تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-08-2016

پِدّی پہلوان

ایک دور تھا‘بغداد میں ہم جس طرف بھی جاتے تھے‘ ہر طرف صدام حسین کی بڑی بڑی تصویریں دکھائی دیتی تھیں۔ یہی صورتحال لیبیا میں تھی۔ ہرسڑک‘ ہر چوراہے اور ہر گلی میںکرنل قذافی کی تصویروں کے بڑے بڑے پوسٹر نظر آتے تھے۔ شاہ ایران کے زمانے میںشاید تصویروں کا رواج نہیں تھا۔ شاہ کا دبدبہ مذکورہ آمروں سے کہیں زیادہ تھا۔ میں نے دورہ ایران کے دوران پاکستانی سفارتخانے کے پریس سیکرٹری سے فرمائش کی کہ ہو سکے تو شاہ ایران کے ساتھ ایک انٹرویو کا انتظام ہی کر دیں۔ وہ پریس اتاشی ایک سینئر صحافی تھے‘ جنہوں نے ایک اچھی ملازمت کر کے‘ اچھے شہر میں رہنے کا انتظام کر لیا تھا۔ تہران واقعی ایک ایسا شہر تھا‘ جس میں انسان ایک عمدہ اور اچھی زندگی گزار سکتا تھا۔ ایرانیوں کی اپنی آزادی‘ ان کا مسئلہ تھا۔ لیکن ہم بیرونیوں کے لئے انہوں نے ایک خوبصورت زندگی بنا رکھی تھی۔ ایرانی تاریخی طور پر بہت خوش ذوق اور صاف ستھرے لوگ تھے۔ اب بھی ملائیت کے لباس میں ان کی خوش ذوقی ظاہر ہوتی ہے۔ خواتین نے ہرچند سرسے پیر تک برقع پہن لیا ہے۔ مگر اس برقعے کے نیچے جینز کا سوٹ ہوتا ہے۔ وہ اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی برقع تہہ کر کے شاپر میں رکھ لیتی ہیں۔ انسان کی فطرت جبر کے ماحول میں ہمیشہ بغاوت کو جنم دیتی ہے۔ جتنے آمر‘ بادشاہ اور حکمران‘ اپنی ذات کوغیرفانی بنانے کے جتن کرتے ہیں‘ آخر کار ان کے نقش ٹوٹے ہوئے درودیوار اور بتوں کے کھنڈرات کی صورت میں ‘نشان عبرت بن کر‘ نفرت بھری نگاہوں اور ٹھوکروں کی غذا بن جاتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے ہزاروں کردار آئے اور چلے گئے۔ انہوں نے اپنے آپ کو لافانی بنانے کی کوشش کی۔ مگر تاریخ نے انہیں نفرت کی نگاہوں اور ٹھوکروں کے سپرد کر کے‘ عبرت کا نشان بننے کے لئے چھوڑ دیا۔ 
ہمارے الطاف بھائی تو بہت ہی چھوٹی اور مختصر سی چیز تھے۔ زندگی کتنے سال کی لائے؟ ان کی 35سال کی خدائی پر بوسیدگی نے قدم جمانا شروع کر دیئے ہیں۔ جس پارٹی پر انہیں ناز تھا‘ وہ وقت کی وسعتوں میں تحلیل ہونے لگی ہے۔ اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لئے انہوں نے صرف دو شہروں کراچی اور حیدر آباد میں بعض مقامات پر اپنی قدآدم تصاویر چسپاں کرائیں۔ لیکن ان دو چوراہوں اور گرائونڈوں کے سوا دوسری کوئی جگہ انہیں اپنی تصاویر اور پوسٹروں کے لئے نہ ملی۔ ان کی بدنصیبی دیکھئے کہ جس پاکستان کا نام لے کر انہوں نے سیاسی اہمیت حاصل کی‘ اسی کی تخریب کے درپے ہو گئے۔ ان کا نعرہ مہاجر تھا۔ ان کا نعرہ یہ تھا کہ ہمارے آبائو اجداد نے پاکستان بنایا تھا۔ انہی کا نام لے کر اپنی سیاست چمکائی۔ مہاجر اور پاکستان کے رشتے کی بنیاد پر عوام کی سیاسی حمایت حاصل کی۔ پاکستان کے چند شہروں میں اپنا ایک جتھہ قائم کر کے‘ سیاست کے نام پر ‘مافیا ٹائپ تنظیم بنائی۔ عوام پر اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لئے تشدد‘ اغوا اور نجی اذیت گاہیں قائم کیں۔جس نے الطاف بھائی کی غلامی قبول کرنے سے انکار کیا‘ اسے بے رحمی سے کچلنے کا راستہ اختیار کیا۔ تاریخ میں بڑے بڑے اذیت پسند افراد آئے ہیں۔ جنہوں نے انسانوں سے لے کر مویشیوں اور جنگلی جانوروں تک جو قابو میں آیا‘ اس کے لئے اذیتوں کے نئے نئے طریقے ایجاد کر کے اپنا نام تاریخ میں لکھوانے کی کوشش کی۔ الطاف بھائی کی ملکی یا عالمی سطح پر کوئی حیثیت نہیں تھی۔ وہ محض ایک مافیا بنانے میں کامیاب ہوئے اور اس کے ذریعے بزدل حکمرانوں کو ڈرا دھمکا کر‘ ایک چھوٹا سا گروہ منظم کیا۔ اپنی دہشت اور دبدبے کے زور پہ جس مخالف کو سبق سکھانا چاہا‘ اسے اغوا کر کے‘ ایسی ایسی اذیت سے گزارا ‘ جس کا تصور کر کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کے بعض مشاغل کا ذکر کر کے‘ میں قارئین کے ذہن میں خوف کے کانٹے گاڑنا نہیں چاہتا۔ قتل کا حکم دینا بھی ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ شاید اب بھی ہو۔ مگر لندن میں انہیں اس کا موقع مشکل ہی سے ملتا ہو گا۔ 
دنیا میں کہیں رہنے کی جگہ انہیں شاید ہی ملے؟ برطانیہ میں وہ ایک غیرملکی پناہ گیر کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر انہیں پولیس سٹیشن بلا کر بے عزت کیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کو اذیتیں دیتے دیتے‘ اب وہ پاکستان ہی کو زخم لگانے پر تل گئے ہیں۔ لیکن پاکستان‘ اللہ کے فضل و کرم سے ان کے وہم و گمان سے بھی وسیع اور طاقتور ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ چیونٹی نے پہاڑ کو لات مار کر گرانے کا ارادہ کیوں باندھ لیا؟ خود پاکستان کا کچھ بگاڑنے میں منہ کی کھانے کے بعد‘ دنیا کی دوسری طاقتوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر گڑگڑا رہے ہیں کہ وہ ان کی مدد کریں۔ ان کی قومی اور سیاسی سطح پر مدد کرنے کے لئے حکومتیں اپنی ضرورتیں سامنے رکھتی ہیں۔ ایک دربدر بھٹکتا ہوا اذیت پسند‘ جس کی اپنے ملک اور محلے میں بھی تصویریں اتار کے پیروں تلے روند دی گئی ہوں‘ اس کی مدد کے لئے کون آ سکتا ہے؟ اور وہ بھی پاکستان جیسی ایٹمی قوت کے خلاف۔ الطاف حسین جیسا چنے کے برابر دماغ اور مچھر جتنی طاقت رکھنے والا پِدی پہلوان‘ بڑی بڑی طاقتوں کو اپنی انگلیوں پر کیسے نچا سکتا ہے؟ البتہ یہ طاقتیں اس کے ساتھ کھیل کر ضرور مزے لے سکتی ہیں۔ جیسے بچے بھڑ کی ٹانگوں میں دھاگہ باندھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 
کتنا مضحکہ خیز منظر ہے کہ جس پاکستان کا نام لے کر‘ پِدی پہلوان نے اپنی شہرت اور اثرورسوخ بنایا تھا‘ اپنے آپ کو اسی کے مقابل کھڑا کرنے کی حماقت کر لی اور وقت نے اسے دھکیل کے کس حالت میں لا پھینکا ہے؟ اس کے للکارنے پرنادان بچے بالے‘ اس کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں‘ تو جواب میں ہزاروں جوانوں کا گرج دار نعرہ گونجتا ہے ''پاکستان زندہ باد۔‘‘ کس پاگل اور نادان میں یہ حوصلہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی جوانوں کے پاکستان زندہ باد کے نعروں کے سامنے ‘ پِدی پہلوان کے حق میں نعرہ لگانے کی جرات کرے؟ اور اس کے حواری تو سات آٹھ دنوں کے اندر‘ پاکستان زندہ باد کے مقابل ایک نعرہ بھی تلاش نہیں کر پائے۔ پِدی پہلوان خاطر جمع رکھیں‘ ان کے بدنصیب حامیوں کو کوئی ایسا نعرہ نہیں مل سکتا‘ جو پاکستان کے ایٹمی نعرے کے مقابل ‘ پِدی پہلوان کے حامیوں کے منہ میں ڈالا جا سکے۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر پاکستان کوٹکر مارنے کا دیوانہ پن کر کے‘ پِدی پہلوان نے اپنے لئے عبرتناک انجام کا انتخاب کر نے کی حماقت کی ہے۔ جن گلیوں اور بازاروں میں پِدی پہلوان نے اپنی بڑی بڑی تصویریں لگوا کر‘ دھاک بٹھانے کی کوشش کی تھی‘ آج انہیں پھاڑ کے پرزہ پرزہ کر کے پھینکا جا چکا ہے۔ اس کے متکبر چہرے کے ٹکڑے ‘ آنے جانے والوں کے جوتوں سے چپک رہے ہیں۔ گاڑیوں کے ٹائروں کی ہوا سے گناہگاروںکی طرح ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ مکا وہیں اٹکا ہوا ہے۔ صرف حرکت دینے والا بازو کٹ گیا ہے۔ ایک دوست نے نائن زیرو کے بارے میں بتایا کہ نائن ناپید ہو چکا ہے‘ صرف زیرو باقی ہے۔ فلاح کا عمل دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہوا‘ آگے بڑھ رہا ہے۔ کراچی سے ہمارا پہلا قدم حیدر آباد پر آتا ہے۔ وہاں بھی پِدی پہلوان کی تصویریں پھاڑ کر دیواروں کو برہنہ کیا جا چکا ہے۔ ابھی خبر آئی ہے کہ نواب شاہ میں بھی‘ پِدی پہلوان کی تصویریں پھاڑ کے پھینکی جا چکی ہیں۔ الطاف حسین نے اپنی بدبخت طاقت کے بل بوتے سے سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے‘ ایم کیو ایم کے بڑے بڑے دفتر قائم کر رکھے تھے۔ سندھ کے نوجوان وزیراعلیٰ نے اب تمام مقبوضہ زمینوں کی نشاندہی کر کے‘ عمارتوں کو مسمار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔الطاف حسین کے ہوش و حواس بے قابو ہوکر‘ 20کروڑ کے پاکستان کو ٹکر مار بیٹھے۔ چہ پدی؟ چہ پدی کا شوربہ؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved