تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-08-2016

صفائی کی ذمہ داری گند مچانے والے پر ہے

فہد کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کی معافی، فاروق ستار کا ایم کیو ایم کو سنبھالنا اور عامر لیاقت کی توبہ، یہ سب ڈرامہ ہے، بلکہ پوری فلم ہے۔ فاروق ستار اینڈ کمپنی کے پاس اب کی بار اپنے قائد کے ''پاکستان مردہ باد‘‘ اور ''پاکستان ایک ناسور ہے‘‘ جیسے نعرے لگانے کا کوئی منطقی چھوڑ غیر منطقی جواب بھی نہیں بچا تھا۔ ایم کیو ایم والے پہلے اپنی زبان دانی اور پراپیگنڈے میں مہارت کے باعث قائد کے اس قسم کے بیانات کی توجیہات اور تاویلات دے کر کوئی نہ کوئی ایسا نقطہ نکال لیتے تھے جس پر انہیں بریت نہ سہی شک کا فائدہ ضرور مل جاتا تھا۔ اس بار ''قائد تحریک‘‘ نے اپنے تمام صفائی کنندگان کو اس ساری مشکل سے ہی نکال دیا کہ وہ ان کے ان الفاظ کا باطنی مفہوم نکالیں یا ان الفاظ کی منطقی وجوہات و تاویلات تلاش کر کے میڈیا میں بیان کریں۔ اس بار قائد تحریک نے ایسا لٹھ مارا کہ فاروق ستار سے بابر غوری اور نسرین جلیل سے رشید گوڈیل تک سب انگشت بدنداں رہ گئے۔
اس عالم میں بھی صرف جعلی علما کا سرخیل اور نہایت ہی اعلیٰ درجے کا ڈرامہ باز ڈاکٹر تھا جو الطاف حسین کی اس زہر بھری اور نفرت انگیز تقریر کے بعد ٹی وی پر بیٹھا ہوا اس تقریر کی صفائی دے رہا تھا۔ اس رات سارے ایم کیو ایم والے غائب تھے، صرف اکیلا ڈاکٹر عامر لیاقت اپنی زبان دانی اور چرب زبانی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ''پاکستان مردہ باد‘‘ اور ''پاکستان ایک ناسور ہے‘‘ جیسے واضح اور ابہام سے پاک غلیظ الفاظ کی صفائی دے رہا تھا۔ ان الفاظ کے پیچھے اپنے قائد کی ذہنی حالت اور صدمے کا ذکر کر رہا تھا۔ شدت جذبات کا ذکر کر رہا تھا۔ اس کے بیانات کی وضاحت دے رہا تھا۔ الطاف حسین کو دیوار سے لگانے کا ذکر کر رہا تھا۔ وہ الطاف حسین کو مطعون کرنے اور اس کے بیانات کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے جواز پیش کر رہا تھا اور یہ اسی دن کی بات ہے جس روز الطاف حسین نے اپنے خطاب میں پاکستان کے خلاف کھل کر بکواس کی تھی۔ اب اگلے ہی روز وہ دودھ کا دھلا ہوا بن گیا ہے اور پاکستان کا ''ماماں‘‘ بن گیا ہے۔ اب وہ کہہ رہا ہے کہ اگر وہ قتل ہو گیا تو اس کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جائے۔ قومی پرچم کی یہ بے حرمتی ناقابلِ برداشت ہے۔ کوئی ڈرامے باز ایک دن پاکستان کو گالیاں دینے والے کی صفائی دے اور اگلے روز پاکستانی پرچم میں دفن ہونے کی خواہش کرے۔ 
فہد لندن میں رہتا ہے اور ایم کیو ایم کا بھیدی ہے۔ سب سے پہلے مجھے ''چائنا کٹنگ‘‘ پر اسی نے بریف کیا تھا اور سارا طریقہ کار سمجھایا تھا، جس پر میں نے کالم بھی لکھا تھا۔ وہ اب بھی ایم کیو ایم کے بارے میں بہت زیادہ با علم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ فاروق ستار کا الطاف حسین کو مائنس کرنے کا اعلان اور ایم کیو ایم کو لندن کے بجائے پاکستان سے آپریٹ کرنے کا اعلان ایک ڈرامہ ہے کہ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے ہونا ممکن ہی نہیں۔ اگر کسی مائی کے لعل نے الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے فارغ کرنے کی کوشش کی تو الطاف حسین کا وفادار ڈیتھ سکواڈ اس کو اسی وقت فارغ کر دے گا۔ جس قائد کے حکم پر نائن زیرو میں بابر غوری سے لے کر خود فاروق ستار وغیرہ کی تذلیل ہوتی رہی ہو اور کارکنوں کی آنکھوں کے سامنے تمانچے مارے گئے ہوں اور کسی مائی کے لعل نے اس پرچوں بھی نہ کی ہو، بھلا اب ان میں ایک دم اتنی جرأت کیسے آ گئی کہ وہ الطاف حسین کو فارغ کر دیں اور کسی طرف سے آواز نہ اُٹھے؟
الطاف حسین کو از خود فارغ کرنا تو ایک طرف، الطاف حسین کی طبعی موت کے بعد ایم کیو ایم میں اقتدار کی جنگ دیکھنے کے لائق ہو گی۔ بابر غوری، وسیم اختر، فاروق ستار، حیدر عباس رضوی وغیرہ میں سے کسی کو یہ اہمیت یا درجہ حاصل نہیں کہ سب ان کی قیادت کو بلاچون و چرا قبول کر لیں۔ اُوپر سے اصل طاقت تو سیکٹر انچارجوں کے پاس ہے اور ان سے اوپر ٹارگٹ کلرز کا وہ گروہ ہے جسے لندن اور جنوبی افریقہ سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور وہ وہیں سے آتے جاتے ہیں۔ بھلا ایسا کیسے ممکن ہے کہ فاروق ستار بغاوت کرے اور تین عشروں سے ''جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے‘‘ کا نعرہ لگانے والے اسے بخش دیں؟ کراچی میں قیادت کا فیصلہ بے شک لندن سے اب نہ ہو پائے لیکن کم از کم ابھی یہ بھی ممکن نہیں کہ پاکستان میں بیٹھ کر کوئی ایم کیو ایم والا الطاف حسین کو فارغ کردے اور پیشہ ور قاتلوں کا گروہ اسے بخش دے، قائد کے غدار کو سزائے موت نہ سنائے اور نشان عبرت نہ بنائے۔ ابھی تک کسی کونے سے ڈاکٹر فاروق ستار کے خلاف بغاوت کا فتویٰ نہیں آیا۔ موت کا حکم صادر نہیں ہوا۔ کسی نے مذمت نہیں کی۔ الطاف حسین نے ٹن ہو کر بھی اس کے خلاف حکم صادر نہیں فرمایا۔ سیکٹر انچارجوں نے اعلان بغاوت نہیں کیا۔ کسی ٹارگٹ کلر نے اسے نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ندیم نصرت نے اس کے ایم کیو ایم سے اخراج کا اعلان نہیںکیا۔ مصطفیٰ عزیز آبادی نے کارکنوں سے رد عمل کی اپیل نہیں کی اور خود قائد تحریک نے اپنے اگلے لائیو خطاب میں کارکنوں سے یہ نہیں کہا کہ اس غدار کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
فہد کا کہنا ہے کہ اگر الطاف حسین طبعی موت مرتا ہے تو بھی صرف ایک صورت میں قتل و غارت گری سے بچت ہو سکتی ہے کہ الطاف حسین از خود اپنے جانشین کا اعلان کر جائے اور اسے اپنی وراثت اپنے ہاتھوں سونپ جائے۔ لیکن اس میں بھی کئی لوگ ایم کیو ایم سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ الطاف حسین کا myth ختم ہونے سے کئی لوگ جو کارکنوں کے سامنے ذلیل و رسوا کیے جاتے رہے ہیں، جنہیں سرعام تھپڑ مارے گئے تھے اور وہ محض جان کے خوف سے ایم کیو ایم میں ہیں، وہ علیحدہ ہو جائیں گے لیکن اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ اور کوئی بڑا واقعہ شاید نہ ہو۔ لیکن الطاف حسین اگر اپنا جانشین بنائے بغیر رخصت ہو جاتا ہے تو معاملہ لندن سیکرٹریٹ میں بیٹھے ہوئے انڈین شہری محمد انور سے کنٹرول نہ ہوگا۔ ندیم نصرت میں اتنی جان نہیں کہ وہ کراچی میں موجود طاقت کے مراکز کو کنٹرول کر سکے اور احکامات دے کر منوا بھی سکے۔ مصطفیٰ عزیز آبادی ابھی اس لیول کا لیڈر نہیں کہ لوگ اس کی غیر مشروط اطاعت کریں۔ ایک آتش فشاں پھٹے گا جب ایم کیو ایم کی قیادت کا معاملہ درپیش ہوگا۔ مختلف گروہ ہوں گے۔ بہت سے لیڈر تو اپنی جان بچانے کے لیے پاکستان سے بھاگ جائیں گے۔ ویسے اب بھی کافی سارے لوگ یا تو باہر چلے گئے ہیں یا منظرنامے سے غائب ہیں۔ کراچی میں اقتدار کی ایسی جنگ ہو گی کہ آپ لیاری گینگ وار کو بھول جائیں گے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کے بعد کبھی اتنی طاقتور، منظم اور متحد نہیں ہو گی جتنی اس وقت ہے۔ اور اس کو جوڑ کر رکھنے والی صرف دو چیزیں ہیں، ایک الطاف حسین کی محبت اور دوسری الطاف حسین کا خوف۔ الطاف کے جاتے ہی یہ دونوں چیزیں رخصت ہو جائیں گی اور چھوٹے چھوٹے بونے اور بالشتیے اس جنگ کا ایندھن بن جائیں گے۔ فہد کہنے لگا خالد بھائی! آپ کو اندازہ نہیں کہ کراچی میں اصل طاقت فاروق ستار اینڈ کمپنی کے پاس نہیں، سیکٹر انچارجوں کے پاس ہے اور ان سیکٹر انچارجوں کی ساری طاقت وہ لوگ ہیں جو ماتھے میں گولی سے اور جسم میں برموں سے سوراخ کرتے ہیں۔ فاروق ستار کس باغ کی مولی ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ الطاف حسین زندہ ہو، لندن سیکریٹریٹ میں مع اپنی ٹیم کے پوری آب و تاب سے براجمان ہو اور فاروق ستار جیسا شخص جسے نائن زیرو میں جوتے پڑتے رہے ہوں اچانک ایم کیو ایم پاکستان کا چارج سنبھال لے اور ہر طرف سکوت طاری ہو؟ کسی طرف سے اندھی گولی نہ آئے؟ کوئی اس کے قتل کا فتویٰ جاری نہ کرے؟ قائد کے غدار کو موت کا حقدار قرار نہ دیا جائے؟ یا کم از کم اسے غدار قرار نہ دیا جائے؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ مغضوب الغضب الطاف حسین ہوش میں آکر دوبارہ ہوش سے بے گانہ نہ ہو اور ٹی وی چینلز پر حملوں کے حکم کی مانند فاروق ستار کو اپنی سلطنت کا تختہ الٹنے کا مجرم ٹھہرا کر اپنے وفاداروں کو حکم نہ دے کہ وہ غدار کو قرار واقعی سزا دیں۔ اپنے غدار کو بخش دے؟ تا کہ اوروں کو غداری کی تحریک ملے؟ ایم کیو ایم کی ساری عمارت الطاف حسین سے ذاتی وفاداری پر کھڑی ہے۔ کیا اس بنیاد کو گرانے والے کو بخشا جا سکتا ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کل تک الطاف حسین کی تقریر کے دوران قائد کی ہر بات پر بلاچون و چرا عمل کرنے والے محض ایک دن بعد یہ بھول جائیں کہ ان کا قائد کون ہے؟
خالد بھائی! یہ سب ڈرامہ ہے۔ ہوش و حواس سے بیگانے الطاف حسین نے اب کی بار جو کہا تھا اس کا جواز کسی کے پاس نہیں تھا۔ اس بار الطاف حسین نے استعفیٰ بھی نہیں دیا۔ ایم کیو ایم کی قیادت چھوڑنے کا اعلان بھی نہیں کیا۔ خاموشی سے فاروق ستار نے ایم کیو ایم ٹیک اوور کرنے کا اعلان کر دیا اور لندن سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ کوئی حکم جاری نہیں ہوا۔ بغاوت کی سزا کا کوئی اعلان نہیں ہوا۔ یہ سب ملی بھگت ہے۔ لندن کا حکم تھا اور فاروق ستار نے حکم کی تعمیل کی ہے۔ حسب سابق۔ حسب معمول۔
اب قائد تحریک کارکنوں کو دو زانو بٹھا کر ٹیلی فونک خطاب کے بجائے محض ٹیلی فون کیا کریں گے۔ خطاب کے بجائے محض حکم دیا کریں گے اور سب کچھ اسی طرح چلے گا جس طرح پہلے چلتا تھا۔ اب قائد کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔ خیر ٹھیک تو کافی عرصے سے نہیں تھی مگر حالت ہوش و حواس کا وقت کسی حد تک مقرر تھا، اب وہ بھی نہیں رہا۔ کچھ پتا نہیں کس وقت کیا کر دے اور کیا کہہ دے۔ ایسے میں اب ٹیلی فونک خطاب خطرناک ہو گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہر ٹیلی فونک خطاب نے کوئی نہ کوئی مسئلہ ہی کھڑا کیا تھا۔ اب تو حد ہو گئی ۔ حتیٰ کہ معافی مانگنے کے ساتھ ہی امریکہ، اسرائیل، ایران، افغانستان اور بھارت سے مدد مانگ لی گئی۔ ساتھ کھڑے حواریوں نے بارہا پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔ پاکستان کے تقسیم در تقسیم ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اب ایسی صورت میں مہاجروں کی اکثریت جو اس ملک (پاکستان) کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر، خون کے رشتوں تک کو چھوڑ کر اس ملک میں آئے تھے، بھلا وہ یہ سب کچھ کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟
فہد کہنے لگا بھائی! میں خود مہاجر ہوں اور سوائے پاکستان کے اور کسی سے وفاداری کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بھلا پاکستان مردہ باد کہنے والا میرا قائد کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ایک دن پہلے قائد کی تقریر کے دوران اس کے ٹی وی چینلز پر حملے کے حکم پر بآواز بلند ''جی بھائی ابھی جا رہے ہیں‘‘ کہنے والے ایک ہی دن کے بعد حاجی کیسے بن گئے۔ سائبر کرائم کے تازہ قانون کے مطابق حکومت کے خلاف پوسٹر لگانے پر چودہ سال قید اور پانچ کروڑ جرمانہ اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے، اس کے خاتمے کو عین عبادت قرار دینے اور دہشت گردی کا مرکز قرار دینے والی پارٹی کے اُمیدوار کو کراچی کا میئر بنانے والی دو عملی سمجھ نہیں آرہی۔ جنہوں نے ایم کیو ایم بنوائی تھی وہ اب بھی اس سارے واقعے میں سے اپنے فائدے نکالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سارے ڈرامے کے ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ اسے کون کون سپورٹ کر رہا ہے؟ یہ سب کو پتا ہے مگر بولتا کوئی نہیں۔ صرف مونچھوں والے سے فاروق ستار کو دھکے دلوانے سے بات نہیں بنے گی۔ اس واقعے کو اب منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔ یہ کام وہی کریں جنہوں نے یہ سارا گند مچایا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved