ورجینیا میں ایک ادبی محفل سے لوٹ کر آیا ہوں۔ میرے دوست اکبر چوہدری نے مجھے میرے گھر ڈراپ کر دیا ہے لیکن ابھی تک محفل کا اثر برقرار ہے۔ مجھے ادب پڑھنے سے ضرور دلچسپی ہے لیکن ادبی محفلوں میں کسی کتاب پر کچھ پڑھنے کا کبھی شوق نہ تھا۔ پروفیسر طاہر فتح ملک کبھی زور لگاتے ہیں تو سامعین میں بیٹھ جاتا ہوں۔ اس دفعہ بھی انکار نہ ہو سکا۔ کرتا بھی کیسے۔ میرے پسندیدہ لکھاری کی نئی کتاب ''داستان جاری ہے!‘‘ کی تقریب رونمائی تھی۔ دو سال قبل ڈاکٹر عاصم صہبائی کے لیوس میں واقع گھر میں خوبصورت شکل و صورت کے نور نغمی سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے والد ابوالحسن نغمی کی کتاب ''امریکہ میں بتیس سال‘‘ مجھے پیش کی تھی۔ میں نے وہ کتاب لے لی تھی‘لیکن بھولے سے اکبر چوہدری کے بھائی اصغر کے ورجینیا میں واقع گھر میں ہی چھوڑ گیا تھا‘ لیکن اصغر بھائی نے اپنے کسی دوست کے ہاتھ وہ کتاب پاکستان بھجوا دی۔ پچھلے دنوں جب اسلام آباد میں ان کی بھیجی ہوئی وہ کتاب مجھے ملی تو بے ساختہ مسکرایا کہ اب تو یہ کتاب پڑھنا ہی پڑے گی۔ میں نے نورالحسن نغمی‘ جن کی عمر پچاسی برس ہو چکی ہے، کی مذکورہ کتاب پڑھنا شروع کی تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اب بھی اردو میں اتنی خوبصورت نثر لکھی جاتی ہے۔ میں نے پہلی بار ابوالحسن نغمی کو سنجیدگی سے لیا۔ ان کی نثر نے مجھے نقوش کے پرانے شمارے یاد دلا دیے‘ جو میں نے بڑی مشکل سے تلاش کرکے خریدے اور سونے سے پہلے ان میں سے ایک تحریر ضرور پڑھتا ہوں۔ نقوش کے پرانے شمارے تلاش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب سے شکیل عادل زادہ نے سب رنگ بند کیا تھا‘ اچھی نثر اور کہانی پڑھنے کو نہیں ملی۔ شکیل عادل زادہ کا 'ذاتی صفحہ‘ ہی پورے سب رنگ پر بھاری ہوتا تھا۔ پھر ایک دن لیوس شہر میں ڈاکٹر احتشام قریشی نے مجھے ہندوستانی اردو ادبی رسالے ''اثبات‘‘ کی ایک کاپی دی۔ یقین کیجیے‘ اس کا دیباچہ پڑھ ہی سر دھنتا رہا۔ سب چیزیں کمال کی تھیں: زبان و بیان، دلائل‘ افسانے اور کہانیاں۔
اس سال امریکہ آیا تو اکبر چوہدری مجھے ٹی وی اور سٹیج کے معروف فنکار علی شعیب حسن کے گھر لے گئے‘ جہاں ہماری دعوت تھی۔ مزاح نگار انور مقصود اور ان کی بیگم عمرانہ مقصود کے علاوہ شاہین صہبائی، کالم نگار منظور اعجاز اور نور نغمی بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے نور نغمی کو بتایا کہ ان کے والد نے بہترین کتاب تصنیف کی‘ تو وہ مسکرائے اور ایک اور کتاب مجھے دیتے ہوئے گویا ہوئے: لیجیے والد صاحب کی آپ بیتی ہے‘ ''داستان ابھی جاری ہے! ابھی سنگ میل لاہور کے افضال صاحب نے چھاپ کر بھیجی ہے‘‘۔ کتاب ایک تھی اور اس کی طرف اٹھنے والی نظریں کئی۔ میں نے کمال بدتمیزی کا مظاہرہ کیا اور کتاب تقریباً چھین ہی لی۔
اس داستان کو پڑھنے سے پہلے میرا خیال تھا کہ اردو ادب میں اب اچھی آپ بیتی پڑھنے کو نہیں ملے گی۔ شاید شکیل عادل زادہ کسی دن لکھ دیں تو کچھ نہیں کہہ سکتا‘ ورنہ اب قرۃ العین حیدر کی 'کار جہاں دراز ہے‘ دیوان سنگھ مفتوں کی 'ناقابل فراموش‘ جوش کی 'یادوں کی برات‘ یا پھر کنور مہندر سنگھ بیدی کی 'یادوں کا جشن‘ کلدیپ نیر کی Beyond the Lines جیسی کتابوں کے بعد اب مزید کیا لکھا جائے گا۔ دیوان سنگھ کو تو ہر سال دوبارہ پڑھتا ہوں۔ میں نقوش کے پرانے شمارے پڑھتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ محمد طفیل جیسا بڑا آدمی ہمارے اندر موجود تھا۔ تن تنہا نقوش جیسا رسالہ نکالا۔ کیا کیا کہانیاں لکھی گئیں۔ ادیب روشناس ہوئے، ابوالفضل صدیقی، قاضی عبدالستار، بلونت سنگھ، غلام عباس، منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی ، قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی، آغا بابر، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، اسد محمد خان۔ ایسے ایسے ادیب اور ان کی تخلیقات۔ سب رنگ بند ہونے کے بعد کچھ عرصہ ڈپریشن رہا لیکن اب میں نے اپنا دل نقوش کے پرانے شماروں میں لگا لیا ہے۔ نقوش بند ہوئے بھی ایک عمر گزر گئی۔ کسی کو شاید آج یاد بھی نہ ہو کہ کبھی نقوش جیسا ادبی رسالہ نکلتا تھا۔ جو نقوش میں چھپ جاتا وہی ادیب مانا جاتا تھا۔ محمد طفیل نہ رہے، نقوش بھی نہ رہا۔ ادب نہ رہا، ادیب نہ رہے۔ سب کچھ کمرشل ہو گیا‘ سب کچھ بک گیا۔
انور مقصود بتا رہے تھے کہ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ ہو چکی ہو گی لیکن کتابوں کی دکانیں صرف سات ہیں۔ مجھے یاد آیا اسلام آباد میں مسٹر بُکس اور سعید بُکس کے نام سے صرف دو ہیں، لاہور میں شاید چار ہیں۔ ملتان میں بیکس بُکس کے نام سے ایک ہی تھی۔ کہیں بوتیک کھل گئی اور کہیں نیا ہوٹل۔ شکیل عادل زادہ سے گلہ کرتا تو جواب ملتا: کہانی کہاں سے لائوں‘ ادیب ہی نہیں رہے۔ ان کی بات سن کر خیال آتا‘ آیا ادب کی بھی ادیب کی طرح ایک طبعی عمر ہوتی ہے؟ تقسیم کے وقت کے ادیب جوں جوں اپنی طبعی عمر پا کر وفات پاتے گئے‘ ان کے ساتھ ہی ادب کی بھی موت ہوتی چلی گئی۔ کہاں گئے ادیب، کہاں گیا ادب؟ میں نے جواب دیا: شکیل صاحب‘ آپ درست کہتے ہیں‘ جو اکا دکا ادیب بچ گئے تھے وہ بھی اخباری کالموں کو پیارے ہو گئے۔ کالم لکھے تو پیسہ ملا، مشہوری ملی اور بادشاہو ں کے قریب ہونے کا موقع بھی‘ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب کون کہانی لکھے، کون ادب تخلیق کرے۔ کون ایک ایک لفظ پر بیٹھ کر گھنٹوں سوچے۔ لیکن مجھے علم نہیں تھا کہ اس پائے کی نثر لکھنے والا ابوالحسن نغمی نامی ایک شخص ہمارے درمیان موجود ہے۔ سیتاپور کا وہ سولہ سالہ نوجوان بچپن سے اپنے باپ کی لاہور سے محبت کی کہانیاں سن سن کر یہ شہر دیکھنے چل پڑا تھا، آج اس نے ستر سال بعد امریکہ میں بیٹھ کر ایسی داستان لکھی ہے کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو اس آپ بیتی کو‘ جو پاکستان کے ستر برسوں کی کہانی ہے‘ کالج اور یونیورسٹی کے اردو ادب کے کورس میں شامل کرادیتا کہ ایسی تحریریں اب بہت کم لکھی جا رہی ہیں۔
جب تقریب میں مجھ سے کہا گیا کہ میں اس بارے میں کچھ بولوں تو میں پریشان ہو گیا کہ کیا بولوں! ادب پڑھنا اور ادب پر بولنا دو الگ چیزیں ہیں۔ سوچا: لوگ کیا کہیں گے ہر وقت سیاست اور سکینڈلز پر بات کرنے والا اب ہمیں ادب بھی سمجھائے گا۔ طنزیہ مسکراہٹوں کا تبادلہ ہو گا کہ لو اب موصوف ادب پر بھی ہاتھ صاف کریں گے‘ لیکن پتہ نہیں ابوالحسن کی یہ داستان پڑھتے ہوئے پہلی دفعہ اندر سے خواہش ابھری کہ مجھے اس کتاب پر کچھ بولنا چاہیے۔ اس کتاب میں تو پورا ہندوستان، ہندوستان کی تہذیب، نئے پاکستان کی کہانی، پشاور کی محبت، لاہوریوں کا نہ ختم ہونے والا پیار اور کراچی میں گزری شاموں کی داستانیں ہیں۔ کیا کمال کے کردار ہیں‘ جن کا ذکر اس کتاب میں ملتا ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ایسے ایسے لوگ بھی لاہور میں تھے؟ یہ کتاب پڑھ کر احساس ہوا کہ کبھی لاہور میں کتنے بڑے انسان، ادیب، پروفیسر، استاد رہتے تھے... لگتا ہے لاہور تو اب یتیم ہو گیا ہے۔
گفتگو کرنا اس لیے بھی مشکل لگ رہا تھا کہ سٹیج پر انور مقصود بیٹھے تھے، یاسمین نغمی تھیں، علی شعیب حسن جیسے فنکار اور سب سے بڑھ کر اردو ادب میں بڑا نام، نقاد اور شاعر پروفیسر ستیہ پال آنند‘ جو امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں ادب پڑھاتے ہیں۔ پروفیسر آنند نے بھی کمال گفتگو کی۔ اس سے بڑھ کر میرے سامنے وہ لوگ بیٹھے تھے جو اردو زبان کے عاشق تھے‘ اس کے لہجے اور تلفظ پر جان دینے والے سامعین۔ پتہ چلا‘ پچانوے برس عمر کے ہربنس سنگھ بیدی بھی وہاں بیٹھے ہیں‘ جو ہندوستان کے مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب پاکستان کی بڑی اداکارہ ریما خان نے اس کتاب پر تبصرہ کیا۔ شروع میں‘ میں نے یہ سمجھا تھا کہ شاید وہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ایسی تقریبات میں آجاتی ہیں‘ لیکن بلاشبہ ریما خان نے اچھا تبصرہ کیا اور دو تین نکات ایسے اٹھائے‘ جن پر بات کرنے کے بارے میں‘ میں سوچ رہا تھا۔ علی شعیب حسن نے بھی اپنے ماموں نغمی کے بارے میں بہت خوبصورت باتیں کیں‘ لیکن میلہ انور مقصود کی بیگم عمرانہ مقصود لوٹ کر لے کر گئیں۔ وہ اپنے میاں کی آپ بیتی ''الجھے سلجھے انور‘‘ کے نام سے لکھ رہی ہیں۔ کہنے لگیں: ان سے پہلے تہمینہ درانی نے اپنے شوہر مصطفیٰ کھر پر کتاب لکھی‘ انہیں طلاق ہو گئی لیکن کتاب مشہور ہوئی۔ بھارتی اداکار اوم پوری کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ کتاب تو مشہور ہو گئی لیکن انہیں بھی طلاق ہو گئی۔ اب میں لکھ رہی ہوں... اس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ورجینیا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کی۔ میرے لیے یہ حیرانی کی بات تھی کیونکہ اتنے لوگ تو اب پاکستان میں بھی کتاب کی تقریب رونمائی میں نہیں آتے۔
اس طرح میرے امریکہ میں قیام کا آخری روز ایک خوبصورت کتاب کی تقریب رونمائی پر ختم ہوا۔ اس سے بہتر کوئی محفل نہیں ہو سکتی کہ ادب ہو، ادیب ہوں، ادب کے عاشق ہوں ،کتاب ہو اور کتاب پر گفتگو ہو۔ کچھ آپ بیتیاں ایسی ہوتی ہیں جو اور زمانوں کے بارے میں لکھی جاتی ہیں۔ اجنبی کردار ان آپ بیتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ انجانے لوگ ان کتابوں میں زندہ ہوتے ہیں لیکن رات کی تنہائی میں پڑھتے ہوئے وہ آپ بیتیاں آپ ہی پر بیت جاتی ہیں۔ ''داستان جاری ہے‘‘ بھی ایسی ہی آپ بیتوں میں سے ایک ہے‘ جو لکھی تو سیتاپور کے پچاسی سالہ نورالحسن نغمی نے ہے، لیکن لگتا ہے‘ یہ مجھ پر ہی بیت گئی ہے۔