تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-08-2016

ایک ڈرامے کا اختتام اور مزید ڈراموں کی ابتدا

میں گزشتہ ایک ہفتے سے پھر مسلسل سفر میں ہوں۔ مانچسٹر سے پیرس، پیرس سے برسلز، وہاں سے دوبارہ پیرس، وہاں سے بریشیا (اٹلی) پھر میلان، وہاں سے وینس اور پھر بارسلونا سے ہوتے ہوئے اب اوسلو میں ہوں۔ ہر رات کسی نئے شہر میں گزری ہے۔ اس سارے سفر میں جہاں بھی کسی پاکستانی سے بات ہوئی تو موضوع وہی ایک الطاف حسین کی پاکستان کے بارے ہرزہ سرائی اور بکواس تھی۔
پہلے دن یہ سوال ہوتا رہا کہ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی اے آر وائی وغیرہ پر حملے پر تو کچھ نہ کچھ بول رہی ہے مگر الطاف حسین کی پاکستان کے بارے میں بکواس پر بالکل خاموش ہے بلکہ عین اسی دن وزیر اطلاعات عرف وزیر صفائی کا بیان تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے تحفظات دور کریں گے۔ پاکستانیوں کا سوال تھا کہ وزیر اعظم، پاکستان کو گالیاں دینے والے، مردہ باد کہنے والے اور تخلیق پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے کے بارے میں خاموش ہے، ہمہ وقت عمران خان کے لتے لینے والا پرویز رشید اس موقع پر منہ میں ''گھنگھنیاں‘‘ ڈالے بیٹھا ہے۔ سارا دن عزت داروں کی پگڑیاں اچھالنے والا عابد شیر علی چپ ہے۔ اسمبلی کے فلور پر خواتین کو ٹریکٹر ٹرالی قرار دینے والا خواجہ آصف خاموش ہے اور میاں نواز شریف کی خاطر ہر سیاسی رہنما سے ٹکر لینے والا خواجہ سعد رفیق ''دڑوٹ‘‘ کر بیٹھا ہوا ہے۔ کیا میاں نواز شریف کی عزت ملک کی عزت سے زیادہ اہم ہے؟ کیا میاں نواز شریف کی مخالفت پاکستان کی مخالفت سے زیادہ بڑا جرم ہے؟ اور کیا حکومت کو اپنی بقا ملکی بقا سے زیادہ عزیز ہے؟
حسین کا خیال ہے کہ یہ سارا ڈرامہ دنیا اور پاکستان کے عوام کی توجہ کشمیر ایشو سے ہٹانے کے لیے کھیلا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس ڈرامے کے تین بنیادی کردار ہیں۔۔۔۔ الطاف حسین، نواز شریف اور آصف علی زرداری۔ اول الذکر دونوں کو موخرالذکر کی حمایت اور بھارتی بدنام ایجنسی ''را‘‘ کی عملی مدد حاصل ہے۔ جس دن الطاف حسین کی تقریر کا غلغلہ مچا اسی دن اسلام آباد سے راجہ الطاف کا واٹس ایپ پر پیغام ملا کہ یہ سارا پلاٹ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالا دینے کے لیے بنایا گیا ہے اور معصوم کشمیری بچوں تک کی پیلٹ گن سے نشانہ بنانے جیسے ظالمانہ فعل اور اس کے نتیجے میں بینائی سے محروم ہو جانے والے کشمیریوں سے دنیا بھر کی بڑھتی ہوئی ہمدردی اور بھارت کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بڑھتی ہوئی نفرت جیسے سنجیدہ معاملے کو پس منظر میں لے جانے کی کوشش ہے۔ بھارتی حکومت نے ''را‘‘ کے ذریعے اپنے پرانے ایجنٹ کو اس مشکل مرحلے پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ وہ اس مشکل دور سے کسی نہ کسی طرح نکل سکے۔ تا ہم برادرم باسط کا خیال تھوڑا مختلف ہے۔
باسط کا خیال ہے کہ یہ سارا چکر ''سی پیک‘‘ کے خلاف امریکی اور بھارتی مشترکہ مہم کا حصہ ہے اور کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال بھی اسی سارے بڑے پلاٹ کا حصہ ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کا بظاہر کوئی جواز نہیں بنتا۔ باسط نے مجھے ایک وڈیو کلپ بھی بھیجا ہے جس میں بھارتی فوجی گلی میں کھڑے اردگرد کے ہر مکان کی کھڑکیوں پر اینٹیں مار رہے ہیں، شیشے توڑ رہے ہیں اور دروازوں پر بندوقوں کے بٹ مار رہے ہیں۔ کوئی سمجھدار ایسی حرکت نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ سب کچھ جان بوجھ کر ہو رہا ہے۔ کشمیریوں کو اکسانے کے لیے، مزاحمت کی جانب دھکیلنے کے لیے اور سڑکوں پر لانے کے لیے ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے اندر سارے انسانی حقوق کی نام نہاد دعویدار تنظیمیں یہ شور مچا رہی ہیں کہ کشمیر کو خود مختار ملک بنایا جائے۔ کشمیریوں کو مکمل آزادی دی جائے یعنی نہ وہ پاکستان کے ساتھ ہوں نہ بھارت کے ساتھ بلکہ خود مختار ملک بنایا جائے۔ پاکستان میں بھارتی پے رول پر کام کرنے والے بھی اسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور کشمیر میں پھیلی حالیہ بے چینی اور تحریک مزاحمت کی آڑ میں یہ سب لوگ یعنی بھارتی اور پاکستانی انسانی حقوق کے دعویدار ''خود مختار کشمیر‘‘ کے ایجنڈے پر یکسو ہیں اور اس کے پیچھے اصل چیز ''سی پیک‘‘ کے منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے کہ نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ خود مختار کشمیر میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے اور اس سلسلے میں بھارتی وزیر اعظم مودی اپنی ''شتونگڑی‘‘ چھوڑ چکا ہے اور گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ قرار دینے اور اس پر بھارتی کلیم کی آڑ میں دنیا کو یہ باور کروا چکا ہے کہ مکمل کشمیر کی بات کی جائے جس میں وادی، جموں، لداخ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں اور سی پیک کا روٹ پاکستان میں خواہ کہیں سے بھی گزرے لیکن وہ بہر حال گلگت بلتستان سے گزر کر ہی پاکستان میں آئے گا۔ اگر گلگت بلتستان کو بھی خود مختار کشمیر کا حصہ بنا کر اقوام متحدہ اور عملی طور پر امریکہ کے حوالے کر دیا جائے تو سارا سی پیک منصوبہ ہی ختم ہو جاتا ہے اور حالیہ سارا کھڑاگ اسی لیے کھڑا کیا گیا ہے کہ پاکستان کو اقتصادی خود مختاری سے ہر حال میں روکا جائے۔
کشمیر میں بھارت کی ساری پلاننگ فیل ہو چکی ہے اور اب بھارت کو اس کا منصوبہ الٹا گلے پڑ گیا ہے۔ بھارت نے کشمیر میں بے چینی کو نہ صرف ہوا دی تھی بلکہ حالات کو سدھارنے کے بجائے غیر ضروری تشدد اور غیر انسانی مظالم سے کشمیریوں کو مکمل طور پر برانگیخت کرنے کی جو سعی کی تھی اس کا بنیادی مقصد تھا کہ کشمیریوں کو سڑکوں پر لایا جائے۔ ہنگامہ آرائی کروائی جائے اور کشمیریوں پر ہونے والے ریاستی تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں کے تناظر میں بھارتی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھا کر مطالبہ کیا جائے کہ کشمیر کو خود مختار ملک بنا کر دس بارہ سال کے لیے اقوام متحدہ کی تولیت میں دے دیا جائے اور اقوام متحدہ کی فوج کی صورت میں امریکہ اور مغربی ممالک کی فوج کو کشمیر میں بٹھا کر چین کا راستہ روک دیا جائے اور چین اور پاکستان کے درمیان بننے والے سی پیک روٹ کو عملی طور پر لپیٹ کر رکھ دیا جائے کہ گلگت بلتستان کو خود مختار کشمیر کا حصہ بنا دینے کی صورت میں پاک چین راہداری منصوبہ عملی طور پر ناممکن ہو جاتا ہے۔
کشمیر پر بھارتی منصوبہ جسے ظاہر ہے امریکی آشیر باد حاصل تھی، کشمیریوں کی لیڈر شپ کی سمجھداری کے طفیل مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ کشمیری لیڈر شپ اور عام کشمیری بھی سمجھ گیا کہ بھارت کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کے پیٹ میں جو ان کی ہمدردی کا اچانک درد اٹھا ہے تو اس کے پیچھے بنیے کی کوئی چال ہی ہو سکتی ہے اور انہوں نے اس تحریک کو خود مختار کشمیر کے بجائے الحاق پاکستان کی تحریک بنا دیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کشمیر میں بھارت سے آزادی اور پاکستان میں شمولیت کا نعرہ اتنا توانا ہے کہ شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اب مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے خود مختار کشمیر کے حامی لوگ بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ایسے وقت میں لندن میں بیٹھ کر پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والا الطاف حسین ''را‘‘ کے آخری مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
بھارت نے سی پیک کے خلاف ایک نہیں تین چار تازہ ترین اقدامات کیے تھے۔ پہلا مقبوضہ کشمیر میں خود مختار کشمیر کا شوشہ اور یہ منصوبہ بھی بھارت کے گلے پڑ گیا کہ کشمیری بھارت کے اس جھانسے میںآنے کے بجائے دوسری طرف نکل گئے اور آج وادی خود مختار کشمیر کے بجائے پاکستان سے الحاق کے نعروں سے گونج رہی ہے۔ بھارت کی دوسری حرکت ''را‘‘ کے ذریعے کوئٹہ میں وکیلوں پر ہونے والا خود کش حملہ تھا جس سے یہ امید باندھی گئی تھی کہ اس حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر بلوچستان میں ایک بے چینی کی لہر اٹھے گی جسے ہوا دے کر مکمل بدامنی میں تبدیل کر دیا جائے گا اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ بلوچستان میں ایک بار پھر مسلح مزاحمت، بدامنی اور بے چینی کا آغاز ہو جائے گا۔ کلبھوشن والا نیٹ ورک حرکت میں آئے گا اور گوادر والا سارا منصوبہ ایک بار پھر برباد ہو کر رہ جائے گا۔ سی پیک بننے کے بجائے ''پیک اپ‘‘ ہو جائے گا اور یوں پاکستان کو اس منصوبہ سے ہونے والی اقتصادی خود کفالت سے محروم کر کے عالمی معاشی اداروں کے زیرنگیں رکھ کر حسب سابق کنٹرول کیا جائے گا اور چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی کو روکا جائے گا لیکن یہاں بھی معاملہ الٹا ہو گیا۔
منصوبہ سازوں سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ وہ اس بات کا ادراک کرنے میں ناکام رہے کہ کوئٹہ سے گوادر تک کا درمیانی علاقہ جہاں سے سی پیک روٹ گزرتا ہے سارے کا سارا بلوچوں کا علاقہ ہے اور کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء کی اکثریت غیر بلوچ تھی۔ اسی طرح 
بلوچستان کے بلوچوں کو اکسا کر بدامنی پیدا کرنے کا منصوبہ نہ صرف ناکام ہو گیا بلکہ اس سے قومی یکجہتی کا تصور مزید پختہ ہو گیا۔ بھارتی منصوبہ سازوں کا آخری حربہ الطاف حسین کو استعمال کرنا تھا۔ دنیا بھر میں کہیں نفرت آمیز بیان دیں تو یورپ، امریکہ اور برطانیہ وغیرہ وہ کہرام مچاتے ہیں کہ الامان۔ کوئی شخص کہیں دور بیٹھ کر لوگوں کو تشدد پر اکسائے تو دہشت گردی کا الزام لگا کر اسے اٹھا لیا جاتا ہے۔ کوئی شخص قتل پر اکسائے جیسا کہ سلمان رشدی والے سلسلے میں ہوا تو سارا مغرب فتویٰ دینے والوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا لیکن گزشتہ تین عشروں سے برطانیہ میں بیٹھ کر کراچی میں پرتشدد کارروائیوں پر اکسانے والے، لوگوں کو دھمکانے والے، کارکنوں کو میڈیا پر حملے کا حکم جاری کرنے والے، ایم کیو ایم کے کارکنوں کو فوج اور رینجرز کی قیادت کے خلاف تشدد پر اکسانے والے الطاف حسین کے بارے میں برطانوی حکومت کان لپیٹ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ موصوف نہ صرف یہ کہ 'را‘ کا ایجنٹ ہے بلکہ برطانوی ایجنسی ایم آئی سکس کا بھی کارندہ ہے اور برطانیہ اس کے ذریعے کراچی یعنی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔ وسیع تر عالمی استعماری منصوبے میں کراچی کا کنٹرول برطانیہ کے حصے میں آیا ہوا ہے اور اس سارے معاملے کو امریکی تائید حاصل ہے۔ امریکہ کراچی والے مسئلے پر برطانیہ کا حریف نہیں حلیف ہے۔ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں قتل اور اس سے کہیں زیادہ سنگین جرم یعنی منی لانڈرنگ میں بے شمار ثبوتوں کے ساتھ ملزم ہے مگر برطانیہ نے یہ سارے جرائم مع ثبوت الطاف حسین کو سزا دینے کے لیے نہیں الطاف حسین کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ الطاف حسین کی حالیہ تقریر نے جہاں بہت سے لوگوں کے شکوک و شبہات مکمل طور پر ختم کیے ہیں وہیں اب ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کو اپنی ہر تقریر کے بعد وضاحتی بیانات اور صفائیوں سے نجات دلا دی ہے۔ الحمد للہ کہ ہوش و ہواس سے بیگانہ ہو کر قائد تحریک نے بہت سے لوگوں کو ہوش دلا دی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ سچائی سب کے سامنے آ گئی۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ کسی شخص کو اس حالت میں اس دنیا سے نہیں لے جائے گا کہ اس کی حقیقت مخلوق پر کھل کر سامنے نہ آ جائے۔ لیکن اصل ڈرامے اب شروع ہوں گے، بلکہ شروع ہو چکے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved