تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     25-08-2016

کشمیر میں آئین کیا کرے گا؟

کشمیر میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے کہرام مچا ہوا ہے۔ درجنوں کشمیری زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں‘ ہزاروں زخمی ہیں اور سینکڑوں نوجوان اندھے کر دیے گئے ہیں۔ کچھ فوجیوں اور پولیس والوں نے بھی اپنی جان سے ہاتھ دھوئے ہیں لیکن سرکار کی نیند اب کھلی ہے۔ سبھی پارٹیوں کی جو بیٹھک وزیر اعظم مودی نے بلائی تھی‘ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ صفر! اس کا مطلب کیا ہوا؟ کیا یہ نہیں کہ بھارتی لیڈروں کے پاس کشمیر میں جاری تشویشناک صورتحال کا کوئی حل نہیں۔ لیکن اب جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی سربراہی میں کشمیری لیڈر وزیر اعظم سے ملے ہیں۔ ان سے ملنے کے بعد نریندر مودی نے کہا کہ وہ آئین کے اصول میں رہ کر مسئلہ کشمیر کا دائمی حل نکالیں گے۔ انہوں نے کشمیر کے لوگوں کو 'ہمارے لوگ‘ کہا اور وہاں ہونے والی اموات پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہ انہوں نے بہت اچھا کیا۔ اگر وہ آج سے ایک سوا ماہ پہلے کشمیر چلے جاتے تو کشمیریوں کے زخموں پر مرہم ضرور لگتا۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کچھ ٹھوس کام کیا ہے۔ چار دن پہلے میں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ لیڈروں کے علاوہ کچھ ملا‘ مولویوں‘ سادھوئوں‘ فقیروں‘ پادریوں اور دانشوروں کو وادی میں بھیجا جائے۔ خفیہ بات چیت کے لیے کچھ عقلمندوں کو بھی متعین کیا جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں‘ جن سے کشمیری کھل کر بات کریں گے۔ اپنے دل کی بات کہیں گے اور انہیں جو بات یہ لوگ کہیں گے‘ اس پر کشمیری لوگ ضرور دھیان دیں گے۔ اس مشورے پر وزارت داخلہ نے کام شروع کر دیا ہے۔
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ آپ کشمیریوں سے بات کیا کریں گے؟ آئین کا دائرہ‘ اگر کارگر ہوتا تو اٹل جی کو 'انسانیت کے دائرے‘ کی بات کیوں کرنا پڑتی؟ مودی نے جونہی 'آئین کے دائرے‘ کی بات کی، کشمیری لیڈروں نے انہیں کوڑے دان کے حوالے کر دیا۔ آئین اپنی جگہ ہے۔ اسے آپ سنبھال کر رکھیں۔ اسے ہر بات میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا آپ اپنے بچوں سے بات کرتے وقت قانون یا آئین کی دُہائی دیتے ہیں؟ لوگوں سے بات کرنے میں ہم کس کس آئین کو کب کب ڈھوتے رہیں گے؟ یہ فیملی ہمارے آئین سے پہلے بھی تھی اور اس کے بعد بھی رہے گی۔ بھارت سرکار کے کچھ وزرا حضرات اپنی زبان پر تھوڑا قابو رکھیں‘ یہ بھی ضروری ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے غصے کو میڈ ان پاک کہنا بھی مناسب نہیں ہے۔ پاکستان کے لیڈروں کی مجبوری ہے کہ وہ بھڑکائو بیان دیں لیکن ہم ان کی نقل کیوں کریں؟ 
گپتا نے دکھایا سقراط جیسا تیور
بھارت سرکار کے وزارت کوئلہ کے ریٹائرڈسیکرٹری ایچ سی گپتا نے عدالت میں جو بات کہی‘ وہ غضب کی ہے۔ میری یادداشت میں نہیں ہے کہ ایسی ہمت والی بات آج تک کسی نوکر شاہ نے کہی ہو۔ گپتا سے پہلے بھی کئی نوکر شاہ بدعنوانی کے الزام میں گرفتار ہوئے‘ ان کی ضمانتیں ہوئیں‘ انہیں سزا بھی ہوئی‘ لیکن کسی نے عدالت سے یہ نہیں کہا ہو گا کہ مجھے ضمانت نہیں چاہیے‘ میں ضمانت لے کر مقدمہ نہیں لڑنا چاہتا کیونکہ میرے پاس وکیلوں کو دینے کے لیے بھاری فیس نہیں ہے‘ برسوں تک مقدمہ لڑنے کی بجائے بہتر ہو گا کہ میں جیل میں رہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا: میں اپنی زندگی میں مکمل ایمانداری سے کام کرتا رہا ہوں‘ میرا دل صاف ہے‘ کوئلے کی کانیں بانٹتے وقت سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کے ناتے میں نے پوری ایمانداری سے کام کیا‘ پھر بھی عدالت مجھے سزا دینا چاہتی ہے تو دے۔
میں نے جب یہ خبر پڑھی تو دنگ رہ گیا۔ من موہن سرکار کے زمانے میں اربوں کے کوئلے گھوٹالے میں کس کس کے نام اجاگر نہیں ہوئے‘ لیکن گپتا کی ہمت کی داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ یہ تصور کرنا بھی ذرا مشکل ہوتا ہے کہ کوئی مچھلی پانی میں رہے اور اس کے منہ میں پانی نہ جائے؟ گپتا نے عدالت میں جو بیان دیا‘ وہ بیان اتنا تیکھا اور معصوم ہے کہ اسے گپتا نے ایک حربے کے طور پر اچھالا ہو سکتا ہے‘ اس پینترے سے کہیں عدالت متاثر نہ ہو جائے! لیکن آج یہ خبر پڑھ کر دل خوش ہوا کہ ہمارے آئی ایس کے کئی افسر گپتا کی حمایت میں ایک مجموعی درخواست عدالت میں لگانا چاہتے ہیں۔ اس سے بھی بہتر یہ خبر ہے کہ بھاجپا کے ایک لیڈر نے گپتا سے رابطہ کیا ہے۔ بھاجپا نے ہی تین برس پہلے یہ مقدمہ ڈالا تھا۔ اب بھاجپا گپتا کی مدد ہر طرح سے کرنے کو تیار ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو اس سے گپتا جی کو ہی نہیں‘ ہر اس افسرکو طاقت ملے گی‘ جو ایماندار ہے اور جس کے لیے ملکی مفاد سے بڑا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس اقدام سے بھاجپا کی ساکھ بڑھے گی۔ لوگ بھی مانیں گے کہ بھاجپا میں بڑی پختگی ہے‘ وہ بدلے کے جذبات میں بہہ کر اندھی نہیں ہو جاتی۔ آج میں نے جب انٹرنیٹ پر عدالت کو بھیجا ہوا ایچ سی گپتا کا خط پڑھا تو مجھے یونان کی ایک قدیم شخصیت سقراط کی یاد آئی‘ جنہوں نے اپنی عدالت سے کہا تھا کہ میں مرنے سے نہیں ڈرتا‘ آپ زہر دے کر مجھے مارنا چاہیں تو مار دیں لیکن میں جانتا ہوں کہ میں بے گناہ ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ایچ سی گپتا قانون کی پکڑ میں آ جائیں اور سزا بھی پائیں‘ لیکن انہوں نے جو تیور دکھایا ہے‘ وہ سقراط کے تیور جیسا ہے۔
بھاجپا کے لیڈر: اقتدار کی قبض
بھاجپائی لیڈروں کو کیا ہوا ہے؟ کہیں انہیں اقتدار کی قبض تو نہیں ہو گئی؟ لیکن کرسی میں بیٹھے بیٹھے ہمارے کچھ لیڈروں کو قبض نہیں قبضہ ہو گیا ہے۔ پہلے نریندر مودی نے کہا کہ کانگریس سرکار میں بھاجپا کے لیڈروں نے اتنا ظلم دیکھا ہے جتنا انگریزوں کی سرکار میں کانگریس نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان کے بعد اب ارون جیٹلی نے نرسمہا رائو کی پہل قدمی کا مذاق اڑایا اور کہہ دیا کہ ان کا اکنامک لبرلائزیشن محض مجبوری تھی۔ دونوں بھاجپائیوں کے یہ بیان بھاجپا جیسی شاندار اور مہذب پارٹی کو مذاق کا مضمون بناتے ہیں۔ مودی کے بیان سے یہ پتا چلتا ہے کہ یا تو انہیں بھارت کی آزادی کی تاریخ کی موٹی موٹی باتوں کا بھی پتا نہیں‘ یا وہ بھاجپا کی تاریخ سے ٹھیک طرح سے واقف نہیں ہیں۔ شیام پرساد مکھرجی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک اور نہرو سے نرسمہا رائو تک نے جو عزت دی ہے‘ کیا اس کی جانکاری مودی اور جیٹلی کو ہے؟ ایمرجنسی کے دوران صرف بھاجپا ہی نہیں‘ لگ بھگ سبھی پارٹیوں کے لیڈر پکڑے گئے تھے‘ لیکن اٹل جی اور مرارجی کی سہولیات کا کتنا دھیان رکھا جاتا تھا‘ اس کا مجھے ذاتی علم ہے۔ میرے والد صاحب بھی اندور جیل میں تھے۔ ان کے ساتھ کئی دیگر جن سنگھی بھی تھے۔ کسی نے بھی انگریزوں جیسے ظلم کا ذکر تک نہیں کیا۔ میں تقریباً ساٹھ برس پہلے پہلی بار جیل گیا تھا‘ اور اس کے بعد کئی بار جیل میں گیا ہوں‘ لیکن میں نے ساورکر جی کی طرح کبھی کولہو نہیں چلایا‘ اور انگریزوں کے قیدیوں کی طرح جیل میں کبھی چکی نہیں پیسی۔ پتا نہیں ‘مودی اور جیٹلی نے کون سے ظلم برداشت کیے ہیں؟
یہ بات افسوسناک ہے کہ نرسمہا رائو کو آج کی کانگریس پارٹی بھلانے کی کوشش کرتی ہے‘ لیکن بھاجپا نرسمہا رائو کی شیدائی رہی ہے۔ رائو صاحب نے نہرو کی اقتصادی پالیسیوں کی باریکی سے کانٹ چھانٹ کی اور خارجہ پالیسی کی نئی راہیں کھولیں‘ جن کی بھرپور تعریف خود اٹل جی کیا کرتے تھے۔ جیٹلی اب کچھ عجیب بول رہے ہیں۔ اس کانگریس کی تُلنا گاندھی‘ سشما‘ پٹیل اور نہرو کی کانگریس سے کیسے کی جا سکتی ہے؟ آزادی کے بعد بھی جس کانگریس نے بھارت پر حکومت کی‘ اس کی تُلنا انگریزوں کی حکومت سے کرنا تاریخ کے بارے میں اپنی جہالت کو پھیلانا ہے۔ ملک کو فخر کرنا چاہیے کہ بھارت میں جمہوریت زندہ ہی نہیں ہے بلکہ دندنا رہی ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک کی طرح بھارت میں نہ آئین بدلا گیا‘ اور نہ ہی کسی فوجی تختہ پلٹ کی نوبت آئی۔ کیا اس کا کریڈٹ ہم کانگریس کو نہیں دیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved