تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     25-08-2016

احترام انسانیت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہزاروں طرح کی مخلوقات کو پیدا کیا لیکن اپنی ساری مخلوقات میں سے انسان کو بہت بلند مقام عطا کیا۔ سورہ تین کی آیت نمبر 4 کے مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر70 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی ہے اور انہیں خشکی اور تری کے لیے سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضلیت عطا فرمائی۔‘‘ انسانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بلند مقام عطا کیا اور عقل، قوت گویائی، فیصلے کی صلاحیت ، ذہانت، فطانت اور مشاہدے کی قوت سے سرفراز فرمایا۔ ان بہترین صفات کے عطا کرنے کے باوجود انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی بدنصیبی رہی ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے عطا کردہ مقام کے باوجود ایک دوسرے کا صحیح معنوں میں احترام نہیں کیا۔ انسانوں کی کثیر تعداد ایک دوسرے کا استہزاء کرنے، مذاق اُڑانے، غیبت کرنے اور ایک دوسرے سے حسد اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے میں مشغول رہتی ہے۔ غیبت ‘ الزام تراشی اور استہزاء کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ نفرت اور تعصب کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ انسان ایک دوسرے کی گردن کاٹنے پر بھی آمادہ وتیار ہو جاتاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرآن اس حوالے سے بھی انسانوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے اور انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ انسانوں کے مابین احترام اور رواداری کے فروغ کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر جہاں بہت سے احکامات کا نزول فرمایا وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات میں اس حوالے سے بہت ہی خوبصورت انداز میںبھی انتہائی مؤثر نصیحتوں کو بیان فرمایا ہے۔اگر سورہ حجرات میں بیان کردہ نصیحتوں پر عمل کر لیا جائے تو معاشرے سے بغض، کینے، منفی رویوںاور حسدکا خاتمہ ہو سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر مومنوں کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہوجائے تو اس غلط فہمی کا بھی ازالہ ہو سکتاہے اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی جھگڑے پر آمادہ وتیار ہو جائیں تواس کے تدارک کے لیے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں انتہائی قیمتی ارشادات کا نزول فرمایا ہے۔ باہمی احترام اور رواداری کے فروغ کے لیے سورہ حجرات میں بیان کردہ مضامین کا خلاصہ درج ذیل ہے:
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر11 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والوـ! مرد کسی دوسرے مرد کا مذاق نہ اُڑائیں ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اُڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ اور نہ ہی کسی کو برے لقب دو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں۔ ‘‘ آیت مذکورہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے باہمی احترام کے فروغ کے لیے انسانوں کو بہت ہی احسن اندازمیں سمجھا دیا کہ جب انسان کسی کے حسب ونسب، شکل وصورت ، مالی حیثیت، برادری یا قومیت کی وجہ سے اس کا استہزاء کرتا ہے تو وہ اس کی اچھی صفات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ یہی بات عورتوں کے یہاں پر بھی پائی جاتی ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ یاد دہانی کے لیے یہ بات ارشاد فرماتے ہیں کہ ''عین ممکن ہے کہ جس قوم کا تم مذاق اُڑا رہے ہو وہ تم سے بہتر ہو۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ عیب جوئی اور برے القاب سے ایک دوسرے کو پکارنے سے بھی منع فرمایا ہے اور جو لوگ یہ کام کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتے اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے لوگوں کو ظالم قرار دیتے ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر12 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ اے ایمان والو !بہت بدگمانیوں سے بچو، یقینا بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور عیب نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا کوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھِن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ 
عصری معاشروں میں یہ مرض عام ہے کہ لوگ سارا وقت ایک دوسرے کی غیبت کرنے اور ایک دوسرے کے عیب ٹٹولنے میں مصروف رہتے ہیں اور اس سے ذہنی تلذذبھی حاصل کرتے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو غیبت کی قباحت سمجھاتے ہوئے کہا کہ جس طرح کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کو پسند نہیں کرتا اس کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ غیبت کرنا بھی روحانی اعتبار سے اسی درجے کا کام ہے۔ اگر انسانوں کو صحیح معنوں میں اس فعل بد کی قباحت کا اندازہ ہو جائے تو وہ اس سے بچ سکتا ہے۔ انسانوں کے درمیان ایک مسئلہ عالمگیر سطح پرہمیشہ سے موجود رہا ہے کہ بالعموم انسان اپنی قوم، برادری اور پس منظر کو دوسری قوموں کے مقابلے میں بلند ترسمجھتا ہے اور قومی فخر اور عصبیت کے اظہار کے لیے کئی مرتبہ تشدد، وحشت اورقتل وقتال پر بھی آمادہ و تیار ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر13 میں ارشاد فرماتے ہیں اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور عورت سے پید اکیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ دانا اور باخبر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آیت مذکورہ میں اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ حسب ونسب، برادری، قوموں اور قبیلوںکی حیثیت ، شناخت اور پہچان کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی سماجی حیثیت یا برادری اور قبیلے کی وجہ سے ممتاز ہونا چاہتا ہے تو اُس کو یہ بات اپنے ذہن میں بٹھالینی چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظروں میں عزت کا معیار برادری، حسب ونسب، کنبہ، قبیلہ اور خاندانی پس منظر نہیں ہے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظروں میں معزز اور محترم وہی شخص ہے جو اس سے ڈرنے والا ہو۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے متعدد ایسے اشخاص کا ذکر کیا جو صاحب حیثیت تھے لیکن اس حیثیت کی باوجود ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔ فرعون اپنے عہدے، قارون اپنے مال، شداداپنی جاگیر، ہامان اپنے منصب اور ابولہب اپنے کنبے اور قبیلے کے باوجود ناکام اور نامراد ٹھہرے۔ جب کہ ان کے مد مقابل حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ مقام بلند عطا فرمایا کہ حضرت رسول اللہﷺنے سفر معراج میں جنت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جوتوں کی آہٹ کو سنا تھا۔ 
اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کے درمیان بدگمانی پیدا کرنے والے ایک بڑے سبب کا بھی ذکر کیا ہے کہ کئی مرتبہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف کی وجہ فاسق وفاجر اور بدنیت انسانوں کی اُڑائی ہوئی خبریں اور افواہیں ہوتی ہیں۔ ان افواہوں کی زد میں آ کر انسانوں کے درمیان کئی مرتبہ کراہت، نفرت اور تشدد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سورت کی آیت نمبر6 میں ارشاد فرماتے ہیں'' اے مسلمانوں! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔‘‘ کئی مرتبہ معاشروں میں باہمی اختلاف اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ ایمان اور اسلام سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلمانوں کی جماعتیں اور گروہ ایک دوسرے کے دست وگریبان ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کا ازالہ فرمانے کے لیے بھی اس سورت میں بہترین انداز میں تلقین فرما دی۔ اس سورت کی آیت نمبر9 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا کرو پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم سب اس گروہ سے جو زیادتی کرے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی طرف اگر لوٹ آئے ۔ تو پھر عدل کے ساتھ صلح کروا دو ‘ انصاف کرو۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورت کی آیت نمبر10 میں ایک اصولی موقف کو بھی بیان فرمایا کہ ''بے شک سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں پس اپنی بھائیوں میں صلح کروا دیا کرو۔ ‘‘ سورہ حجرات میں مذکور نصیحتوں کا مقصدمسلمان معاشرے میں موجود نفرت، کشیدگی اور تعصبات کا خاتمہ کرکے انہیں ایک دوسرے کے احترام پر آمادہ وتیار کرنا ہے۔اگر ہم صحیح معنوں میں ان تعصبات پر قابو پانا چاہتے ہیں اور اپنی قوم کو صحیح معنوں میں یکجا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن مجید کی آیات مذکورہ کی روشنی میں اپنے پاکستانی اور مسلمان بھائیوں کو تلقین کرنی چاہیے کہ اپنے پس منظر کی بنیاد پر نہ تو فخر کرنا چاہیے ، نہ ہی دوسرے مسلمان کا مذاق اُڑانا چاہیے اور دوسرے مسلمان بھائی کو اپنے حقیقی بھائی کی مانند سمجھنا چاہیے ۔ اگر ہم صحیح معنوں میں سورہ حجرات کی قیمتی نصیحتوں پر عمل پیرا ہونا شروع ہو جائیں تو لسانی، گروہی تعصبات کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور پاکستانی قوم صحیح معنوں میں ایک طاقتور قوم کی حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں باہمی احترام اور روارداری کے فروغ کے لیے صحیح معنوں میں قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved