غالبؔ ...گیانی چند
آج غالبؔ کی کیا کیا قدر ہے۔ میرے ہم وطن عبدالرحمن بجنوری(دراصل سیوہارہ ‘ ضلع بجنور‘ یوپی) نے محاسنِ کلام غالب میں دیوانِ غالب کو مقدس وید کا ہم پلہ قرار دیا۔ انہیں مغرب کے تمام شاعروں‘ مصوّروں ‘ بُت تراشوں اور موسیقاروں سے آگے بڑھا دیا۔ دیوانِ غالب کے کیسے کیسے شاندار اور مُرقع ایڈیشن نکلے‘ سینکڑوں روپے کا مرقع چُغتائی‘ ابتدائی ''دیوانِ غالبؔ بخطِ غالب‘‘ کا دیدہ ذیب نسخہ عرشی زادہ(رامپور) اور بیاضِ غالب لاہور(رسالہ نقوش)۔ غالب کی ذات اور تخلیقات کے مطالعے کو ایک علیحدہ شعبے غالبیات کا نام دیا گیا۔ ماہرین غالب کی ایک صف کی صف ہے جس میں اردو تحقیق کے چوٹی کے علماء جگمگا رہے ہیں جیسے مولانا غلام رسول مہر‘ شیخ محمد اکرام‘ مُنشی مہیش پرشاد‘ مولانا امتیاز علی خاں عرشی‘ مالک رام‘ قاضی عبدالودود‘ بعد کی نسل میں بھی بہت سے ماہرین دکھائی دیتے ہیں یعنی کالی داس گُپتارضا‘ رشید حسن خاں ‘ نثار احمد فاروقی‘ مختار الدین احمد‘ خلیق انجم‘ ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی وغیرہ ہندوستان میں اور ڈاکٹر وزیر حسن عابدی‘ سید قدرت نقوی اور ڈاکٹر سید معین الرحمن وغیرہ پاکستان میں۔
ہندوستان میں حکومت ہند نے دہلی میں غالب انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔ اس کی کئی منزلہ عمارت ایوان غالب ہے۔ اس کے سامنے کی سڑک کا نام ایوانِ غالب مارگ ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ نے 1973ء میں غالب انعامات کا سلسلہ شروع کیا۔ پہلی کھیپ میں تین شخصوں کلیم الدین احمد‘ ڈاکٹر قاضی عبدالستار اور من کم ترین کو یہ اعزاز ملا جسے ہندوستان کی وزیر اعظم اور غالب انسٹی ٹیوٹ کی صدر اندرا گاندھی نے 1974ء کے اوائل میں دیا۔ اب تو یہ انعام ہر سال متعدد لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کی موجودہ مالیت25ہزار روپیہ ہے۔ کئی سو انعام پانے والوں میں شاید میں واحد شخص ہوں جسے یہ انعام ایک کتاب تفسیر غالب(غالب کے غیر متد اول کلام کی مکمل شرح) پر ملا۔ سب کو یہ ایک غیر متعینہ جنس مجموعی خدمات پر دیا جاتا ہے۔
دہلی میں دوسرا ادارہ ہمدرد ٹرسٹ کی غالب اکیڈمی ہے۔ ملک بھر میں جگہ جگہ غالب کے نام پر عمارتیں‘ انجمنیں اور کتب خانے وغیرہ ہیں۔ پاکستان کے اداروں کا مجھے علم نہیں۔ صرف کراچی کے ادارۂ یادگارِ غالب سے واقف ہوں کہ اس نے 1999ء کے اواخر میں میری کتاب رموزِ غالب کا اضافہ شدہ ایڈیشن شائع کیا۔ اس ادارے سے ایک رسالہ غالب یا غالب نامہ نکلا کرتا تھا۔ معلوم نہیں اب بھی 'حیات‘ ہے یا نہیں؟ غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی سے ششماہی غالب نامہ پابندی سے نکلتا ہے۔ دونوں ملکوں میں بڑے بڑے انٹرنیشنل غالب سیمینار بپا ہوتے ہیں۔ غالبیات پر کتابوں اور رسالوں کے خاص نمبروں کی تعداد دو ہزار سے اوپر ہو گی۔
غالب پرستی اور غالب نوازی کا یہ غلغلہ آج اور اب ہے لیکن غالب کی زندگی میں کیا کیفیت تھی‘ اسے کیا ملا؟ اس کی کشتِ حیات ہمیشہ خشک سالی کا شکار رہی۔ مجھے اردو کے قدیم استاد شعراء کو دیکھ کر صدمہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کبھی اس والیِٔ ملک ‘ کبھی اُس رئیس کے در پر صدا لگاتے رہے۔ ایک قصیدہ یا ایک ستائشی نظم داغ دی ‘ گویا ممدوح پر بڑا احسان کیا‘ اس کے بعد حسن طلب اور اظہار مُدعا کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ رجب علی بیگ سرور جیسے نثر نگار بھی عمر بھر مُربیّوںکی کھوج کرتے رہے۔ ان سب کو کبھی صلہ مل جاتا‘ کبھی محروم رہ جاتے۔ یہ لوگ کوئی اور آبرومندانہ شغل کیوں اختیار نہیں کرتے تھے۔
غالب کی شادی نوابانِ لوہارو کے خاندان میں ہوئی۔ خود بھی رئوسا میں تھے لیکن تھے بگڑے رئیس۔ رہنا چاہتے تھے رئیسانہ شکوہ سے۔ گھر سے پالکی کے بغیر نہ نکلتے تھے‘ اسے اٹھانے کے لیے چار کل وقتی کہار ملازم رکھے ہوئے تھے۔ داروغہ وغیرہ‘ دوسرے شاگرد پیشہ ان پر مستزاد ۔ مستقل آمدنی انگریزی پنشن کے ساڑھے باسٹھ روپے ماہانہ تھی۔ غدر کے بعد جولائی 1859ء سے وفات تک دربارِ رامپور سے سو روپہ ماہانہ وظیفہ ملتا رہا۔ تقریبوں کی یافت اس کے علاوہ۔ جملہ عطایا اور سلوک غالب کی شاہ خرچی کے مساوی نہ تھے۔ نتیجہ ہوا قرض‘ مسلسل قرض جس نے ان کی زندگی تو کیا‘ موت کے بعد بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ مالک رام کے مطابق1835ء میں ان کے خلاف پانچ ہزار روپے کی ڈگری ہوئی۔(مالک رام:ذکرِ غالب‘ طبع پنجم(دہلی1976ء) ص 86‘بحوالہ کالی داس گپتا رضا‘ (کچھ مطالعے اور مشاہدے بمبئی1998ء ‘ص21)
غدر کے بعد انہوں نے نواب رامپور کا دامن تھاما۔ والیٔ رامپور یوسف علی خاں غالب کے شاگرد تھے۔ ان سے غالب کی خوب نبھتی تھی۔ انہوں نے غالب کا سو روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو انہیں تادم مرگ ملتا رہا۔1865ء میں کلب علی خان مسند نشیں ہوئے۔ انہوں نے دسمبر1865ء میں جشنِ شہ نشینی کیا۔ غالب بھی اس میں شرکت کے لیے گئے۔ اپنے شاگرد ہرگوپال تفتہ کو 18نومبر 1866ء کے خط میں لکھتے ہیں:
''میں نثر کی داد اور نظم کا صلہ مانگنے نہیں آیا‘ بھیک مانگنے آیا ہوں... وقتِ رُخصت میری قسمت اور منعم کی ہمت‘‘(عرشی: مکاتیبِ غالب طبع اوّل ‘ رامپور‘1937ء‘ مقدمہ ص 106)
اگلے سال نواب کلب علی خاں نے غالب کو ایک نثر فارسی اصلاح کے لیے بھیجی۔ اس کے سلسلے میں غالب کے کچھ مشاہدات سے نواب اس قدر سیخ پا ہوئے کہ انقطاع تعلقات کی دھمکی دے دی۔ اس کے بعد انہوں نے غالب کو کوئی چیز اصلاح کے لیے نہیں بھیجی۔ نواب کی خفگی سے غالب کے ہوش اڑ گئے۔ غرض دیوانی ہوتی ہے۔ گھبرا کر‘ گڑ گڑا کر معذرت کا ایسا عاجزانہ‘ بلکہ گدایانہ خط لکھا جس کو پڑھ کر دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ قاضی عبدالودود کہتے ہیں: ''مرزا غالب نے جو معذرت کا خط لکھا تھا وہ بھی اس شاعر کے شایان نہیں جس کے قلم سے یہ شعر نکلا ہے ؎
تشنہ لب برسا حلِ دریا زغیرت جاں دہم
گربہ موج اُفتدگمان چین پیشانی مرا
لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ میرز اگر ترکی بہ ترکی جواب دیتے اور رامپور سے وظیفہ بند ہو جاتا تو خود میرزا کو جو تکلیف ہوتی اس سے قطعِ نظر انہیں اپنے گھر والوں کو یہ یقین دلانا مشکل ہو جاتا کہ وہ مخبوط الحواس نہیں ہو گئے‘‘ تبصرۂ مکاتیبِ غالب‘ مرتبہ مولانا عرشی ‘ رسالہ معاصر‘ پٹنہ‘ اپریل1943ء ‘باز طباعت کچھ غالب کے بارے میں حصہ دوم (پٹنہ(1995ء)ص 21)
آج تاریخ ہند میں کلب علی خاں کی حیثیت غالب کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں لیکن بے نوا غالب کو ان کے سامنے نک گِھسنی کر کے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے...
آج کا مطلع
کھلائیں اُس کو اوکاڑے کے امرود
اگر آئے صلاح الدین محمود