تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     26-08-2016

مظلوم مہاجر

ناشکرا پن‘ موذی مرض اور احسان فراموشی بدترین خصلت ہے۔ احسان فراموشی‘ کردار اور ناشکرا پن‘ مزاج کا حصہ بن جائے تو فرد ہو یا گروہ خوش رہ سکتا ہے نہ کسی کو دیکھ سکتا ہے۔ الطاف حسین اور اس کے وفادار ساتھیوں کا یہی المیہ ہے۔
میں الطاف حسین سے 1987ء میں لاڑکانہ میں ملا‘ کئی گھنٹے پر مشتمل ملاقات کے بعد میں نے اخبار میں جو تاثرات لکھے وہ آج تک تبدیل نہیں ہوئے ''شعلۂ جوالا جو اپنے علاوہ اپنے حلقہ نیابت اور ملک کو جلانے کی بھر پورصلاحیت رکھتا ہے‘ ایک ایسا لیڈر جو قوم کی تقدیر شاید بنا تو نہ پائے بگاڑنے پر بخوبی قادر ہے‘‘۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا قوم آدھی جنگ لیڈر کے درست انتخاب سے جیت لیتی ہے۔ کراچی اور حیدر آباد کے مہاجروں کو اپنے سندھی‘ پنجابی‘ پختون اور بلوچی بھائیوں سمیت تیس سال تک جس اذیّت‘ ذلت اور دکھوں کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ قیادت کے غلط انتخاب اور قیادت کی طرف سے ناشکرے پن‘ احسان فراموشی کے کلچر کو فروغ دینے کا منطقی اور فطری نتیجہ تھا۔ کاش کراچی اور حیدر آباد کے پڑھے لکھے‘ باشعور اور زود حس شہری سوچ سکیں۔ 
قیام پاکستان کی جدوجہد میں مہاجر اکیلے نہ تھے۔ بنگالیوں‘ سندھیوں‘ پنجابیوں اور پختونوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ مہاجر تو صرف انگریز اور ہندو سے نبرد آزما تھے‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عوام کو اپنے وڈیروں‘ چودھریوں‘ خانوں‘ یونینسٹوں اور سرخ پوشوں سے بھی چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کو ہر جگہ کھلے بازوئوں سے خوش آمدید کہا گیا۔ قیمتی متروکہ املاک انہیں الاٹ ہوئیں‘ سرکاری ملازمتوں اور سیاسی و سفارتی عہدوں کے وہ حقدار ٹھہرے اور ان کا رہن سہن‘ کھانا پینا اور اوڑھنا بچھونا مقبول ہوا۔ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل تھا وہاں کسی کی مادری زبان اردو نہ تھی مگر یہ قومی زبان قرار پائی۔ تیرہ سو سال بعد لوگوں نے مواخات مدینہ کا نظارہ کیا اور مہاجروں کو وہ عزت بخشی جو مدینہ منورہ کے علاوہ کہیں کسی تارک وطن کو کبھی نہ ملی۔
پاکستان کی وزارت خزانہ‘ ریلوے‘ مالیاتی اداروں اور دیگر اہم شعبوں پر عرصہ دراز تک اس برادری کا غلبہ رہا اور غیر مہاجروں میں سے کسی نے سینہ کوبی کی نہ بے دخلی کے لیے مہم چلائی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کوٹہ سسٹم نافذ کیا تو اندرون سندھ کے سوا پورے پاکستان میں احتجاج ہوا اور اسے زیادتی سے تعبیر کیا گیا‘ کوٹہ سسٹم کا برقرار رہنا ظلم ہے اور اس کا خاتمہ از بس ضروری‘ لیکن الطاف حسین اور اس کے وفادار ساتھیوں نے بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور پرویز مشرف کے ساتھ ایک نہیں کم و بیش چھ بار شریک اقتدار ہونے کے باوجود کبھی کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ میرٹ کے خلاف کم تعلیم اور کم تجربے کے حامل سندھیوں کی بھرتیوں کے خلاف شور مچانے والی ایم کیو ایم نے بلدیہ عظمیٰ کراچی‘ بلدیہ حیدر آباد‘ مالیاتی اداروں‘ مختلف وزارتوں‘ پی آئی اے اور سٹیل ملز میں ان پڑھ‘ ناتجربہ کار اور جرائم پیشہ افراد تھوک کے حساب سے بھرتی کئے جو تنخواہ ان اداروں سے پاتے‘ کام پارٹی کا کرتے اور دم الطاف حسین کی وفاداری کا بھرتے۔ کراچی پھر بھی مسائل کی آگ میں جلتا رہا۔ گھیرائو جلائو‘ ہنگامہ آرائی‘ ہڑتالیں‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور بوری بند لاشیں۔ یہ کسی احساس محرومی کا نتیجہ نہیں‘ پاکستان کی معیشت کو مفلوج اور اقتصادی شہ رگ دبائے رکھنے کی طے شدہ پالیسی تھی۔ بلاجواز اور یکطرفہ۔
1988ء میں بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو کراچی اور حیدر آباد کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے ایم کیو ایم کو وفاقی اور صوبائی حکومت میں شریک کیا‘ مگر صلے میں پیپلز پارٹی اور پاکستان کو کیا ملا؟ بلدیہ عظمیٰ کراچی اور حیدر آباد بلا شرکت غیرے ایم کیو ایم کے پاس تھی‘ حکومت میں وہ شریک اور ہر طرح کی مراعات حاصل۔ پھر بھی اندرون سندھ اور پنجاب کو لاشوں کا تحفہ ملا۔ یہ سلسلہ نواز شریف کے دور میں رکا نہ بے نظیر بھٹو کی دوبارہ اقتدار میں واپسی پر۔ 1997ء میں میاں نواز شریف نے صرف شریک اقتدار نہ کیا بلکہ ڈاکٹر شعیب سڈل کے بقول ستر پچھتر کروڑ روپیہ بطور زر تلافی یا تاوان بھی دیا۔ سینکڑوں قاتل‘ ڈکیت اور بھتہ خور رہا کیے۔ احساس محرومی ختم ہو پایا نہ شرارتوں اور سازشوں کا سلسلہ رکا۔ پرویز مشرف دور میں تو ان کی پانچوں گھی میں تھیں اور سر کڑاہی میں‘ مگر اس احسان کا بدلہ الطاف حسین نے بھارت جا کر چکایا۔ اجتماع عام میں برصغیر کی تقسیم کو تاریخی غلطی قرار دیا۔ بھارت سرکار سے قیام پاکستان میں اپنے بزرگوں کی شرکت پر معافی مانگی‘ پاکستان کے خلاف وہی زبان استعمال کی جو ان دنوں وتیرہ ہے‘ اور کہا کہ ہم تقسیم کو ختم کرنے کی جدوجہد کریں تو آپ کھلے دل سے ہماری مدد کریں۔ اس وقت بلدیاتی ادارے موجود تھے‘ ایم کیو ایم کا میئر اور مرکز و صوبوں میں بااختیار و ثمر بار وزارتیں اس کی دسترس میں۔ پھر بھی بھائی ناراض تھے‘ پاکستان سے شاکی اور بھارت سے مدد کے خواستگار۔ احسان فراموشی کے سوا کیا کہیے۔ بھتہ خوری اور قتل و غارت گری اس دور میں جاری رہی۔ ٹونی بلیئر کو خط بھی پرویز مشرف کے عہد ستم میں لکھا گیا۔ خط میں قائد تحریک نے آئی ایس آئی کو ختم کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں‘ برطانوی وزیر اعظم کو یہ بھی باور کرایا گیا کہ ''اگر آئی ایس آئی ختم نہ ہوئی تو اسامہ بن لادن اور طالبان جنم لیتے رہیں گے‘‘ 10 ڈائوننگ سٹریٹ سے اس خط کی تصدیق چکی ہے۔
کراچی اور حیدر آباد کے مہاجروں کی حب الوطنی پر شک کیا جا سکتا ہے نہ ان کی پاکستان کے لیے خدمات فراموش کرنا ممکن۔ الطاف مافیا کے ظلم و ستم کا سب سے زیادہ شکار یہی مظلوم ہوئے۔ ایک مہذب‘ شائستہ‘ تعلیم یافتہ اور ذہین کمیونٹی پر لنگڑے‘ ٹنڈے‘ لُچے اور لفنگے مسلط ہو گئے‘ جن کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ تھی نہ جان و مال۔ ان شرفا کو ہر طرف سے طعنے ملتے ہیں کہ ایک فاترالعقل‘ بدکردار اور ذہنی عدم توازن کا شکار شخص ان کا لیڈر ہے‘ کراچی کچرے کا ڈھیر ہے اور پانی کی بنیادی سہولت سے محروم۔ حد یہ ہے کہ یہ بچیوں کی شادیاں بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے۔ سیکٹر کمانڈر اجازت ہی نہیں دیتے۔ سندھ کے وڈیروں کی طرح سیکٹر کمانڈر بھی انہیں مرضی سے جینے کا حق دیتے ہیں نہ مرنے کا موقع۔ سندھی‘ پنجابی اور بلوچی عوام کو کم از کم وڈیرہ تبدیل کرنے کی آزادی ہے‘ انہیں یہ بھی نہیں۔ مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف نے مہاجروں کا ہاتھ نہ تھاما‘ بُرا کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا مظلوم عوام کی خبر نہ لی‘ سخت زیادتی ہوئی۔ مگر کیا یہ پاکستان کے خلاف نعرے لگانے‘ بھارت اور اسرائیل سے مدد مانگنے اور مملکت خداداد کی تباہی و بربادی کی آرزو کرنے کا جواز ہے‘ چھ لاکھ لڑاکا فوج رکھنے والی ایٹمی ریاست کو چند غنڈوں اور ٹارگٹ کلرز کے زور پر تقسیم کرنے کی آرزو پاگل پن کے سوا کیا ہے؟ ویسے تو الطاف اب بھارت کے لیے بوجھ ہے۔ امریکہ میں تازہ خطاب کے بعد فاروق ستار‘ ایم کیو ایم پاکستان کے کسی عہدیدار اور کارکن کا قائد سے وابستگی برقرار رکھنا منافقت اور ملک دشمنی ہے اور کراچی و حیدر آباد کے مظلوم عوام کو بدستور یرغمال بنائے رکھنے کی سازش۔ نائن زیرو اور اطراف سے الطاف حسین کی تصویریں اتارنے اور دفاتر بند کرنے کے بجائے بھارت کے یار اور ''را‘‘ کے وفادار سے مکمل اور حتمی لاتعلقی کی ضرورت ہے‘ تاکہ عوامی سطح پر کوئی ابہام رہے نہ کسی قسم کی غلط فہمی۔ الطاف حسین جیسے غیر متوازن شخص کا قیادت پر فائز ہونا مہاجروں کے احساس محرمی کا نتیجہ نہیں‘ باعث شرمندگی اور پاکستان کی صورت میں حاصل نعمت کی ناشکری ہے۔ پاکستان کے طفیل صرف مہاجروں نہیں‘ تمام سندھیوں‘ پنجابیوں‘ پختونوں‘ بلوچوں‘ سرائیکیوں کو ملنے والی آزادی‘ تحفظ‘ شناخت‘ مراعات اور عزت عظمت سے روگردانی کی سزا بھی۔ کوئی احسان فراموش ہی چند ٹکوں کے عوض اپنی ماں کو گالی دے سکتا ہے۔ الطاف حسین کو اہل کراچی نے عزت دی‘ اپنی نمائندگی سے نوازا‘ دل کھول کر چندہ اور پیٹ کاٹ کر بھتہ دیا۔ جواباً انہیں کیا ملا؟ بے روزگاری‘ بدامنی‘ ذہنی اذیت‘ روحانی صدمے اور پاکستان سے بے وفائی کا طعنہ۔ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ جہاں کل تک کوئی شخص الطاف کا نام احترام سے نہ لے کر اپنا سر دھڑ پر سلامت نہیں دیکھ پاتا تھا‘ وہاں احسان فراموش کی تصویریں سڑک پر پڑی ہیں۔ کچرا دان تصویروں کے علاوہ بھائی کا بھی منتظر ہے۔ ع
از مکافات عمل غافل مشو
نائن زیرو اب مسجد ضرار کی طرح مسمار ہونا چاہیے۔ نفاق اور سازش کی کوئی علامت باقی نہ رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved