کروڑ روپے کی امداد کا کتنا حصہ تقسیم ہوا اور کیمپوں میں پڑے ہزاروں پاکستانیوں کا مستقبل کیا ہے؟ انہیں کوئی تسلی بخش جواب ملا‘ یا وہ کیمپوں اور جیلوں میں پڑے‘ سڑتے‘ روتے اور چلاتے رہیں گے۔ حکومت تارکین وطن سے یہ سلوک اس وقت کر رہی ہے جب زرعی شعبے کی پیداوار اور برآمدات میں معتدبہ کمی ہو چکی ہے۔ جولائی 2015ء کے مقابلے میں جولائی 2016ء میں ترسیلات زر میں صرف ایک ماہ کے دوران بیس فیصد کمی ہوئی‘ جبکہ جون 2016ء کے مقابلے میں کمی کا تناسب 36 فیصد ہے۔ جون 2016ء میں دو ارب ڈالر موصول ہوئے جبکہ جولائی 2016ء میں صرف ایک ارب تیس کروڑ ڈالر۔ یہ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار ہیں۔ کسی کو اندازہ ہی نہیں کہ یہ ہزاروں‘ اندازاً پچاس ساٹھ ہزار پاکستانی اقامہ میں توسیع نہ ہونے‘ متبادل روزگار نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان واپس آئے تو قومی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اور یہاں آ کر خود اور ان کے لواحقین گزارا کیسے چلائیں گے؟ ریاست تو روزگار فراہم کرنے سے رہی۔ لاکھوں بے روزگاروں میں مزید اضافہ۔ شاہی خاندان سے شریف فیملی کے ذاتی تعلقات کا بھی ان غریبوں کو فائدہ نہیں۔
عدالت عالیہ لاہور نے اورنج ٹرین کی زد میں آنے والی گیارہ اہم‘ تاریخی اور ثقافتی ورثے کی حامل عمارات کو بچانے کے لیے جو حکمنامہ جاری کیا‘ وہ عوامی سطح پر تو سراہا گیا مگر پنجاب کے شاہی مزاج پر گراں گزرا‘ امریکہ میں سان فرانسسکو کی سیر کے دوران رہنمائے سفر (گائیڈ) وہ کئی منزلہ عمارت دکھانا نہیں بھولتے جو 1906ء کے زلزلے میں صحیح سالم رہی اور اب تک سیاحوں کے لیے قابل دید ہے مگر ہماری تاریخ‘ جغرافیہ‘ تہذیب و ثقافت اور قومی ورثے سے بالکل بیگانہ حکمران اشرافیہ ان تاریخی آثار کو بھی مٹانے پر تلی ہے‘ جو راجہ رنجیت سنگھ اور ان کے جانشینوں کی دستبرد سے بچ گئے تھے۔ رنجیت سنگھ دور میں بادشاہی مسجد گھوڑوں کے اصطبل میں ضرور تبدیلی ہوئی مگر شالامار باغ اور چوبرجی کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی ایسی کوشش نہیں کی گئی جو ان دنوں ہو رہی ہے۔ میٹرو بس کے بعد اورنج ٹرین منصوبے پر اربوں روپے اس شہر میں خرچ ہوئے جہاں ہسپتالوں میں روزانہ کئی اموات محض اس بنا پر ہوتی ہیں کہ یہاں وینٹی لیٹر دستیاب نہیں۔ جہاں ہیں‘ محض ایک دو اور وہ بھی بیشتر اوقات خراب۔ لوگ وینٹی لیٹر نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بھائیوں‘ بیٹوں‘ بیٹیوں اور بزرگوں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھتے ہیں‘ اور کچھ کر نہیں پاتے کیونکہ قومی خزانے میں وینٹی لیٹرز کی خریداری کے لیے پیسے ہیں نہ ریسکیو 1122کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے اور نہ لاہور کے علاوہ دور دراز شہریوں میں امراض قلب کے نئے ہسپتال قائم کرنے کے لیے وسائل‘ عام شہری مرتا مر جائے مگر اسے سفری سہولتیں بہرحال اعلیٰ معیار کی درکار ہیں‘ ہمارے حکمرانوں کا یہی خیال ہے‘ خیال کیا ضد ہے۔ چودھری پرویز الٰہی زیر زمین ریلوے کے حق میں تھے اور امراض قلب کے ہسپتالوں کی تعداد میں اضافے کے علاوہ ریسکیو 1122 کی صورت میں حادثات کے فوری بعد طبی امداد بہم پہنچانے پر آمادہ لہٰذا ایسے کسی منصوبے کا پروان چڑھنا اور آگے بڑھنا ہمارے موجودہ حکمرانوں کو پسند نہیں۔ شریکا جو ہوا۔
پاناما سکینڈل سے جان چھڑانے کی حکومتی حکمت عملی بالآخر ملک میں احتجاجی صورتحال کو جنم دے رہی ہے اور عمران خان‘ ڈاکٹر طاہرالقادری اور اعتزاز احسن کے خلاف طلال چودھری رانا ثنااللہ اور عابد شیر علی ٹائپ حکومتی ترجمانوں کے مخالفانہ بیانات سے اندرون خانہ پریشانی بلکہ بدحواسی کا پتہ چلتا ہے۔ بیان بازوں میں سے کسی نے نریندر مودی کے پاکستان دشمن بیانات پر جوشیلا اور جذباتی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ان کے سرپرستوں نے بھی نہیں۔ مودی کے اعتراف جرم کے بعد سیاسی و مذہبی قیادت کو اکٹھا کرنے کی ضرورت تھی مگر حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں محاذ آرائی اور تفریق میں اضافہ کر رہی ہیں۔ سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور پوری دنیا کو یہ تاثر مل رہا ہے کہ قومی قیادت حالت جنگ میں بھی باہم دست و گریباں ہے۔ سوچ بچگانہ‘ ترجیحات غلط اور طریقہ کار و اندازِ فکر فرسودہ ہو تو یہی دیکھنے کو ملتا ہے‘ وطن عزیز میں ہر ایک جس کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ نیوکلیئر پاکستان نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ ع
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن