تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     25-08-2016

کیا لکھوں؟

ایک سال سے زیادہ عرصہ ہواکہ میں پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے علیحدہ ہو کر‘ اپنے گھر کے ایک کمرے میں بند ہوں اور یہیں سے لکھنے پڑھنے کا شوق پورا کرتا رہتا ہوں۔ مگر گزشتہ تین چار روز سے میں بستر علالت پر بھی تمام صورتحال کے بارے میں پڑھ کے بے چین ہوتا رہتا ہوں۔ سیماب صفت الطاف حسین کسی نہ کسی بہانے ‘کراچی کی سیاست میں طوفان برپا کرتے رہتے ہیں۔ بہت دنوں سے اخباروں کی سرخیاںدھیمی اور ٹھنڈی چل رہی تھیں کہ حسب روایت الطاف بھائی نے اچانک ایسا طوفان کھڑا کیا کہ سب سے پہلے تو حکومت پاکستان کے میڈیا کو جکڑنے والے ادارے اچانک مستعد ہوئے اور ان کی جانب سے ہنگامی انداز میں احکامات جاری کئے گئے کہ جو کچھ الطاف بھائی نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا‘ اس کا ایک بھی لفظ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دکھائی اور سنائی نہیں دینا چاہیے۔ ظاہر ہے مجھے کہاں سے پتہ چلتا کہ جو کچھ کہا اور روکا گیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ تمام ذرائع ابلاغ کو سننے اور پڑھنے کے بعد سخت مایوسی ہوئی۔ کیونکہ الطاف بھائی نے پہلے کیا کچھ نہیں کہا ہو گا‘ جس سے حکومتی ادارے اس قدر مستعد اور ہراساں ہو کر پابندی اظہار پر تل گئے ہیں۔ پابندی کی حد یہ تھی کہ جو کچھ الطاف بھائی نے کہا‘ اس کا ایک لفظ بھی ناظرین اور قارئین تک نہیں پہنچ سکا۔ تفصیلات معلوم کیں‘ تو پتہ چلا کہ الطاف بھائی نے کراچی میں اپنے پرستاروں سے ایک خطاب کیا تھا‘ جس میں انہوں نے اپنے قابل اعتماد پیروکاروں کے سامنے کچھ خیالات کا اظہار کیا ۔ وہ خیالات کیا تھے؟ میں پابندی کی وجہ سے انہیں اپنے کالم میں نہیں دہرا سکتا۔ لیکن جو کچھ منظرعام پر آ چکا ہے‘ اسے دہرانے کی مجھ پر پابندی نہیں۔ مثلاً الطاف بھائی نے اپنی پارٹی کے اندر جو انتظامات کئے ہیں‘ ان کی تفصیل الطاف بھائی کے جانشین فاروق ستار نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں سارے میڈیا کے سامنے بیان کر دی۔ جو کچھ ہوا اور سنا گیا‘ اس پر کوئی سرکاری پابندی نہیں۔ فاروق ستار نے الطاف بھائی کی عدم موجودگی میں جن انتظامات کا اعلان کیا‘ وہ یہ ہیں۔ ''ایم کیو ایم اصل میں فاروق ستار کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔ اس کا اصل نام ایم کیو ایم پاکستان ہے اور اس کا سربراہ میں ہوں۔ الطاف بھائی نے جو کچھ بھی کہا‘ اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ ‘‘انہوں نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ'' متحدہ قومی موومنٹ‘ پاکستان کی جماعت ہے‘ تو اس کا انتظام بھی پاکستان سے چلنا چاہیے۔‘‘ 
یہاں میں تھوڑا سا واقعاتی پس منظر بیان کروں گا۔ فاروق ستارجس شام پریس کانفرنس کرنے کراچی پریس کلب پہنچے تھے‘ انہی کے بقول اس کا موقع نہیں دیا گیا۔ جو کچھ میں نے ٹی وی سکرین پر دیکھا‘ وہ یہ تھا کہ رینجرز کے افسروں اور جوانوں نے ‘ انہیں گھیرے میں لے کر‘ ان کی کار تک پہنچایا اور اس کار کے آگے پیچھے رینجرز کی گاڑیاں لگا دی گئیں اور وہ رات بھر رینجرز کی نگرانی میں رہے۔ اس دوران کیا ہوا؟ کوئی نہیں جانتا۔ اگلے دن اعلان کیا گیا کہ وہ تین بجے میڈیا سے خطاب کریں گے۔ وہ میڈیا سے خطاب کرنے آ گئے لیکن اچانک انہیں کلب کے نزدیک واقع آواری ہوٹل جانا پڑا۔ وہاں صحافیوں کو ان کے تعاقب میں جانے سے سختی کے ساتھ منع کر دیا گیا۔ وہ نامعلوم جگہ پر‘ نامعلوم افراد کے ساتھ‘ نامعلوم تبادلہ خیال کرتے رہے۔ اچانک برآمد ہوئے تو پریس کلب کی طرف چل دیئے۔ اس حوالے سے لندن میں رابطہ کمیٹی کے سینئر رکن نے انکشاف کیا''فاروق ستار کے پریس کانفرنس کے فیصلے کے بارے میں لندن میں موجود قیادت کو پہلے سے علم تھا۔رابطہ کمیٹی پاکستان اور رابطہ کمیٹی لندن کسی مسئلے پر باہمی تبادلہ خیال کرتے ہیں اور جب بھی کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے ‘ تو یقینا اس پر الطاف بھائی کی توثیق لینا ہوتی ہے۔ یہ توثیق پہلے بھی لی جاتی تھی اور لی جاتی رہے گی۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔‘‘ فاروق ستار کے فیصلے کراچی میں کرنے کے بیان پر واسع جلیل نے کہا ''وہ گزشتہ رات حراست میں تھے اور ہو سکتا ہے ان کو بہت ساری باتوں کا علم نہ ہو۔‘‘ انہوں نے کہا ''جماعت کے معاملات جیسے پہلے چلتے تھے‘ ویسے ہی چلتے رہیں گے۔ اگر کل دوبارہ وہ اپنے کارکنوں سے خطاب کرنا چاہیں‘ تو کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی ابہام نہیں اور ایم کیو ایم کا پورا ڈھانچہ موجود ہے۔ کنوینر یہاں بھی موجود ہیں۔ الطاف بھائی بھی یہاں موجود ہیں۔ جہاں الطاف بھائی ہوں گے‘ وہ سیکرٹریٹ کہلائے گا اور جب جب ہمیں ان سے رہنمائی اور توثیق لینا ہو گی‘ تو ہم لیتے رہیں گے۔ ‘‘ عامر لیاقت نے کہا ہے کہ ''حقیقت یہ ہے کہ توثیق بھی الطاف حسین کریں گے۔ فیصلے بھی الطاف حسین کریں گے اور توثیق بھی وہی کریں گے۔ فاروق ستار کچھ بھی نہیں ہیں۔‘‘ عامر لیاقت نے مزید کہا ''واسع جلیل جو کہہ رہے ہیں‘ وہی حقیقت ہے۔ شام میں ایک حقیقت یہ بنتی ہے کہ کمان فاروق ستار نے سنبھال لی ہے اور اس کے بعد چیزیں بدل جاتی ہیں۔ یہ بھی رابطہ کمیٹی ہے اور وہ بھی رابطہ کمیٹی ہے اور میں اس کو سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔‘‘
ہمیشہ کی طرح ایم کیو ایم ایک گورکھ دھندہ ہی رہا ہے۔ عامر لیاقت حسین جب ایک رات کی حراست کے بعد بوکھلائے ہوئے میڈیا کے سامنے آئے‘ تو ان کی بے ربط باتوں کا مفہوم واضح ہو رہا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ اور کیا کہہ رہے ہیں؟ کبھی وہ کہتے تھے کہ ٹی وی شو کر لوں گا۔ کبھی کہتے تھے کہ میں کھانا اچھا پکا لیتا ہوں‘ میں کوئی ریسٹورنٹ کھول لوں گا اور کبھی کہتے تھے‘ میں پاکستان چھوڑ جائوں گا۔ جہاں تک ان کی ذہنی کیفیت کا سوال ہے‘ تو اس میں رینجرز کا کوئی دخل نظر نہیں آتا۔ کیونکہ اسی رینجرز کی تحویل میں فاروق ستار نے بھی رات گزاری تھی اور خواجہ اظہارالحسن نے بھی۔ وہ دونوں ہی مکمل ہوش و حواس میں تھے۔ بلکہ جن چالاکیوں اور رازداریوں کی جتنی ضرورت سیاست میں ہوتی ہے‘ اس سے زیادہ کا مظاہرہ وہ دونوں کر رہے تھے۔ ایم کیو ایم کے تربیت یافتہ کارکن ایک اور ہی طرح کا میٹریل ہوتے ہیں۔ ان پر چاروں طرف سے الزام لگتا ہے کہ وہ ''را‘‘ کے ایجنٹ ہیں۔ حکومت پاکستان اور میڈیا کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ پلو نہیں پکڑاتے۔ حد یہ ہے کہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی جو کھلی مخالفت کرتے ہوئے‘ ایم کیو ایم کو چھوڑ چکے ہیں‘ الطاف حسین سے آج بھی خوف کھاتے ہیں اور ایسا کیوں نہ کریں۔ جو کہانیاں سننے میں آتی ہیں‘ ان کے تحت تو الطاف بھائی کے زیرسایہ جو کارکن بھی رہ لیتا ہے‘ وہ ان کے خوف سے باہر نہیں نکل سکتا۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ جس کارکن کا امتحان لینا ہو‘ اسے الطاف بھائی خود بتاتے ہیں کہ زندہ انسان کا مغز نکال کر کیسے فرائی کیا جاتا ہے؟ اس کے ہاتھ پیر باندھ کر‘ اسے انگاروں پر کیسے بھونا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں تو ایسے قصے سن کر ڈر گیا تھا کہ کئی راتیں سو نہ سکا۔ جس بدنصیب نے زندگی کے کئی شب و روز الطاف بھائی کے زیرسایہ گزارے ہوں‘ اس کے ذہن سے خوف کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ روایت کے مطابق جیسے القاب سے کراچی میں متعین رینجرز کے افسروں کو نوازا جاتا ہے‘ اگر وہ ان کے کانوں تک پہنچ جائیں‘ تو پھر ان کی حب الوطنی کا سوال ثانوی دکھائی دے گا۔ وطن پر قربانی کے لئے تیار یہ سپاہی‘ اپنے اور اپنے وطن کے لئے استعمال کئے گئے خطابات کو ایک بار سن لیں‘ تو ان پر سب سے پہلے کیا واجب ہو گا؟ اس پر میں کوئی رائے زنی نہیں کر سکتا۔ آج دن بھر وزیراعظم‘ وزیرداخلہ اور اعلیٰ فوجی حکام ایک میٹنگ میں تبادلہ خیال کرتے رہے اور ایم کیو ایم کا سوال بھی زیربحث آیا۔ میرا خیال ہے‘ سرکاری کارندوں نے اپنی رپورٹس میں سچ نہیں لکھا ہو گا۔ اگر لکھ دیا ہوتا‘ تو کل صبح کی اخباری سرخیاں مختلف ہوتیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved