ایک تازہ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے اپنے ارکان کابینہ اور ارکان پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ اگر ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ہے تو اس کا سامنا کریں اور پاک صاف ہو کر آئیں‘ بصورت دیگر ایسے وزراء کے لیے کابینہ کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس سلسلے میں نیب انہیں طلب کرتی ہے تو وہ لیت ولعل کرنے کی بجائے وہاں جا کر پیش ہوں اور الزامات کا سامنا کریں۔ واضح رہے کہ ان الزام زدگان میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی اور وزراء میں سکندر حیات بوسن‘ شاہد خاقان عباسی‘ اور ارکان قومی اسمبلی میں افتخار حسن اور رانا حیات خاں شامل ہیں۔ جن پر کرپشن‘ اختیارات کے غلط استعمال‘ دھوکہ دہی اور فنڈز ہڑپ کرنے کے الزامات ہیں۔
یہ بہت اچھی بات ہے اور وزیراعظم کا یہ اقدام قابل صد ستائش ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آدمی نے خود گڑ کھا رکھا ہو تو وہ کسی اور کو گڑ کھانے سے کیسے منع کر سکتا ہے جبکہ خود وزیراعظم اور ان کی فیملی کے خلاف کرپشن کے 37 مقدمات نیب کے پاس زیر التوا ہیں جن میں بیس بیس سال پرانے کیسز بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم ان مقدمات میں خود تو نیب کے پاس پیش ہوئے نہیں تو یہ لوگ کیسے ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ 37 کیس اگر جھوٹے ہوتے تو کب کے خارج ہو چکے ہوتے‘ چنانچہ نیب کی صورت حال اس سانپ کی سی ہے جس کے منہ میں چھچھوندر ہو جسے وہ نہ کھا سکے نہ اگل سکے جبکہ سپریم کورٹ بھی کئی بار اس ضمن میں نیب کو ہدایات جاری کر چکی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اوپر اربوں کی کرپشن ہو رہی ہو تو نیچے کروڑوں کی کرپشن کو کیونکر روکا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ملک میں دو قانون ہیں‘ ایک عام شہریوں کے لیے اور ایک وزیراعظم اور ان کی فیملی کے لیے اور جبکہ مذکورہ بالا وزراء اور ارکان اسمبلی تھوڑی جرات سے کام لیتے ہوئے وزیراعظم سے سوال کر سکتے ہیں کہ ان 37 مقدمات میں آپ خود کیوں کلیئر ہونے کا تردد نہیں کرتے؟ ہیں جی؟
ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کا سیکرٹریٹ کرپشن کی 39 انکوائریوں کو دو سال سے دبائے بیٹھا ہے جو مکمل ہو چکی ہیں اور صرف وزیراعظم کے احکامات کی منتظر ہیں جبکہ یہ جملہ انکوائریاں خود وزیراعظم کے حکم پر شروع کی گئی تھیں‘ جن کا تعلق سی ڈی اے سے ہے۔ دستیاب دستاویزات کے مطابق یہ سکینڈل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کی حکومت میں نمودار ہوئے تھے چنانچہ اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی نوازشریف نے کرپٹ افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا اور متعلقہ افسروں کو ان معاملات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا‘ چنانچہ وزیراعظم کے حکم پر چھ انکوائری کمیٹیاں تشکیل دے کر انہیں تحقیقات کی ہدایات دی گئیں اور یہ بھی کہا گیا کہ ان 39 کیسوں کی تحقیقات طے شدہ مدت کے اندر ہو جانی چاہیے۔ چنانچہ ایک کمیٹی کی انکوائری محمد امتیاز تاجور کے سپرد کی تھی جس میں بیس ارب روپے کی کرپشن کا الزام تھا۔ یہ انکوائری مکمل ہو کر اس کی رپورٹ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی گئی۔ اس میں دیگر ارکان ملک ممتاز‘ واثق حسین ملک اور نعمان شیخ تھے۔
اس ٹیم نے کشمیر ہائی وے سکینڈل کی تحقیقات میں بھاری بے قاعدگیوں کا سراغ لگایا۔ اس نے پارک ٹاور سکینڈل‘ آئی جے پی روڈ سکینڈل اور بحریہ انکلیو کو جانے والی سڑک کی تحقیقات بھی کیں اور بھاری گڑ بڑ ا انکشاف کیا۔ ان کرپشن سکینڈلز میں کرپٹ مافیا نے ایل ڈی اے کے افسروں کے ساتھ مل کر اور حکومتی نمائندوں کی مدد سے اثاثوں کی لوٹ مار کی۔ ایک کمیٹی ایڈیشنل سیکرٹری جاوید اختر کی سربراہی میں قائم کر کے سی ڈی اے چیئرمین کی طرف سے کراچی سٹاک ایکس چینج میں سرمایہ کاری ملازمین کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ ایل ای ڈی پراجیکٹ‘ ڈپلومیٹک شٹل سروس اور آب پارہ پارکنگ کی انکوائری سونپی گئی۔ جائنٹ سیکرٹری فنانس نوید علائو الدین سلمان طارق اور رانا طارق جس میں سی ڈی اے افسروں کے خلاف ایکشن لینے کی سفارش کی گئی۔
سی ڈی اے کے چھ میگا کرپشن سکینڈلز کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کا سربراہ شاہد ایڈیشنل سیکرٹری فنانس کو مقصد کیا گیا۔ کرنل (ر) سلیمان‘ عبدالستار ملک اور عمار ادریس اس کے ارکان تھے۔ اس ٹیم نے جن سکینڈلز کی تحقیقات کیں ان میں مونال ریسٹورنٹ‘ لا مونٹانا ریسٹوران‘ ڈپلومیٹک انکلیو میں الاٹ منٹوں‘ لیک ویو پارک‘ گن کلب اور آرٹس اینڈ کرافٹس ولیج کی الاٹمنٹیں ہیں۔ کمیٹی نے پچاس ارب سے زیادہ کرپشن کو بے نقاب کیا اور ان سکینڈلز میں سی ڈی افسروں اور ان میں ملوث سیاسی شخصیات پر سے پردہ اٹھایا۔ کمیٹی نے چار مارچ 2014ء کو اپنی رپورٹ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی‘ اس سفارش کے ساتھ کہ لوٹی گئی بھاری رقوم ان لوگوں سے واپس وصول کی جائیں۔ ایک اور کمیٹی ارشد محمود مرزا‘ جمال یوسف‘ راجہ سیف الرحمن اور سیف اللہ شاہ پر جو مشتمل تھی اس نے سو ارب کے سکینڈلز کی تحقیقات کیں۔ اس کمیٹی نے نو اوبجیکشن سرٹیفکیٹ کا سراغ لگایا جو حکومتی افسران نے جاری کئے تھے اور اس کے علاوہ D-12 سیکٹر میں اعلیٰ شخصیات کو پلاٹوں کی خلاف قانون الاٹمنٹ کی بھی چھان بین کی۔ اس کے علاوہ اس نے E-11 کورس ماڈل گائوں اور اعلی شخصیات کو فارم ہائوسز الاٹ کرنے کی تحقیقات کا کام بھی سرانجام دیا۔ ایک اور کمیٹی جو حسیب اختر کی سربراہی میں قائم کی گئی اس نے سیٹزنز کلب کا کھانا‘ مال‘ پٹرول پمپوں کی الاٹمنٹ اور لائسنز اور پارک لین اسٹیٹ کی چھان بین کر کے اربوں روپے کی کرپشن کا سراغ لگایا۔
ان تمام معاملات بارے حکومت کا موقف حاصل کرنے کی کوشش میں وفاقی انفارمیشن اور براڈکاسٹنگ سیکرٹری صبا محسن اور وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ایک اور اطلاع کے مطابق قبضہ گروپ نے ورکرز ویلفیئر بورڈ کی اربوں روپے کی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ دستیاب دستاویزات کے مطابق پاکستان نیوی میں ڈبلیو ڈبلیو بی لینڈ پر اپنے ملازمین کے لیے ایک ہائوسنگ سوسائٹی بنا رکھی ہے جبکہ قبضہ مافیا نے اس کے 375 پلاٹوں پر قبضہ جما لیا ہے جو تیرہ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود واگزار نہیں کرائے جا سکے جبکہ ڈبلیو ڈبلیو بی کے سیکرٹری بھی اس کرپشن سکینڈل میں ملوث پائے گئے ہیں اسی طرح سندھ ورکرز ویلفئر بورڈ اور خیبرپختونخوا ورکرز بورڈ کی بھی یہی صورتحال ہے جبکہ پنجاب ورکرز ویلفیئر سکول کے طلبہ کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کی مد میں ساٹھ ملین روپے پرنسپل غترلود کر چکے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ اس محکمے کے افسر بائیس ارب روپے ڈکار چکے ہیں یعنی ؎
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
آج کا قطع
ایک اُلجھن میں پڑے رہتے ہیں دن رات، ظفرؔ
اور، اِس کام سے رُخصت بھی نہیں چاہتے ہم