تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-08-2016

سرخیاں ‘متن اور اشتہار

مٹی پائو پالیسی نہیں چلے گی‘ کرپٹ افراد
کے گلے میں طوق ڈالنا ہو گا:شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مٹی پائو پالیسی نہیں چلے گی‘ کرپٹ افراد کے گلے میں طوق ڈالنا ہو گا‘‘ اور‘ شُکر ہے کہ ہم کرپٹ نہیں ہیں اور بھائی صاحب تو بالکل بھی نہیں ہیں ورنہ بڑی مُشکل پیش آ سکتی تھی کیونکہ ہمارے گلے کے سائز کا طوق تو ابھی بنا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اورنج ٹرین میرا نہیں‘ عام آدمی کا بے بی پراجیکٹ ہے‘‘ اس لیے عدالت کی طرف سے اس کی بندش کے بعد اب تک اس پر جو اربوں روپے خرچ آ چکے ہیں وہ بھی عام آدمی سے ہی وصول کیے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ ہور چُوپو! انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے‘‘ جبکہ سپریم کورٹ ماشاء اللہ ہم پر خوش بھی بہت ہے کیونکہ ہم نے کرپشن کو جو جڑ سے اکھاڑ رکھا ہے اس کی تعریف کرتے اس کی زبان ہی نہیں تھکتی یعنی آدمی کو آخر اس کی محنت کا صلہ مل کر ہی رہتا ہے‘ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔ آپ اگلے روز رائیونڈ میں فلائی اوور کا سنگ بنیاد رکھ رہے تھے۔
تونسہ میں دوبارہ منصفانہ الیکشن
کرائے جائیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''تونسہ میں دوبارہ منصفانہ الیکشن کرائے جائیں‘‘ اور‘ اگر ہمارا امیدوار پھر بھی کامیاب نہ ہوا تو یہ منصفانہ الیکشن ایک بار پھر کرائے جائیں‘ حتیٰ کہ جب تک یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا‘ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے کیونکہ خاکسار اپنے مقصد میں کبھی ناکام نہیں ہوا جس کی گواہی وزیر اعظم سے لی جا سکتی ہے جو یہ مقاصد پورے کرتے رہتے ہیں بلکہ ایک بار تو خاکسار کو وزیر اعظم بھی بنایا جا رہا تھا اور امریکہ نے بھی اس پر رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔ لیکن سازشیوں نے سارا کام خراب کر دیا۔ نیز ایک بار صدر زرداری نے اس ہیچمدان کو 50کروڑ کا چُونا لگا دیا تھا جو کہ ایک پرمٹ کے ثمرات تھے لیکن خاکسار کو ادائیگی سے پہلے ہی موصوف نے پارٹی سے وہ پیسے خود منگوا لیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی امیدوار کو جتوانے کے لیے ہر حربہ استعمال ہوا‘‘ حالانکہ ہمارا امیدوار بھی ایک طرح سے حکومتی امیدوار ہی تھا کیونکہ خاکسار سے زیادہ حکومتی اور کون ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج 
قتل عام کر رہی ہے: خواجہ محمد آصف
وزیر دفاع و پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج قتل عام کر رہی ہے‘‘ اور‘ وزیر اعظم نے خاص طور پر مجھے یہ بیان دینے کے لیے کہا ہے البتہ اس کی مذّمت کی ہدایت نہیں دی گئی کیونکہ وزیر اعظم یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کروا لیں گے جیسا کہ وہ ضرب عضب سے پہلے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے لیکن جلد بازی میں آپریشن شروع کر دیا گیا حالانکہ ان معززین کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک ایکشن پلان پر پوری طرح عمل نہیں ہو گا اور بعض معروف مجبوریوں کی بناء پر جس کا قیامت تک کوئی امکان نہیں ہے‘ ضرب عضب کیسے کامیاب ہو سکتا ہے جبکہ وزیر اعظم ویسے بھی صلح کُل آدمی ہیں اور سخت بیانات دے کر بھی حالات کو خراب نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ایسا کرنے سے اُن کے اپنے حالات بہت خراب ہونے کا خطرہ ہے جن کی طرف مولوی طاہر القادری اگلے روز اشارہ کر کے خاصی بداخلاقی کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور محب وطن عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹر پیغام جاری کر رہے تھے۔
حکومت جمہور کی جمہور ہمیشہ
شریف ہوتے ہیں:پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''حکومت جمہور کی اور جمہور ہمیشہ شریف ہوتے ہیں‘‘ اور چھوٹے بڑے شریف اس کی زندہ اور چلتی پھرتی مثال ہیں اور جن کے لیے صبح و شام جھوٹ بول بول کر میری زبان تتلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے اور میں باقاعدہ تھتھا ہو چکا ہوں اور‘ اب تو سچ بولنے کی ہرگز ہی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ زبان کی اگر ایک بار جھوٹ بولنے کی ٹیوننگ ہو جائے تو ذرا سا بھی سچ بولنے سے زبان پر آبلے پڑ جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ ‘ سیاست میں الزامات کا لگنا معمول کی بات ہے‘‘ اسی لیے میں نے الزامات کی کبھی پروا نہیں کی بلکہ جس دن کوئی مثلاً کرپشن کا نیا الزام نہ لگے ہماری طبیعت پریشان اور بے چین ہونے لگتی ہے کیونکہ پاناما لیکس کے بعد کرپشن کے فروعی الزامات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی ہے اس لیے الزام لگانے والے بھی دل پشوری کرتے رہتے ہیں اور ہم بھی‘ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
برائے فروخت
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا اعلان کیا جاتا ہے کہ ایک عدد ضمیر عین چالو حالت میں برائے فروخت موجود ہے‘ حکمران خصوصی توجہ فرمائیں کیونکہ اس کے پاس ہی ایسے ضمیروں کی ایک پوری کھیپ پہلے بھی موجود ہے لیکن یہ جنس جتنی زیادہ ہو‘ اتنی ہی کم ٹھہرتی ہے جبکہ روز بروز خراب ہوتے ہوئے حالات میں حکومت بے ضمیر حضرات کی روز افزوں ضرورت سے کبھی غافل نہیں رہ سکتی۔ اگرچہ حکومت کے پاس متعدد ضمیر گروی کی صورت میں بھی موجود ہیں لیکن اپنی ملکیت اپنی ہی ہوتی ہے کیونکہ گروی شدہ ضمیر تو کسی وقت بھی چھڑایا اورآزاد کروایا جا سکتا ہے جبکہ مُشتہر کالموں‘ تجزیوں اور دیگرتحریروں کے ذریعے حیرت انگیز خدمات سرانجام دے سکتا ہے جبکہ یہ نیک کام وہ پہلے بھی کافی ذوق و شوق سے کرتا رہتا ہے۔ نمونے کے طور پر کچھ تحریریں وزیر اعظم صاحب کی خدمت میں ارسال بھی کی جا رہی ہیں۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ عادی اور پیشہ ور خوشامدیوں‘ چاپلوسوں اور قصیدہ گوئوں سے نجات حاصل کر کے اس شعبے میں نیا خون شامل کر کے اپنی جملہ ضروریات احسن طریقے سے پوری کریں‘ ہیں جی؟
المشتہر: ضمیر خاں ولد دلگیر خاں‘ لوئر مال لاہور
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں‘ ظفرؔ
کہاں سے دُور ہے دُنیا‘ کہاں سے دُور نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved