تنازعہ کشمیر: اقوام متحدہ کی
مسلسل ناکامی ہے : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کی مسلسل ناکامی ہے‘ جبکہ ہماری حکومت کی مسلسل کامیابی ہے کہ احتجاج بھی کر رہے ہیں اور مودی صاحب کو ناراض بھی نہیں ہونے دے رہے کیونکہ ہم تو اس اصول کے قائل ہیں کہ ؎
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
انہوں نے کہا کہ ''مسئلہ کشمیر پر موقف اٹل ہے‘‘ جیسا کہ عوام کو صحت‘ تعلیم اور دیگر سہولیات مہیا کرنے کا عزم اٹل ہے جو انشاء اللہ 2018ء تک پورا ہو کر رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''اس مسئلے سے غفلت کا تصور تک نہیں کر سکتے‘‘ کیونکہ تصور کرنے کے لیے جس دماغی استعداد کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس سے ہاتھ خاصا تنگ چلا آ رہا ہے جبکہ اسے کھلا کرنے کا بھی ارادہ اٹل ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نوازشریف انتقامی سیاست
سے گریز کریں : یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''نوازشریف انتقامی سیاست سے گریز کریں‘‘ کیونکہ ہم نے بھی اپنے دور میں وہی کچھ کیا تھا جو موجودہ حکومت کر رہی ہے‘ البتہ ہم ذرا غیر محتاط ہو گئے تھے جبکہ حکومت وہ کام پوری کاریگری سے کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پنجاب کے عوام اپنی تقدیر بدلنے کے لیے پیپلز پارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘ بلکہ اگر صحیح معنوں میں پوچھیں تو صرف میری طرف دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح میں نے اللہ کے فضل سے اپنی تقدیر بدلی تھی‘ اسی طرح ان کی تقدیر بھی بدل دوں گا اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ میری تقدیر بدلنے میں جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے‘ اس کے نکلتے ہی میں عوام کی تقدیر بدلنے کا بیڑا سنبھال لوں گا‘ اور اگر اگلی دفعہ نہ بدل سکا تو اُس سے اگلی بار ضرور بدل دوں گا‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے‘ بلکہ کنگن سے وہ ہار بھی بری طرح یاد آ رہا ہے جسے ظالموں نے واپس لے لیا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں جنوبی پنجاب کی آرگنائزنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
بدعنوانی کا خاتمہ پورے ملک کی
آواز بن چکا ہے : قمر زمان چوہدری
نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ ''بدعنوانی کا خاتمہ پورے ملک کی آواز بن چکا ہے‘‘ جسے حکومت ایک کان سے سنتی اور دوسرے سے نکال دیتی ہے کیونکہ اللہ میاں نے دو کان اسی لیے دیئے ہوئے ہیں اور حکومت ان دونوں سے کام لینا چاہتی ہے جیسا کہ وہ ملک اور عوام کی خدمت کے لیے دونوں ہاتھوں سے کام لے رہی ہے جبکہ ہم بھی بدعنوانی کے خاتمے کے لیے دن رات اسے بددعائیں دیتے رہتے ہیں جس کا اثر انشاء اللہ بہت جلد نظر آنا شروع ہو جائے گا جس کی حکومت نے خاص طور پر ہدایت کر رکھی ہے کیونکہ وہ بھی بدعنوانی کے سخت خلاف ہے اور بددعائوں سے بڑا ہتھیار اور کیا ہو سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم چھوٹے بدعنوانوں کو پکڑتے اور بڑوں کا خاتمہ بددعائوں سے کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں‘‘ اور اگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تو سارا قصور نتیجے کا ہے‘ اقدامات کا نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بدعنوانی کے تدارک کے لیے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
میں ہمیشہ پاکستان کا نعرہ لگائوں گا : ڈاکٹر عاصم حسین
ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا ہے کہ ''میں ہمیشہ پاکستان کا نعرہ لگائوں گا‘‘ جیسا کہ الطاف بھائی اور فاروق ستار بھائی سمیت سب نے یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا ہے اور جس سے آئی ہوئی مصیبت وقتی طور پر تو ٹل گئی ہے‘ کم از کم اس وقت تک جب تک کہ الطاف بھائی کی طبیعت پھر خراب نہیں ہو جاتی کیونکہ صحت کے معاملات آدمی کے بس میں بھی کہاں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان میرا ہے‘ میں ہمیشہ پاکستان کا نعرہ لگائوں گا‘‘ کیونکہ جو کچھ دانہ دنکا برسات کے دنوں کے لیے اکٹھا کیا ہے وہ پاکستان ہی کی وجہ سے ہے اور جو یہیں پڑا رہ جائے گا جیسا کہ سکندر کو خالی ہاتھ جاتے سب نے دیکھا تھا۔ اس لیے اس موضوع پر حکومت اور پراسیکیوشن کا پریشان ہونا انتہائی غیر ضروری ہے کہ یہ سب منجانب اللہ ہے جو دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر ہی دیتا ہے کیونکہ وہ بے شمار ایسے چھپروں کا مالک ہے جنہیں وہ اپنی مرضی کے مطابق پھاڑتا رہتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پکنک؟
ایک اخباری اطلاع کے مطابق حکومت 22 ارکان اسمبلی کا ایک جتھہ بیرون ملک بھجوا رہی ہے جہاں وہ دنیا بھر میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے سفرائے کرام کیا کر رہے ہیں جن کا یہ کام ہے۔ اگر وہ ڈیلیور نہیں کر سکے تو یہ کون سا تیر مار لیں گے‘ حکومت کی اس معاملہ میں سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مولانا فضل الرحمن کو لگا رکھا ہے جن کی کارکردگی سیر سپاٹوں کے علاوہ صفر ہے اور جنہیں دن رات اپنے مفادات میں کتنی فکر لگی رہتی ہے اور جن کی ذات گرامی باقاعدہ ایک مذاق بن چکی ہے۔ یہ زعماء جن میں سے کچھ کی بیگمات بھی ہمراہ ہوں گی‘ دنیا کے مہنگے ہوٹلوں میں قیام کریں گے اور اس غریب ملک کا کروڑوں روپے اس پکنک پر برباد کر کے آ جائیں گے جس کا بال بال قرض میں بندھا ہوا ہے اور جس کی آبادی کا تین چوتھائی غربت کی لکیر کے نیچے کیڑے مکوڑوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جنہیں نہ صحت کی سہولت میسر ہے نہ تعلیم کی‘ بلکہ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے اور اس عیاشی پر اٹھنے والا یہ خرچہ نئے ٹیکس لگا لگا کر یہ نااہل اور کرپٹ حکومت انہی کیڑوں مکوڑوں سے وصول کرے گی۔ واضح رہے کہ یہ ارکان اسمبلی زیادہ نون لیگ سے ہونگے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کیا حکومتی اور ہم خیال ارکان ہی پر مشتمل ہے؟ دراصل تو یہ الیکشن 2018ء لڑنے کی تیاریاں ہیں جس کے لیے اپنے آدمیوں کو خوش کیا جا رہا ہے کہ جنہیں وزیر مشیر نہیں بنایا جا سکا انہیں اس طرح اکاموڈیٹ کر دیا جائے!
آج کا مقطع
چمن سے جا بھی چکا ہوں،ظفرؔ، مگر اب تک
خراجِ نالہ و نغمہ سرائی دے رہا ہوں