الطاف حسین کی لغویات سے جو فرق پڑا‘ وہ یہ ہے کہ نائن زیرو کا نائن ختم ہو گیا‘ صرف زیرو باقی ہے۔ اس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے بیشتر لیڈراور فسادی کارکن پکڑے گئے۔ مرکزی دفتر کے ساتھ اس کے تمام دفاتر سیل کر دیئے گئے۔ بڑے بڑے لیڈر گرفتار ہوئے۔ گرفتاری کا انداز بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ شہر کے عین مرکز میں واقع‘ کراچی پریس کلب ہجوم سے بھرا تھا۔ اسی دوران رینجرز کے اہلکار صورتحال کا جائزہ لینے وہاں پہنچ گئے۔ کلب کے سرگرم اور سرکردہ اراکین وہاں جمع تھے اور رینجرز کے اہلکار ‘ فکرمند صحافیوں کو بتانے گئے تھے کہ حکومت اور مسلح فورسز‘ پوری طرح کارکن صحافیوں کے ساتھ ہیں اور وہ تسلی رکھیں کہ انہیں فسادیوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ یہ بات چیت چل رہی تھی کہ فاروق ستار اپنی گاڑی سے اتر کر وہاں آ گئے۔ رینجرز کے اہلکاروں نے ‘ان سے آنے کا سبب پوچھا‘ تو فاروق ستار نے جواب دیا کہ میں عوام کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرنے آیا ہوں۔ جس پر مشتعل مظاہرین میں سے بعض نے جواب دیا کہ'' آپ اپنا جواب اے آروائی کے دفتر میں جا کر دے چکے ہیں۔ مزید آپ کے پاس کیا جواب ہے؟‘‘ اس پرفاروق ستار ‘ پریس کلب کے اندر جانے لگے‘ تو رینجرز کے اہلکاروں نے ‘آگے بڑھ کر انہیں روک لیا۔ فاروق ستار نے اندر جانے کے لئے زورلگایا‘ تو اہلکاروں نے انہیں بازوئوں کی رکاوٹ کھڑی کر کے راستہ بند کر دیا۔ اس پر کچھ توتکار ہوئی‘ جس کی سمجھ نہیں آئی۔ فاروق ستار مزیدزور لگاتے ہوئے آگے بڑھے‘ تو اہلکاروں نے ان کے لئے راستہ چھوڑنا شروع کر دیا۔ اہلکار راستہ دیتے گئے۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ فاروق ستار زورآزمائی کرتے ہوئے اہلکاروں کو دھکیل کر‘آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگے ہیں‘ توجواب میں انہیں زیادہ قوت سے دھکیل کر روکا گیا‘ تو انہوں نے ایک دم پینترا بدلا اور اہلکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''میں تو اپنی گاڑی کی طرف جا رہا ہوں۔‘‘ جس پر مزید کچھ مکالمے بازی ہوئی۔ آخر فاروق ستار نے پیش کش کی کہ آپ لوگ اپنی گاڑیاں میرے آگے پیچھے لگا دیں‘ میں آپ کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے کو تیار ہوں۔ اس کے ساتھ ہی فاروق ستار اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے اور وعدے کے مطابق چلتے ہوئے اپنی گاڑی رینجرز کی گاڑیوں کے درمیان رکھی۔ جبکہ شہر میں ایم کیو ایم کے فسادی ‘ دہشت گردی کی وارداتیں کرنے میں مصروف رہے۔ عام طور پر ایم کیو ایم کے دہشت گرد‘ اپنی ان کارروائیوں کی ٹی وی کوریج نہیں ہونے دیتے‘ جن میں ان کی عورتیں شامل ہوں۔ جہاں تک میرا مشاہدہ ہے‘ مجھے ایسی کوئی ٹی وی کوریج دیکھنے کا موقع نہیں ملا‘ جس میں ایم کیو ایم خواتین دادشجاعت دے رہی ہوں۔ ان کی بہادری اور دلیری کے مناظر‘ مجھے ٹی وی پر پہلی بار دیکھنے کو ملے۔ بظاہر وہ
عام گھریلو خواتین دکھائی دے رہی تھیں۔ لیکن ایکشن میں دیکھا ‘وہ تربیت یافتہ کمانڈوز معلوم ہوئیں۔ وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا‘ جب بظاہرگھریلو دکھائی دینے والی یہ خواتین‘ تربیت یافتہ کمانڈوز کی طرح چشم زدن میں آگے بڑھ کر بھاری بھرکم ٹیلی ویژن سیٹس اٹھا کر‘ ہوا میں گھماتیں اور فرش پر پٹخ دیتیں۔عمارت کے شیشے انہوں نے مکے بازی کر کے توڑے۔ دوسرے برقی سامان کی تاریں ‘ پتنگ کی ڈور کی طرح توڑ کے پھینک دیں اور ''اے آروائی‘‘ کے مرد عملے نے انتہائی صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے‘ اندر آئی ہوئی دہشت گرد عورتوں کو خود روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ان عورتوں کو کھلی آزادی تھی کہ جس طرح وہ چاہیں توڑ پھوڑ کر کے املاک کو نقصان پہنچاتی رہیں لیکن اے آر وائی کے کارکنوں نے تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
جب ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے ‘ اے آر وائی پہ رک جانے کی بجائے‘ فساد کا دائرہ شہر میں پھیلانا شروع کیا‘ تورینجرز نے پولیس کے ساتھ آگے بڑھ کر‘ شہر میں پھیلتے ہوئے فسادات روکے۔ یہ سیاسی دہشت گرد‘ گلشن اقبال‘ بہادر آباد‘ ملیر‘ گلستان جوہر‘ اورنگی ٹائون‘ لانڈھی‘ شاہ فیصل کالونی‘ نیو کراچی‘ سرجانی ٹائون‘ رنچھوڑلائن‘ برنس روڈ‘ عزیز آباد‘ گلبہار کالونی‘ گلشن معمار‘ لیاری‘ پی آئی ڈی کالونی‘ جمشید کوآرٹرز اور ڈیفنس سمیت متعدد آبادیوں میں جہاں جہاں بھی ان کے دفتر تھے‘ پرامن شہریوں کو خوفزدہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ سندھ میں پھیلتا نظر آیا‘ تو حیدر آباد اور صوبے کے دیگر ایسے شہروں میں‘ پولیس نے حالات کو سنبھالا اور بعض مقامات پر ان کے دفاتر بھی سیل کر دیئے۔ جب کہ عزیز آباد میں واقع نائن زیرو‘ خورشید میموریل ہال اور ایم پی اے ہاسٹل سمیت ‘ایسی تمام عمارتوں کو سیل کر دیا‘ جہاں ایم کیو ایم نے ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ پولیس اور رینجرز نے نائن زیرو کے اردگرد مختلف مقامات کی عمارتوں پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس آپریشن میں رینجرز کی خواتین اہلکاروں نے بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ کئی گھنٹوں کو محیط پولیس کی بھاری نفری‘ علاقے میں تعینات رہی۔
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم کے رہنما اور اس کے دہشت گردوں نے ہر جگہ پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے ۔ جواب میں پاکستانیوں کی بھاری تعداد نے ‘اس گھن گرج کے ساتھ پاکستان زندہ بادکہا کہ ایم کیو ایم والوں کے حوصلے ماند پڑ گئے۔ سوشل میڈیا کے ایک صارف نے لکھا ''آج پاکستان کی کرکٹ ٹیم رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر آئی۔ اس کے بعد کسی اور اچھی خبر کا انتظار ختم ہو گیا۔‘‘ سوشل میڈیا کے صارفین ‘ایک اور اچھی خبر بھول گئے کہ پاکستان کے روایتی حریف بھارت نے بھی‘ کرکٹ میں پاکستان کے بعد دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ایک اور تصویر مصطفی کمال کی تھی‘ جس میں وہ ایم کیو ایم پر پابندی کی پیش گوئیاں سن کے خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی تصویر پر کسی نے لکھ دیا تھا ''اس وقت دنیا کا خوش ترین انسان۔‘‘جس تیزی کے ساتھ ایم کیو ایم کے حامیوں نے‘ پاکستان کے حق میں اظہارخیال اور نعرے بازی شروع کی‘ اس سے اندازہ ہوا کہ وہ اس فریب میں آئے ہوئے تھے کہ الطاف حسین‘ پاکستان کے اندر مہاجروں کے حالات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے کھل کر پاکستان کے بارے میں معاندانہ نعرے لگائے ‘ مہاجرعوام کا جذبہ حب الوطنی بیدار ہو گیا اور جواب میں انہوں نے زوروشور سے ''پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیئے۔خود ایم کیو ایم کے کارکن اور رہنما‘ پاکستان کے خلاف ‘الطاف حسین کی مکروہ نعرے بازی سن کر مشتعل ہو گئے۔ ایم کیو ایم کے رہنما اور سینیٹر طاہر مشہدی نے ٹویٹ کی کہ انہوں نے عہد کیا ہے کہ ''پیارے وطن پاکستان کی خدمت کرتے رہیں گے اور انہیں اس پر فخر ہے۔‘‘ آگے انہوں نے پاکستان زندہ باد کے بعد لکھا ''کسی کو اس عظیم قوم کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے۔‘‘ ایک صاحب نے لکھا ''پاکستان زندہ باد۔ فوج کی طرف سے آزادی کا بہترین تحفہ۔‘‘ سوشل میڈیا پر ایک صارف نے لکھا ''میں مہاجر ہوں۔ پاکستان سے پیار کرتا ہوں اور الطاف حسین سے نفرت۔ پاکستان زندہ باد۔‘‘
خو شی کی بات یہ ہے کہ مودی کی مسلسل ہرزہ سرائی اور الطاف حسین کی طرف سے ‘ پاکستان کے بارے میں غلیظ خیالات کے اظہار کے باوجود‘ شام تک ہمارے وزیراعظم کی طرف سے کچھ نہیں کہا گیا۔ لیکن جب رات گئے ان کا بیان آیا‘ تو ہر پاکستانی کی طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ انہوں نے پاکستانیوں کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ''پاکستان کے خلاف بولنے والوں کو معاف نہیں کر سکتے۔ ایک ایک لفظ کا حساب لیا جائے گا۔ اشتعال انگیز بیانات سے ہر پاکستانی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ملکی وقار پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔‘‘ مہاجر بنیادی طور پر پاکستانی ہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ ماہ سے‘ بھارتی فوج کے گھیرے اور کرفیو میں رہ کر‘ گرفتاریاں دے رہے ہیں۔ان کے 80 سے زیادہ بھائی‘ بھارتیوں کی گولیوں سے شہید ہو گئے۔ سینکڑوں زخمی پڑے ہیں اور اس سے بھی بڑی تعداد میں جیلوں کے اندر اذیت جھیل رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ہر روز کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ''پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے اور پاکستان کے جھنڈے لہراتے ہیں۔ جبکہ پاکستان سے تمام تر آرام و آسائش اور آسودگی حاصل کرنے کے بعد بھی ‘ الطاف حسین اپنے محسن ملک کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔فرق صاف ظاہر ہے۔