تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     23-08-2016

ماہِ جولائی میں جُدائی

اس گزرے ہوئے مہینہ میں دُنیا سے رخصت تو بہت سے لوگ ہوئے مگر اس کالم کی محدود جگہ میں صرف تین افراد کا ذکر کیا جائے گا۔ بسم اللہ ہم اپنے پیارے عبدالستار ایدھی (مرحوم) سے کریں گے کیونکہ پچھلا کالم ان کے تذکرہ پر ختم ہوا تھا۔ میرے بیوی بچے اور میں کراچی جاتے تو وقت نکال کر اُن کی خدمت میں حاضری دیتے۔ وہ اتنی ہی محبت سے پیش آتے جس طرح وہ سب لوگوں سے ملتے تھے‘ اُن کے سماجی مالی اُمور‘ سیاسی درجہ سے قطع نظر۔ کئی سال پہلے میں لندن سے لاہور گیا تھا اور وہاں لبرٹی مارکیٹ میں اپنے دفتر میں کام کر رہا تھا کہ خبر ملی کہ لبرٹی چوک میں ایدھی صاحب چندہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ میں فوراً کام کاج چھوڑ کر اُن کے پاس پہنچا۔ چند گھنٹے اُن کے ساتھ کھڑا رہا اور وہاں سے پیدل یا کاروں پر سوار گزرنے والوں (یعنی راہگیروں) سے چندہ اکٹھا کرنے میں اُن کی معاونت کی۔ یہ بیان کرنا بہت مشکل ہے کہ اس رضا کارانہ خدمت سے کالم نگار کو کتنی روحانی خوشی ہوئی اور اپنی قوم پر اپنا متزلزل اعتماد کتنی جلدی اور کتنی مضبوطی سے بحال ہوا۔ جو لوگ ہمارے پاس سے کار چلاتے ہوئے تیزی سے گزر جاتے‘ جونہی اُن کی اُچٹتی نظر ایدھی صاحب پر پڑی تو وہ اپنی کار موڑ کر ہمارے پاس واپس آتے‘ زیادہ سے زیادہ چندہ دیتے اور رسید بھی طلب نہ کرتے۔ مصباح الحق نے نہ صرف لارڈز کرکٹ گرائونڈ میں ٹیسٹ میچ جتنے والی ٹیم کی قیادت کی بلکہ اس تاریخی کامیابی کو ایدھی صاحب کے نام کیا۔ ایدھی صاحب سے غائبانہ تعارف برسوں پُرانا تھا۔ نیک کاموں کی شہرت کی خوشبو وہاں تک جاتی ہے جہاں 
وہ نیک شخص خود کبھی نہ گیا ہو اور شاید کبھی نہ جائے۔ میرا ایک بیٹا فاروق 1990ء میں لندن یونیورسٹی میں پاکستان سوسائٹی کا صدر بنا‘ تو اس نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر سوچ بچار کی کہ ایدھی صاحب کے خیراتی کاموں میں اُن کی مالی مدد کی جائے تو کیونکر؟ فیصلہ ہوا کہ ایک خیراتی ڈنر کا اہتمام کیا جائے۔ وہ ہال لیا جائے جو مفت ملے۔ خوراک اُس ریستوران سے منگوائی جائے جو مفت دے۔ ٹکٹ کی قیمت زیادہ رکھی جائے تاکہ معقول رقم اکٹھی کی جا سکے۔ مشکل یہ پیش آئی کہ اُس وقت لندن میں رہنے والے پاکستانی ایدھی صاحب سے زیادہ متعارف نہ تھے۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ ہم اُنہیں ٹکٹ خریدنے پر کس طرح مائل کریں؟ مشکل کا یہ حل سوچا گیا کہ کسی مشہور شخصیت (Celebrity) کو مہمان خصوصی بنایا جائے‘ جس کی وجہ سے (یعنی جسے دیکھنے اور ملنے کے شوق میں) ٹکٹ فروخت ہو جائیں۔ باپ بیٹے نے بہت سے مشاہیر سے رابطہ کیا مگر بات نہ بنی۔ یہ مخمصہ جاری تھا کہ فاروق کی والدہ نے (جو مجھے اچھے مشورے دینے کے فن میں مہارت رکھتی ہیں۔ ہر سمجھدار رفیقۂ حیات کی طرح) ہمیں Legendary یعنی افسانوی شہرت کے مالک اداکار دلیپ کمار سے رابطے کی راہ دکھائی۔ رابطہ کس طرح اور کس کے ذریعہ قائم ہوا؟ وہ تفصیل غیر ضروری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک دن دلیپ کمار سے فون پر میری بات ہو گئی۔ اُن کی دو شرائط تھیں: وہ اپنا اور اپنی بیوی کا ہوائی ٹکٹ خود خریدیں گے اور لندن کے مہنگے ہوٹل کا بل خود ادا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ دلیپ کمار نے شرکت کی ہامی صرف ایدھی صاحب کی وجہ سے بھری‘ نہ کہ مدُعو کرنے والے کی تقریر دلپذیر کی وجہ سے۔ اس ڈنر میں ایدھی صاحب خود شریک ہوئے اور شاید اُنہوں نے اپنی لمبی زندگی میں کسی شخص سے اپنی اتنی تعریف (اور وہ بھی اتنے اچھے الفاظ میں کہ لگتا تھا کہ مقرر کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں) نہ سنی ہو‘ جتنی اُس شام دلیپ کمار (جناب یوسف خان صاحب) سے سنی۔ ڈنر میں مہمانوں کی تعداد 500 کے قریب تھی اور ایک بھی کرسی خالی نہ رہی۔ پچاس ہزار پائونڈ (آج کے ڈیڑھ لاکھ پائونڈکے برابر) اکٹھے ہوئے جو معزز مہمان خصوصی نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پاکستان کی سب سے عظیم شخصیت کو دیے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ میری طرح اُن لوگوں کی تعداد کئی ہزاروں میں ہو گی‘ جو ایدھی صاحب کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ ایدھی صاحب ہمارا قومی سرمایہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہزارہا افراد سے اپنے تھوڑے (جیسے میں اور میرے اہل خانہ) یا زیادہ (وُہ خوش نصیب لوگ جو اُن کے قریب رہے اور کئی سال رہے) تعلقِ خاطر کی وجہ سے ان کا ذاتی سرمایہ بھی تھے۔ اس لحاظ سے ایدھی صاحب کی وفات قومی سانحہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے بے شمار دوستوں اور ساتھیوں اور خیر خواہوں کا ذاتی المیہ بھی ہے۔
اب اپنے ہمسایہ ملک ایران چلتے ہیں۔ آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ وہاں کی فلمی صنعت عالمی سطح پر 1975ء میں آیت اللہ خمینی صاحب کے انقلاب کے بعد اُبھری۔ اس معجزہ پر غور فرمائیے۔ حکومت پر کٹڑ علما کا قبضہ ہوا اور فلمی صنعت بام عروج تک پہنچ گئی۔ عالمی سطح پر شہرت پانے والے فلم سازوں میں محسن مخمل باف کے ساتھ جو دوسرا بڑا نام آیا وہ عباس کا تھا۔ جن کا دُوسرا نام کو Kiorostani انگریزی میں لکھنا آسان ہو گا۔
عباس نے ایسی کمال کی فلمیں بنائیں کہ اُن پر سنسرشپ کی قینچی کبھی نہ چلی۔ وجہ یہ ہے عباس کو اپنی فلموں میں لطیف پیرایہ میں اور سات پردوں میں چھپا کر اپنا بیانیہ پیش کرنے کا سلیقہ اور قرینہ آتا تھا۔ وہ بات جس کا فسانہ میں ذکر نہ ہوتا تھا‘ وہ سرکاری حکام کی عقابی نگاہوں کو اس لئے ناگوار نہ گزرتی تھی کہ اِن کے فرشتوں کو بھی یہ خبر نہ ہوتی تھی کہ عباس کی فلم کا موضوع کیا ہے؟ پلاٹ کے خدوخال کون سے ہیں؟ ڈائیلاگ اور دکھائے جانے والے مناظر کیا بتاتے ہیں اور کیا چھپاتے ہیں؟ اُن کی بنائی ہوئی چند مشہور فلموں کے نام یہ ہیں: Life and Nothing More (1992) - The Report (1977) - Taste of Cherry (1997) جسے Cannes میں ہونے والے فلمی میلے میں Palme d' or کی صورت میں فلمی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز دیا گیا۔ اس کے بعد اُنہوں نے 1995ء میں Wind Will Carry اور 2012ء میں Like Someone in Love کے نام سے دو اور شاہکار فلمیں بنائیں۔ کالم نگار کے برعکس جو قارئین You Tube کا استعمال کا ہنر جانتے ہیں‘ غالباً وہ ان فکر انگیز فلموں کو انگریزی Sub- Titles کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ایسا کر سکیں تو ان کے ذہن کے لئے بہت مفید ثابت ہو گا۔ دماغ کے سُوکھے دھانوں کو پانی ملے گا۔ عباس نے اعلیٰ معیار کی فلمیں بنانے کے علاوہ بہت سی اچھی کتابیں بھی لکھیں اور مصوری بھی کی۔ عباس جولائی میں (76 سال کی عمر میں) اس دُنیا سے رُخصت ہوئے تو نہ صرف ایران بلکہ سارے یوروپ میں صف ماتم بچھ گئی۔ برطانوی اخبار گارڈین کی طرح یوروپ کے ہر اچھے اخبار میں تعزیت نامہ شائع ہوا۔
ماہ جولائی میں ہی اٹلی کے ایک جزیرہ میں بنائی گئی محفوظ ترین جیل میں قید تنہائی کی سزا پانے والا ایک مجرم قید حیات سے رہا ہو گیا۔ پورا نام تھا: Bernardo Priven Zano۔ آٹھ سال جیل کی ایک کالی کوٹھڑی میں اکیلا قید رہا اور 83 سال کی عمر پائی۔ وہ جنوبی اٹلی کے علاقے سسلی میں جنم لینے والے رُسوائے زمانہ بدمعاش ٹولہ (Mafia) کی جس شاخ کا سربراہ تھا‘ اُس کا نام تھا: Corleone Clan (جو Cosa Nostrs کے نام سے مشہور ہوا)۔ اسّی کی دہائی میں مافیا کے اس ٹولہ نے وکیلوں‘ سیاست دانوں‘ صحافیوں اور جج صاحبان کی بڑی تعداد کو چُن چُن کر قتل کر دیا۔ اس دہشت گردی کا مقصد وُہی تھا جو حال ہی میں کراچی میں چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کو اغوا کرنے والوں اور ایک معصوم فنکار (امجد صابری) کو قتل اور کوئٹہ میں وکلا کا قتل عام کرنے والوں کا ہے‘ اور وہ ہے سرکاری اداروں کو مجرموں کی پکڑ دھکڑ سے باز رکھنا اور قانون نافذ کرنے والوں کو خوف و ہراس سے اس حد تک مفلوج کر دینا کہ وہ جانے پہچانے مجرموں کے خلاف موثر کارروائی روکنے پر مجبور ہو جائیں۔ اپنے مجرم ساتھیوں میں برنارڈو کو پیار سے ٹریکٹر کہا جاتا تھا (کراچی میں اس قبیل کے کئی ٹریکٹر برسوں سے دندناتے پھرتے رہے ہیں اور رینجر زکی کارروائی سے پہلے کوئی اُن پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ رکھتا تھا۔ جب مافیا کی بڑی مچھلیوں کو پولیس نے گرفتار کر لینے کا کارنامہ سرانجام دے دیا‘ تو دوسرا اور بڑا معجزہ یہ ہوا کہ اعلیٰ عدالتوں کے دو جج صاحبان نے قتل کی دھمکیوں کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے اُن کی سزا بحال رکھی۔ مافیا نے ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی۔
اطالوی حکومت اور مافیا کے درمیان خونریز اعصابی جنگ بیس سال سے جاری تھی اور آخر حکومت جیت گئی۔ برنارڈو نے اپنے ساتھیوں کو منا لیا کہ اگر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے تو پھر پسپا ہو جائیں۔ (آخر ہر ٹریکٹر کا Reverse Gear بھی تو ہوتا ہے)۔ مافیا کے اس ٹولے نے پینترا بدلا۔ پُرتشدد کارروائیاں کرنے کی بجائے خطرناک مجرم اچھے بچے بن گئے اور کاروباری دُنیا میں اس طرح اُبھرے کہ چند سالوں کے اندر ہوٹلوں سے لے کر تجارتی اور صنعتی اداروں کی بڑی تعداد کو خرید کر قانونی ملکیت اپنے کارندوں اور FrontMen کے نام کرا لی۔
مافیا کی ساری قیادت زیر زمین یوں چلی گئی تھی۔ پولیس لاکھ ٹکریں مارتی رہی مگر اسے یہ پتہ نہ چلتا تھا کہ برنارڈو کو آسمان نے اُٹھا لیا یا زمین نگل گئی۔ آخر وہ دن آیا جب برنارڈو ڈرامائی طور پر گرفتار ہو گیا۔روپوش اور گمنامی کے عالم میں برنارڈو اتنے خیراتی کام کرتا تھا کہ جب گرفتار ہوا تو غریب عوام کی بڑی تعداد نے احتجاجی مظاہرے کئے۔ ہمارے اپنے ملک میں بھی بڑے پیمانہ پر کی جانے والی لوٹ مار کا ایک چھوٹا حصہ خیراتی کاموں پر صرف کر دینے اور نیک نامی کو قیمتاً خرید لینے والوں کی کئی مثالیں ہیں۔ اٹلی میں مافیا لیڈر کے انجام سے ہمارے شکستہ دلوں میں اُمید کا یہ ننھا سا چراغ جل اُٹھتا ہے کہ شاید ایک دن ہمارے ہاں چلنے والوں ٹریکٹروں کا بھی یہی حشر ہوگا اور ہر وہ ٹریکٹر جو سنگین جرائم کی فصل بونے میں کئی عشرے مصروف رہا‘ آنے والے دنوں میں زیر زمین چلا جائے گا‘ یا دفن کر دیا جائے گا۔ زخموں سے چُور اور لہولہان عوام ایک ہی سوال پوچھتے ہیں: وہ مبارک مہینہ کب آئے گا؟ کراچی اور کوئٹہ میں چار سُو بکھرے ہوئے خون کے دھبے کتنی برساتوں کے بعد دُھلیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved