تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     28-08-2016

شہر کی کہانی

کیا شہر پر غارت گری ڈھانے والے لب خاموش کرا دیئے گئے؟ کیا خوف کا راج ختم ہو گیا؟ کیا بارود کی بُو تحلیل ہو جائے گی؟ کیا جبر کے موسم بیت گئے؟ کیا وحشت کے سائے رخصت ہو چکے؟کیا گولی کی سیاست ‘ بوری بند لاشوں اور بھتہ خوری کی خوفناک لعنت جو اسّی کی دہائی میں ہماری سیاست کی حصہ بنی، اب قصّہ پارینہ بن جائے گی؟ 
گزشتہ چند دنوں سے جو کچھ دنیا دیکھ رہی ہے وہ سب حقیقت ہے یا ڈرامہ؟کیا کراچی شہر واقعی نحوست اور وحشت کے پنجوں سے آزاد ہو جائے گا؟ کیا اس کے شہری کھل کر سانس لے سکیں گے؟ کیا الطاف حسین کے نام کے ساتھ قائد کی بجائے بانی لکھنے اور فاروق ستار کے نام کے ساتھ قائد ایم کیو ایم لگانے سے اس سیاسی جماعت کے ببتسمہ (Babtism) کی رسم ادا ہو گئی؟ کیا محض لفظوں کا یہ ہیر پھیر کافی ہے، یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ جماعت جس نے تین دہائیوں تک اس شہر پر عذاب مسلط کیے رکھا اس کے نظریات میں اب تبدیلی آ چکی ہے۔ یہ اور بہت سے دوسرے سوالات ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ سوالات کا لامتناہی سلسلہ اور تجزیوں کی برسات ہے۔ 
صورت حال خواہ کتنی ہی پیچدہ کیوں نہ ہو‘ اس ڈرامے کا سکرپٹ رائٹر کتنی ہی ڈرامائی صورت حال پیدا کر لے، سچ کو کتنا ہی ملفوف کیوں نہ کیا جائے‘ ایک بات طے ہے اور یہ طے شدہ حقیقت نوشتہ دیوار کی طرح سب کے سامنے ہے کہ اس شہر پر جبر ڈھانے والوں کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ ظلم کے دن پورے ہو چکے۔ خوف کے بُت بھربھرے ہو گئے اور وہ شخص جس کی آواز کبھی اس شہر پر صور اسرافیل پھونکا کرتی تھی‘ یگانہ کے اس مصرعے کی تصویر بن چکا ع
خدا بنے تھے یگا نہ مگر بنا نہ گیا
زندگی کا نظام فطرت کے اصولوں کے مطابق چلتا ہے اور فطرت کے اصول اٹل ہیں۔ ظالم کی رسی دراز ہے مگر کتاب اللہ کا فیصلہ ہے کہ ظالم کو اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ تین دہائیوں تک یہ شہر ایک قتل گاہ بنا رہا۔ خوف کا بازار گرم رہا ۔ نامعلوم افراد کی گولیوں سے بے گناہ شہری جان سے ہاتھ دھوتے رہے۔ شہر میں دندناتے ان نامعلوم افراد کے پس منظر کو پورا شہر جانتا تھا مگر خوف نے لبوں پر چپ کے تالے ڈال دیے تھے۔ آج وہی شہر ہے جو خوف اور جبر کی تمام نشانیوں کو اس کی دیواروں سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ تصاویر اتار دی گئیں۔ پلوں سڑکوں اور فلائی اوورز کے نام بدل رہے ہیں۔ دفتر مسمار کیے جا رہے ہیں۔ بظاہر ایک تبدیلی ہے جو دکھائی دے رہی ہے۔ اس سارے منظر نامے میں سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ اب وہ نام خوف کی علامت نہیں رہا، لوگ کھل کر اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ کبھی ایک کال پر شہر بند ہو جایا کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ صورت حال بدل رہی ہے اور خدا کرے کہ یہ ایک حتمی انجام تک پہنچے۔
یہی وہ شہر ہے جہاں المناک سانحے برپا ہوئے۔ یہ وہی شہر ہے جو 12مئی کو مقتل بنا دیا گیا تھا۔ جہاں بلدیہ ٹائون جیسا ہولناک سانحہ رونما ہوا اس لیے کہ کروڑوں کا بھتہ دینے سے انکار پر گارمنٹس فیکٹری کے 260 غریب ورکروں کو زندہ جلا دیا گیا۔ کراچی شہر پر ظلم کی تاریخ 12مئی اور بلدیہ ٹائون کے سانحے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔جی آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق فیکٹری کو آگ ایم کیو ایم کے ورکرز نے لگائی تھی۔
اس وقت تصاویر ہٹانا اور دفاتر مسمار کرنا علامتی تبدیلی تو ہو سکتی ہے مگر اصل میں تو اس وقت تبدیلی کا عمل مکمل ہو گا جب اس سانحے کے ذمّہ داروں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں گی۔ گزشتہ تین دہائیوں سے یہ شہر جن گھٹن کا شکار رہا۔ شاعروں نے اس کا نوحہ لکھا۔ قاسم پیرزادہ کا یہ شعراس شہر کی کہانی بیان کرتا ہے ؎
شہر اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی
صاحبِ اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
اسّی کی دہائی کے اواخر میں جس طرح ایک پراسرار جبر نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اس خوب صورت شہر کی رومانی فضا کو خون آلود کر دیا اس کی تصویر کشی سلیم کوثر نے اپنی شاعری میں جا بجا کی ہے۔ ایک نظم نوحہ کے عنوان سے ایسی ہے جس میں اس شہر کے باسیوں کا دکھ بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس طویل نظم کے چند مصرعے آپ کے ساتھ بھی شریک کرنا چاہتی ہوں:
ہاں یہی شہر تھا جس میں میرے محبوب غزال
آتے جاتے ہوئے آنکھوں میں دھنک کھینچتے تھے 
ہم سے آوارہ ہوا بات کیا کرتی تھی
روشنی دیر تلک ساتھ دیا کرتی تھی
اب گزرتے ہیں جو اس شہر کے سناٹے سے
ہر طرف موت کے پھیلے ہوئے وحشی سائے
زندگی مانگنے والوں کا لہو چاٹتے ہیں
کیا بتائیں درو دیوار کی ویرانی کو
سننے والا ہی نہیں نغمۂ گریہ کوئی
گھر کے اندر در و دیوار کی وحشت میں رہیں
گھر سے باہر کسی گولی کا نشانہ بن جائیں
بولتے ہیں تو زباں کاٹ دی جاتی ہے یہاں
دیکھتے ہیں تو بصارت سے مناظر چھن جائیں
جیسے ہم نعرۂ تحسین ہیں دیواروں پر
کوئی لکھتا ہے ہمیں کوئی مٹاتا ہے ہمیں!
پھول بے رنگ ہوئے آئینے بے آب ہوئے
کیسے منظر تھے ان آنکھوں میں جو نایاب ہوئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved