تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     25-08-2016

گرو نانک جی کا سکھ

بھارت سمیت دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے ہوئے مارشل قوم سے تعلق رکھنے والے سکھ بھائی سے نہ جانے کیوں آج یہ سوال کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ'' تم جو پانچ دریائوں کے رکھوالے تھے1947ء کے بعد سے اب تک دنیا کی تاریخ میں ایک بھی عالمی سطح کا لیڈر پیدا کیوں نہیں کر سکے ؟تم جو ایک وقت میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار مربع میل کے علا قے میں حکومت کرتے رہے ہو بتا سکتے ہو کہ آج دنیا کے کسی بھی کونے میں بابا جی گرو نانک کے متوالوں کی چند انچ زمین پر بھی حکومت کیوں نہیں بن سکی؟۔کبھی سوچا ہے کہ جب ہندوستان تقسیم ہو رہا تھا تو تم لوگ کتنی کثیر تعداد میں تھے لیکن اکالی دل نے تمہیں اور تمہاری آنے والی نسلوں کو ہندو برہمن کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غلام بنا کر کھ دیا وہ ہندو جس کی نظروں میں آپ کے گولڈن ٹمپل(دربار صاحب امرتسر) کی کوئی عز ت ا ور اہمیت نہیں اور تم نے دیکھا کہ1984ء میں تمہاری بہو بیٹیوں اور مائوں بہنوں کے ساتھ دہلی میں انہی ہندوئوں نے جس کی غلامی میں اکالی دل نے سکھ قوم کو سہانے خواب دکھا کر گروی رکھ دیا تھا وہ وہ ظلم کیے کہ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں۔ دہلی کے سکھ گردواروں میں پناہ لینے کیلئے جانے والی سکھ عورتوں کے ساتھ ساتھ گرنتھ صاحب کی بھی بے حرمتی کی جاتی رہی۔سکھوں کی عزت کو ہندو ئوں کے ہاتھوں پامال ہوتے ایک دنیا نے دیکھا جن کی تصاویر ابھی تک میڈیا اور کیمروں میں محفوظ ہیں۔بد قسمتی دیکھئے کہ آج بھی اسی اکالی دل کے بھیس میں ہندو برہمن کے خریدے گئے سکھ درس دیتے نہیں تھکتے کہ ہندو بڑا ہی مہان ہے جو ہرسال15 اگست کا دن اپنی آزادی کے جشن کیلئے منا تا ہے جبکہ ذرا سی بھی غیرت رکھنے والا کسی بھی کونے میں بیٹھا ہوا سکھ اس دن کوDay Of Betrayal کے طور پر منا تا ہے۔ 
کیا آج کا سکھ نوجوان بھول چکا ہے کہ 19ویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں ہندو ازم اور سکھ ازم ایک دوسرے کے مقابل آ چکے تھے جب ہندوئوں نے آریہ سماج تحریک شروع کر دی جس کے ذریعے سکھوں کے خلاف غلیظ ترین پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا جس پر ان کے مقابلے میں سکھوں نے سنگھ سبھا موومنٹ کا آغاز کر دیا جس میں سنگھ سبھا نے اپنی علیحدہ شنا خت کو سب سے پہلے اولیت دیتے ہوئے ایک علیحدہ قوم کی حیثیت سے تسلیم کئے جانے کی بات کی۔ افسوس ہوتا ہے کہ پھر کس طرح سکھوں کے نام نہاد لیڈروں نے1947ء میں کہنا شروع کر دیا کہ سکھ اور ہند وا زم میں کوئی خاص فرق نہیں ہے جس طرح آزادی کے بعد ہندو نے چندی گڑھ اور دربار صاحب کے پنجاب کو تقسیم کیا ہے اسی طرح وہ اب سکھ مذہب کو گروہوں میں تقسیم کرنے کی سازش کئے ہوئے ہیں ۔ کیا اس وقت کسی ایک بھی سکھ سکالر نے سکھوں کے خلاف آریہ سماج کے نام سے شروع کی جانے مہم کا کبھی ذکر نہیں کیا؟کیا اس بہتان طرازی پر ہندو مصنفوں کی لکھی گئی نفرت انگیز کوئی ایک کتاب بھی سکھوں کی نظروں سے نہیں گزری جن میں ان کی تضحیک کے سوا ور کچھ بھی نہیں ملتا؟۔
سکھ نو جوا ن خود سے اور اپنے بڑوں سے سوال کرتے ہیں کہ گولڈن ٹمپل کی تضحیک کیا اندرا گاندھی تک ہی محدود تھی ؟۔ نئی دہلی میں 1984ء کا سکھ قتل عام اور گردواروں کی بے حرمتی بھول جانے والے با با جی گرو نانک کے سچے ماننے والوں کو یاد کرانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ جلیانوالہ با غ میں 1919ء کے قتل عام میں ایک سکھ نوجوان بھی مارا گیا جس کی شادی کو ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا۔ خاوند کے قتل کے چند ماہ بعد اس کی بیوہ نے ایک بچے کو جنم دیا اور باقی ساری عمر شادی نہ کی اور اسی بچے کو پالا پوسا پڑھایا لکھایا حتیٰ کہ وہ ایم اے پاس کر گیا لیکن اس تمام عرصے میں اس کی ماں بچے کو جنرل ڈائر کی تصویر مسلسل دکھاتی رہی دوسری جانب جنرل ڈائر کو برطانوی حکومت نے افریقہ اور ایشیا میں ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے کے عوض لارڈ کا خطاب دے کر ہائوس آف لارڈز کا ممبر بنا دیا۔ایم اے کروانے کے بعد سکھ ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے نام پر برطانیہ بھجوا دیا اور ایک دن وہ سکھ نوجوان جنرل ڈائر کوڈ ٖھونڈتا ہوا ہائوس آف لارڈز کے اندر جا پہنچا اور جنرل ڈائر کو اپنے سامنے پا کر سیدھا اس کی جانب بڑھا اور پوچھا کیا تم ہی جنرل ڈائر ہو اور اس کے ہاں کہنے پر نفرت بھرے لہجے میں کہا یاد ہے 1919 ء میں تم نے جلیانوالہ باغ میں میرے باپ کو قتل کیا تھا جس کی میں آج تمہیں سزا دے رہا ہوں اور پستول کی تمام گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں۔
ایک بار پھر با با جی گرونانک کے ماننے والے سکھ سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے کسی بھی بڑے نے تمہیں کبھی نہیں بتایا کہ1929ء میں لاہور میں مشہور سکھ لیڈر با با کھڑک سنگھ کی قیا دت میںسکھوں کا ایک تاریخی اجتماع ہوا تھا جس میں Times کے مطا بق چار لاکھ سے زائد سکھ شریک ہوئے اتنی بڑی تعداد میں سکھوں کے اتحاد کو دیکھتے ہوئے گاندھی، نہرو اور کانگریس ہل کر رہ گئے جس پر گاندھی اور نہرو با با کھڑک سنگھ کے پاس جا پہنچے اور انہیں ضمانت دی کہ انگریز سے آزادی ملنے کے بعد ہندوستان میں کوئی بھی قانون اور آئین سکھوں کی مرضی کے بغیر نہیں بنایا جائے گابلکہ1931ء میں گاندھی نے دلی میں گوردوارہ سیس گنج میں گرنتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا میں حلف دیتے ہوئے عہد کر تا ہوں کہ آپ سے کبھی بھی دھوکہ نہیں کروں گا آپ جو چاہیں گے وہی ہو گا۔ اس وقت کے انگریز گورنر سے سکھوں کے تعلقات بہت اچھے تھے اور سکھ بار بار گورنر سے رائے مانگتے تھے کہ اس وقت وہ کیا فیصلہ کریں تو گورنر کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ ان حالات میں آپ اپنی یونٹی کو استعمال کرتے ہوئے کانگریس یا مسلم لیگ سے اپنے معاملات طے کریں کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بھی گروپ ان حالات میں آپ کی مدد کھونا نہیں چاہے گا لیکن وہ انگریز گورنر اور پھر وائسرائے سے ہی مل کر درخواست کرتے رہے کہ وہ ہندو اور مسلمانوں کے علا وہ سکھوں کیلئے بھی کچھ کریں۔ 
سکھوں کے پاس اس وقت تین آپشنز تھیں جن میں سے ایک ہندو کے ساتھ مل جائیں اور دوسرا مسلم لیگ سے ہاتھ ملا لیں اور تیسرا وہ پنے لئے علیحدہ سٹیٹ کا مطا لبہ کر دیں لیکن سکھوں نے یہ کہتے ہوئے کانگریس کا ساتھ دینا شروع کر دیا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف ہیں اور کبھی بھی اسے ٹکروں میں تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن ان کے اس وقت کے سکھ لیڈران کی سکھ قوم سے دغا بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا رہا سہا مشرقی پنجاب بھی ہندو برہمن نے امرتسر اور ہریانہ میں تقسیم کر دیا۔آج کے سکھ نوجوان اپنے بوڑھوں سے بجا طور پر شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہندو کو ہندوستان مل گیا اور مسلمانوں کو پاکستان۔۔۔لیکن بتائیں ہمیں کیا ملا؟الٹا جب بھی پاکستان سے جنگ چھیڑی جاتی ہے تو گھر پنجاب کے تباہ ہوتے ہیں، کاروبار پنجاب کے تباہ ہوتے ہیں، کھیت اور فصلیں پنجاب کی تباہ ہو جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر کسی بھی جنگ میں سکھوں کی ہی سول آبادی اور فوجی مارے جاتے ہیں؟۔ اور اب تو صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ جنگ ہو یا امن ہندو ہمیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیںایسے لگتا ہے کہ ہم ان کے محکوم ہیں۔۔۔۔۔ آج کا سکھ بجا طور پر شکوہ کرتا ہے کہ ہمارا جھگڑا اس پاکستان سے کیسے ہو سکتا ہے جن کے رب کے کعبہ میں ہمارے با با جی گرو نانک حاضری دینے کو عبادت کہتے ہیں۔۔۔!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved