بے سبب نہیں کہ فوج مقبول ہے۔ ووٹ لینے کے باوجود سیاست دان اتنے ہرگز نہیں۔ بے سبب نہیں کہ پاکستان کا ہر دشمن پاکستانی فوج کا بھی دشمن ہے۔
پی آئی اے کی بنکاک جانے والی پرواز میں خرابی پیدا ہوئی تو قریب ترین ہوائی اڈے کولکتہ میں اترنے کی اجازت مانگی گئی‘مگر انکار کر دیا گیا ۔ واپس کراچی آ کر ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی۔ یہ ہے بھارت کا اصل روّیہ اور ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔
دانشوروں نے‘ جو ضمیر کی کسی ادنیٰ خلش کے بغیر‘ سوویت یونین کی گود سے اتر کر امریکہ کی گود میں بیٹھ گئے‘ دندان آز تیزکر لیے ہیں۔ پاکستان کو وہ کوس رہے ہیں۔ حیلے بہانے سے بھارت کی حمایت کر تے ہیں۔ اس ماحول میں علامہ طاہرالقادری نے سوال اٹھایا ہے کہ بھارت کو میاں محمد نواز شریف سے ہمدردی کیوں ہے؟ جب بھی وزیر اعظم مشکل میں ہوتے ہیں‘ پاکستان میں بھارتی تخریب کاری بڑھ جاتی ہے اور سرحدوں پر آگ برسنے لگتی ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟ اس پہلو کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ موصوف پرلے درجے کے مبالغہ پسند واقع ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ اتنے ہی مصلحت پسند بھی۔ ایک نیم سرکاری میڈیا گروپ نے یہ اطلاع دی ہے کہ چند سال قبل علامہ صاحب بھارت گئے تو گجرات بھی تشریف لے گئے۔ انہیں سرکاری مہمان قرار دیا گیا۔ قاتل مودی پر برائے نام تنقید سے بھی انہوں نے گریز کیا۔
زخم کھل اٹھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد بھارتی عزائم پر بات کرنے سے گریز کیوں کرتی ہے؟ ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو جو شہید کر چکا ۔ پوری وادی کو جس نے فوجی کیمپ میں تبدیل کردیا ہے۔ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے‘ جب وہ نریندر مودی کے ساتھ‘ پاکستانی وزیر اعظم کی تصاویر دیکھتا ہے۔ کسی کو یہ سب کی سب جمع کرنی چاہئیں اور تمام بڑے شہروں میں ان کی نمائش کا اہتمام کرنا چاہیے۔ شاداں و فرحاں۔ اس قدر آسودہ کہ گویا مدتوں بعد‘ بچھڑے ہوئے دوست سے ملا ہو۔ ؎
اے داغؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
اس کے ساتھ ہی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے ساتھ ان کی تصاویر‘ جن میں ہمیشہ وہ ناراض‘ مضطرب اور بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد‘ راحیل شریف پہلے آدمی ہیں‘ بھارتی عزائم اور سازشوں پر جنہوں نے کھل کر بات کی۔
وزیر اعظم نواز شریف واحد لیڈر نہیں‘ جن کا یہ طرزعمل ہے۔ جناب الطاف حسین نے تو کمال ہی کر دیا تھا ۔ دہلی میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی تخلیق‘ تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی‘ جی ہاں! تاریخ کی سب سے بڑی غلطی۔ پیغمبروں کی مزاحمت سے بڑھ کر‘ شرک سے بڑھ کر‘ انبیاء کرام کو قتل کرنے سے بڑھ کر‘ قرآن کریم جن کا ذکر کرتا ہے۔ مدتوں ان کے اس بیان پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا رہا تاآنکہ عمران خان کے خلاف ایم کیو ایم نے کردار کشی کی تحریک برپا کی۔ برسوں بعد ٹی وی مذاکروں میں‘ تب حوالہ دیا جانے لگا جب رینجرز نے ایم کیو ایم سمیت قتل و غارت میں ملوث گروہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ جب ''را‘‘ کے ساتھ اس کے تعلقات طشت از بام ہو گئے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے رہنما اب بھی ایم کیو ایم کے خلاف چارج شیٹ سے گریز کرتے ہیں‘ دل جوئی کی کوشش کرتے ہیں‘ جیسے پرویز رشید کا دورہ کراچی۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ فساد سے بچنے کی کوشش ہے کہ ایم کیو ایم والے ذاتی حملوں پر اتر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم سے الگ ہو کر نئی پارٹی تشکیل دینے والے مصطفی کمال اور جماعت اسلامی کے سوا کوئی نہیں جو ڈٹ کر اس موضوع پر بات کرے۔ پاکستانی شہریوں کو بہیمانہ طور پر قتل کرنے والے ملک کے خلاف وہ بات بھی نہیں کر سکتے تو ان لیڈروں کی ہمیں ضرورت کیا ہے؟
پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم کا وہ بیان دل پر لکھا ہے‘ خنجر سے گویا کسی نے کھود دیا ہو کہ بھارتیوں کو پاکستان سے دہشت گردی کی شکایت ہے۔ جی ہاں! پاکستان کو نہیں‘ جسے بھارت نے فوجی کارروائی سے دولخت کر ڈالا۔ بلوچستان کو الگ کرنے کا جو برملا اعلان کرتا ہے۔ مساجد‘ امام بارگاہوں‘ مارکیٹوں اور مزارات پر دھماکے کرنے والے مذہبی انتہا پسندوں کی مدد کرتا ہے‘ جن کے فکری اجداد نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ 1947ء سے افغانستان کی ایسی ہی جماعتوں کا مددگار ہے۔ اس بدقسمت ملک میں کرایے پر ملنے والے گروہ‘ جو اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ بھارت کے برہمن سے تاریخی طور پر اگران کا رشتہ ہے تو دشمنی کا۔ افغانستان کے ایک پہاڑی سلسلے کا نام کوہ ہندوکش ہے‘ جو غالباً محمود غزنوی کے دور سے چلا آتا ہے‘ جب لاہور سے لشکر روانہ ہوتے‘ باغات اور فصلیں اجاڑتے غزنی کے نواح تک جا پہنچتے حتیٰ کہ سبکتگین کے بعد‘ اس کے بیٹے محمود نے سلطنت سنبھالی۔ پے در پے سترہ حملے کر کے‘ اس نے بھارت کی کمر توڑ دی اور ایک ہزار برس کے لیے‘ اس کے دورِ غلامی کا آغاز ہوا۔ دراصل محمود کے دور ہی میں‘ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی‘ وگرنہ سرزمین عرب سے آنے والے‘ محمود غزنوی سے ڈیڑھ سو برس پہلے واپس چلے گئے تھے۔
پاکستان قائم ہی اس لیے ہوا کہ کانگرس نے مسلمانوں کے حقوق کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ 1940ء تک قائد اعظمؒ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔ بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی طرزِ فکر کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ جیسا کہ سرکاری طور پر جاری کی گئی سچّر رپورٹ کہتی ہے‘ ان کا حال شودروں سے بدتر ہے۔ کاروباری کبھی وہ تھے ہی نہیں۔ ہمیشہ سے کاشتکار اور سپاہی تھے۔ کاروبار کے راستے میں اب تو ہزار طرح کی رکاوٹیں ہیں۔ سب سے بڑی یہ کہ ہندوئوں میں بہت کم ہیں‘ جو کسی مسلمان سے خریداری کرنا پسند کریں۔ سرکاری اداروں میں‘ خاص طور پر انہیں فوج میں بھرتی کرنے سے حتیٰ الامکان گریز کیا جاتا ہے۔ نمائش کے طور پر چند ابن الوقت اور مفاد پرست مسلمان لیڈروں کو پارٹی میں گوارا کیا جاتا ہے۔ بیس فیصد آبادی کے ساتھ فوج اور سول سروس میں ان کی نمائندگی دو فیصد سے بھی کم ہے۔ کیا ہندو کئی گنا زیادہ ذہین ہوتے ہیں؟
کئی بار بھارت کا مطالعاتی دورہ کرنے والے ایک دوست کل شام ملنے آئے۔ ایک عجیب سوال انہوں نے کیا : اگر پاکستان کشمیر سے دستبردار ہو جائے تو کیا پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے؟ ظاہر ہے کہ بالکل نہیں۔ کشمیر پہ جب خاموشی اختیار کی گئی‘ تب بھی عملاً پاکستان سے ان کا روّیہ بہتر نہ ہوا۔ پاکستان اگر بھارت کی بالادستی قبول کر لے تو کیا ہمیں معاف کر دیا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ قطعاً نہیں۔ بنگلہ دیشی مسلمانوں کے ساتھ کیا بھارت کا سلوک‘ پاکستانیوں سے بہتر ہے؟ بہت سے بنگالی پاکستان میں ملازمت کرتے ہیں۔ انہیں گوارا کیا جاتاہے۔ جو بنگالی بھارت کا رُخ کرتے ہیں‘ انہیں شدید نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان کے تمام مسلمان خدانخواستہ ہندو مت قبول کر لیں تو کیا انہیں بخش دیا جائے گا؟ جی نہیں‘ ہرگز نہیں۔ ان کا دل تب ٹھنڈا ہو گا جب وہ ہمیں اپنے شودروں سے بھی بدتر حال کو پہنچا دیں۔ بھارتی برہمن کا مزاج یہی ہے‘ تاریخ اور روایات بھی ۔ شودر بھی کسی قدر معزز تھے‘ تاآنکہ وسطی ایشیا سے آنے والوں نے ان کی سرزمین پر قبضہ جما لیا۔ پاکستانی فوج اس بات کو سمجھتی ہے۔ انہیں واسطہ پڑتا ہے‘ انہیں ایک مکمل تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ قائد اعظمؒ اور بھٹو کے بعد کوئی سیاست دان نہیں آیا‘ جو اس تاریخی سچائی کا پورا ادراک رکھتا ہو‘ ان میں سے کوئی گہری جڑیں نہیں بنا سکا کہ اجتماعی لاشعور سے مکمل ہم آہنگی کے بغیر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
بے سبب نہیں کہ فوج مقبول ہے۔ ووٹ لینے کے باوجود سیاست دان ہرگز نہیں۔ بے سبب نہیں کہ پاکستان کا ہر دشمن‘ پاکستانی فوج کا بھی دشمن ہے۔
پس تحریر : اطلاعات یہ ہیں کہ اے آر وائی کے دفتر پر حملہ‘ کراچی میں بدامنی پھیلانے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے‘ جو کشمیر پر زچ ہونے والے بھارت میں بنایا گیا۔ قابلِ اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں وسیع پیمانے پر فساد کا مقصد‘ بھارت کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔ مبینہ طور پر ندیم نصرت کے علاوہ حسین حقانی کو بھی اس میں ایک کردار سونپا گیا ہے۔