حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ ابتدائی اہل ایمان میں سے ہیں۔ ان کا اصلی نام عمرو بن قیس بن زائدہ تھا۔ یہ حضرت خدیجہؓ کے ماموں زاد تھے۔ حضرت خدیجہؓ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ ام مکتوم کے والد قیس بن زائدہ کی حقیقی بہن تھیں۔ یہ پیدایشی نابینا تھے۔ مکتوم کا معنی نابینا ہے یعنی وہ شخص جس کی آنکھوں سے ہر چیز پوشیدہ ہو۔ نابینا ہونے کے باوجود انتہائی ذہین اور بلند حوصلہ نوجوان تھے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کی وجہ سے ان کی رشتہ داری بھی بنتی ہے۔ ان کو قبول اسلام کے بعد اس بات کا بے انتہا شوق تھا کہ وہ آنحضورصلی اللہ علیہ سلم کی مجلس میں بیٹھا کریں، آپؐ سے قرآن سن کر اسے یاد کر لیا کریں اور آپؐ کے اقوال واحادیث کو بھی ذہن میں بٹھا لیا کریں۔ ان کو کفار کی طرف سے اذیتیں پہنچانے کا کوئی واقعہ تاریخ میں منقول نہیں ہے۔ البتہ کفار ان کو ایک بے حیثیت اور بے ضرر انسان سمجھتے تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص363)
اسلام کے ابتدائی زمانے میں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابھی کفار نے قطع تعلقی نہیں کی تھی، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے سرداروں سے نشست کیا کرتے تھے اور انھیں اسلام کی طرف راغب کرنے کی کوشش جاری رہتی تھی۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا تھی کہ بااثر لوگ اسلام کی طرف آئیں تاکہ اسلام کی قوت کا باعث بنیں۔ ایک مرتبہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں قریش کی چند اہم شخصیات بیٹھی تھیں اور آپؐ ان سے تبادلۂ خیالات کررہے تھے۔ اتنے میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ اپنے معمول کے مطابق آپؐ کے پاس حاضر ہوئے اور آتے ہی آپؐ سے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے تعلیم دیجیے۔ اس واقعہ کی طرف قرآن پاک کی سورۂ عبس میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے:
وہ ترش رُو ہوا اور بے رُخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمھیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو خود تمھارے پاس دوڑا آتا ہے اور (اللہ سے) ڈر رہا ہوتاہے، اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ہر گز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اسے قبول کرلے۔ (عبس80:1-12)
تمام مفسرین نے ان آیات کی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ کا پورا واقعہ بیان کیا ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں:
شانِ نزول میں جو واقعہ حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ نابینا صحابی کا نقل کیا گیا ہے، اس میں بغوی نے یہ مزید روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہؓ کو نابینا ہونے کے سبب یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ آپؐ کسی دوسرے سے گفتگو میں مشغول ہیں، مجلس میں داخل ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دینی شروع کی اور بار بار آواز دی۔ (مظہری)اور ابن کثیر کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آیت قرآن پڑھوانے کا سوال کیا اور اس سوال کے فوری جواب پر اصرار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ کے سرداروں کو دین کی تبلیغ کرنے مصروف تھے۔ یہ سردار تھے، عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل ابن ہشام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب۔ آپؐ کو اس موقع پر عبداللہ ابن ام مکتومؓ کا اس طرح خطاب کرنا اور ایک آیت کے الفاظ درست کرنے کے معمولی سوال پر فوری جواب کے لیے اصرار کرنا ناگوار ہوا، جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عبداللہ ابن ام مکتومؓ پکے مسلمان اور ہر وقت کے حاضر باش تھے۔ دوسرے اوقات میں بھی سوال کرسکتے تھے۔ ان کے جواب کے موخر کرنے میں کسی دینی نقصان کا خطرہ نہ تھا۔ بخلاف روسائے قریش کے کہ یہ لوگ نہ ہر وقت آپ کی خدمت میں آتے ہیں اور نہ ہر وقت ان کو اللہ کا کلمہ پہنچایا جاسکتا تھا۔ اس وقت یہ لوگ آپ کی بات سن رہے تھے، جس سے ان کے ایمان لانے کی توقع کی جاسکتی تھی اور ان کی بات کاٹ دی جاتی تو ایمان ہی سے ان کی محرومی ظاہر تھی۔ ان مجموعۂ حالات کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتومؓ سے رخ پھیر کر اپنی ناگواری کا اظہار فرمایا اور جو گفتگو جاری تھی اس کو جاری رکھا۔ اس پر مجلس سے فارغ ہونے کے وقت سورۂ عبس کی یہ آیاتِ مذکورہ نازل ہوئیں، جس میں آپ کے طرز عمل کو ناپسندیدہ قرار دے کر آپ کو ہدایت کی گئی۔
عَبَسَ کے معنی ترش روئی اختیار کرنا یعنی چہرہ سے اظہار ناگواری کرنا اور تَوَلّٰی کے معنی رخ پھیر لینے کے ہیں۔ اس جگہ موقع اس کا تھا کہ یہ الفاظ آپ کو بصیغہ خطاب کہے جاتے کہ آپ نے ایسا کیا۔ لیکن قرآن کریم نے صیغۂ خطاب کے بجائے صیغۂ غائب اختیار کیا جس میں عتاب کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکرام ملحوظ رکھا گیا اور صیغۂ غائب اختیار کرکے یہ ایہام کیا کہ جیسے یہ کام کسی اور نے کیا ہو۔ اشارہ اس طرف ہے کہ یہ کام آپ کے شایان شان نہیں، اور دوسرے جملے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عذر کی طرف اشارہ فرمادیا: وَمَا یُدْرِیْکَ (یعنی آپ کو کیا خبر) اس میں بتلا دیا کہ اعراض کی وجہ یہ پیش آئی کہ آپ کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ یہ صحابی جو کچھ دریافت کررہے ہیں اس کا اثر یقینی ہے اور غیروں سے گفتگو کا اثر موہوم۔ اس دوسرے جملے میں صیغۂ غائب چھوڑ کر صیغہ خطاب کا اختیار فرمانے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم اور دل جوئی ہے کہ اگر بالکل خطاب کا صیغہ استعمال نہ ہوتا تو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ اس طرز عمل کی ناپسندیدگی ترکِ خطاب کا سبب بن گئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ناقابل برداشت رنج والم ہوتا۔ اس لیے جس طرح پہلے جملہ میں خطاب کے بجائے غائب کا صیغہ استعمال کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم ہے اسی طرح دوسرے جملے میں خطاب کرنا بھی آپ کی تکریم اور دل جوئی ہے۔
اس میں ان علما کے لیے ایک اہم ہدایت ہے جو غیرمسلموں کے شبہات کے ازالے اور ان کو اسلام سے مانوس کرنے کی خاطر بعض ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جن سے عام مسلمانوں کے دلوں میں شکوک شبہات یا شکایات پیدا ہوجاتی ہیں۔ ان کو اس قرآنی ہدایت کے مطابق مسلمانوں کی حفاظت اور اصلاحِ حال کو مقدم رکھنا چاہیے، اکبرمرحوم نے خوب فرمایا:
بے وفا سمجھیں تمھیں اہلِ حرم اس سے بچو
دَیر والے کج ادا کہہ دیں یہ بدنامی بھلی
(معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع، مطبوعہ1983ئ، ص 672-675)
سورۂ عبس کی تفسیر لکھتے ہوئے گزشتہ صدی کے ایک دوسرے عظیم مفسرِ قرآن مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں ان آیات کی شان نزول اور پس منظر کا تذکرہ یوں کیا ہے:
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں مکہ معظمہ کے چند بڑے سردار بیٹھے ہوئے تھے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اتنے میں ابن ام مکتوم نامیؓ ایک نابینا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے آپ سے اسلام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ مداخلت ناگوار ہوئی اور آپؐ نے ان سے بے رخی برتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سورۃ نازل ہوئی۔ اس تاریخی واقعہ سے اس سورہ کا زمانہ نزول بآسانی متعین کیا جاسکتا ہے۔
اولاً: یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابن ام مکتومؓ بالکل ابتدائی دور کے اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجرؒ اور حافظ ابن کثیرؒ تصریح کرتے ہیں کہ اَسْلَمَ بِمَکَّۃَ قَدِیْمًا اور ہُوَ مِمَّنْ اَسْلَمَ قَدِیْمًا۔ یعنی یہ ان لوگوں میں سے تھے جو مکہ معظمہ میں بہت پہلے اسلام لائے تھے۔
ثانیاً: حدیث کی جن روایات میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے ان میں سے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ اسلام لاچکے تھے اور بعض سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی طرف مائل ہوچکے تھے اور تلاشِ حق میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ انھوں نے آکر عرض کیا تھا:
یارسول اللہ، مجھے سیدھا راستہ بتائیے۔ (ترمذی، حاکم، ابن حبان، ابن جریر، ابویعلیٰ) حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ وہ آکر قرآن کی ایک آیت کا مطلب پوچھنے لگے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وہ علم سکھائیے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے۔ (ابن جریر، ابن ابی حاتم، بحوالہ: تفہیم القرآن، ج6، ص250) (جاری )