1960ء کے عشرے کے آغاز میں پاکستان میں بہت سے لوگوں کا کاروبار چمکا۔ نیا ملک بنا تھا ترقی کے راستے کھل رہے تھے جو کوئی بھی کاروبار میں ہاتھ ڈالتا۔ اکثر صورتوں میں کامیاب رہتا۔ تاہم بعد میں کامیاب کاروبار کو سنبھالنا بھی ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ کاروبار میں کامیاب ہونے والے لوگ جو اس جلدی میں ہوتے ہیں کہ اب بس دنیا بھر کی دولت کما کر گھر لے آئیں ان کی نفسیات جواریوں کی سی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کے ایک کاروباری شخص کا واقعہ میرا آنکھوں دیکھا ہے۔ سمجھ لیں کہ اس شخص کا نام عبدالجبار تھا۔ یہ صاحب میرے ہمسائے میں رہتے تھے اور میں 1962ء میں کالج میں پڑھتا تھا جب جبار صاحب نے جن کو کہ خراد کا کام آتا تھا برانڈرتھ روڈ سے متصل واقع گرام گلیوں میں خراد مشینیں لگائیں اور جلد ہی وہ موٹر سائیکل پر آنے جانے لگے۔ چند سال بعد وہ میرے ہمسائے سے گلبرگ میں اپنے نئے گھر میں منتقل ہو گئے۔ ان کا ایک بیٹا میٹرک میں بار بار فیل ہوتا تھا۔ مجھے انہوں نے اپنے بیٹے کو ٹیوشن پڑھانے پر رکھ لیا۔ ان کی امارت کا یہ عالم تھا کہ ساٹھ کے عشرے میں وہ مجھے گھر سے لینے اپنی گاڑی بھیجتے تھے اور پھر واپس بھی اپنی ہی کسی گاڑی میں بھجواتے تھے۔
جبار صاحب کا خرادوں کا کام تو بس برائے نا رہ گیا تھا انہوں نے کم از کم کوئی درجن بھر دیگر کاروباروں میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی تین مہینے میں ان کے ہاں ٹیوشن پڑھانے جاتا رہا اور وہاں یہی نقشہ دیکھتا کہ کبھی کوئی کاروبار زیر بحث ہے۔ کبھی ایک کاروبار کو فروخت کر کے سرمایہ دوسرے کاروبار میں لگایا جا رہا ہے۔ بنکوں کے لوگوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
آپ یقین کریں مجھے ایسا تاثر ملتا تھا کہ جبار صاحب کاروبار نہیں کر رہے بلکہ جواریوں کی طرح دائو پر دائو لگا رہے ہیں۔ یہ تاثر میرا تھا جب میرا وہاں آنا جانا ختم ہو گیا کیونکہ ان کے بیٹے کے امتحان شروع شروع ہو گئے تھے۔
اس کے کوئی تین سال بعد انارکل میں میری ملاقات جبار صاحب کے بیٹے سے ہوئی۔ اس نے مجھے سلام کر کے یاد دلایا کہ میں اس کو ٹیوشن پڑھاتا رہا ہوں۔ میں نے پہچان کر ان کے والد کے بارے میں دریافت کیا تو وہ لڑکا رنجیدہ ہو گیا۔ بولا کہ اباّ کے پاس تو اب کچھ بھی نہیں رہا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ محض تین برسوں میں سب کچھ کیسے لٹ گیا۔ معلوم ہوا کہ موصوف کے کاروبار میں جو جواریوں کا سا انداز تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ جوا کھیلنے کے عادی تھی۔
جواریوں کی نفسیات ہوتی ہے کہ جب وہ ہارنے لگتے ہیں تو پھر ہارے ہوئے مال کو جیتنے کے لیے اور بھی بڑے بڑے دائو لگاتے ہیں۔ لیکن جوا کسی کا ہوا ہے؟ آخر میں سب کچھ لٹ جاتا ہے۔ تاہم جس جواری کی قسمت اچھی ہو اس کو بروقت عقل آ جاتی ہے اور وہ ہارے ہوئے مال پر صبر کر کے جو کچھ پاس ہوتا ہے اس کو سمیٹ کر مزید جوئے سے تائب ہو جاتا ہے۔
یہ تمام باتیں مجھے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سیاست کو دیکھ کر یاد آئی ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد انتہائی محنت سے سیاست میں جو مقام عمران خان نے کمایا تھا اس کو وہ آج کل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جوئے کے دائو لگا لگا کر ختم کر رہے ہیں۔ موصوف کی نفسیات بالکل اس شخص کی سی ہو چکی ہے جو ہاری ہوئی بازی کو ہر قیمت پر پلٹنے کے لیے اپنی تمام بچی ہوئی پونجی دائو پر لگائے جا رہا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جن کھلاڑیوں کے ساتھ عمران خان سیاسی جوا کھیل رہا ہے وہ اس میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں جو قسمت پر بھروسہ کرنے سے زیادہ پتے لگانے اور شارپنگ (Sharping) کرنے پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے باوجود اگر ہارنے لگیں تو اپنی پونجی بجا کر نکل جاتے ہیں۔ بعدازاں کسی دوسرے موقع پر قسمت آزمائی کر کے پھر میدان میں آنکلتے ہیں۔ میرا ایسا کوئی منصب تو نہیں کہ میں عمران خان کو نصیحت کروں لیکن جن لوگوں کو یہ منصب نصیب ہے وہ کر کے دیکھ لیں۔ نتیجہ صفر ہی نکلے گا وجہ اس کی یہ ہے کہ جس راستے پر اس وقت خان صاحب رواں دواں ہیں اس راستے پر چلنے والے شخص کو روز روشن کی طرح عیاں حقائق تک دکھائی نہیں دیتے اور دل میں ایک ہی دھن ہوتی ہے کہ بس یہ دائو لگ گیا تو بیڑا پار ہے۔ وہ دائو کبھی نہیں لگتا۔
اب دیکھیں پاکستان میں کون نہیں جانتا کہ موجودہ حکومت جو وعدے کر کے آئی تھی اور قوم کو جو منشور دیا تھا وہ سب بھول چکی ہے اور ایسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے کہ کچھ بڑے بڑے منصوبے مکمل کر کے عوام کو تاثر دیا جائے کہ آئندہ بھی حکمرانی کرنے کا حق رکھتی ہے۔ اس حکومت کا پول بیانات سے نہیں کھولا جا سکتا۔ اگر کھولا جا سکتا تو عمران خان نے کنٹینر پر چڑھ کر خوشبودار سے لے کر بدبودار تک جو بیانات داغے تھے وہ کافی ہوتے۔لیکن ہوا یہ کہ خان صاحب نے دھرنے کی شکل میں جو سیاسی جوا کھیلا تھا وہ دائو الٹا پڑ گیا اور وہ پڑنا ہی تھا۔ جوا کس کا ہوا ہے۔
موجودہ حکومت کا پول کھولنے کا واحد قابل عمل طریقہ یہی تھا کہ خیبر پختونخوا میں خان صاحب ایسا انقلاب بپا کر دیتے کہ مسلم لیگ ن کی وفاق‘ بلوچستان اور پنجاب میں جبکہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں چیخیں نکل جاتیں۔ بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ خاں صاحب اب بھی کے پی میں اصلاحات لا کر اپنے آپ کو سیاسی میدان میں مستحکم کر سکتے ہیں ان کی بات مانی نہیں جا سکتی۔ بہت کم وقت رہ گیا ہے۔
ادھر عمران خان صاحب نے احتجاج کے نام پر پھر سیاسی جوا کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ جوئے کی بساط پر بیٹھے پرانے کھلاڑی ازحد خوش ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ اگلے انتخابات سے پہلے پہلے عمران خان اپنا تمام سیاسی اثاثہ لٹا کر ہی دم لیں گے۔ غالباً وہی انجام ہو گا جو میرے ہمسائے عبدالجبار کا ہوا تھا۔
میں تو جبار صاحب کے بیٹے سے ان کی بربادی کی داستان سننے کے بعد ان سے ملنے کی کوئی طلب نہیں رکھتا تھا لیکن چونکہ شہر تو ایک ہی ہے۔ کوئی دس برس پہلے میں کراچی سے اپنے آئے ایک مہمان کو لے کر علی ہجویریؒ کے مزار پر گیا تو وہاں ایک پیر نما بزرگ نے میرا راستہ روک لیا۔ غور کرنے پر میں نے پہچان لیا جبار صاحب تھے۔ بیٹا بیٹا کر مجھے گلے لگا لیا۔ خود ہی زمانے کی بے ثباتی کا ذکر کرتے رہے۔ جب رکے تو میں نے دریافت کیا کہ آج کل کیا شغل ہے۔ بولے ہماری اپنی ایک خاندانی درگاہ ہے۔ اس کے بعد مجھے اس کا پتہ سمجھایا۔ کہنے لگے بیوی‘ بچے تو یہیں لاہور میں ہوتے ہیں مگر میں اپنے بزرگوں کی درگاہ پر ہی ہوتا ہوں۔ ان کا عرس قریب آ رہا ہے۔ قوالوں کا انتظام کرنے آیا ہوں۔
جبار صاحب کا یہ انجام میں عمران خان صاحب پر تو منطبق نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ان کی کوئی خاندانی درگاہ نہیں ہے اور پھر ویسے بھی ابھی 2018ء کے انتخابات ہونے ہیں جب سب سیاسی جماعتیں اپنا اپنا دائو لگائیں گی کیا خبر قدرت کس پر مہربان ہو گی۔ عمران خاں کو بھی امید رکھنی چاہیے کیونکہ اب ان کی مدد صرف قدرت کی مہربان ہی سے ہو سکتی ہے۔ اپنے سیاسی اثاثے کا تو وہ برا حال کر چکے ہیں۔ لیکن ان کے دشمنوں کی توپوں میں اگر کیڑے پڑ گئے تو ممکن ہے ان کی قسمت سنور جائے وگر نہ احتجاج کر کے اس وقت وہ جو جوا کھیل رہے ہیں وہ تو بچی کھچی پونجی بھی لٹا سکتا ہے۔ جو اکسی کا نہ ہوا۔