تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     30-08-2016

متروکہ لطیفوں کا گیم چینجر

ہمارے وزیراعظم خواہ سیلاب کے مسائل سے دوچار ہوں یا پاناما لیکس سے‘ قوم کو تفریح اور منتخب اراکین کو سفر کے مواقع اور اخراجات مہیا کرنے سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ انہوں نے پاناما لیکس کے حوالے سے ‘تفریحی مواقع ڈھونڈنے یا پیدا کرنے کی ذمہ داریاں‘ عمران خان کے سپرد کر رکھی ہیں۔ عمران خان کی خدمات درست ہوں یا غلط۔ اپنا بنیادی مقصد ‘بہرحال پورا کرتی رہتی ہیں۔ یعنی تفریح۔اگر وزیراعظم پاناما لیکس میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں‘ تو وہ صرف تفریحی مقاصد کے لئے ہے۔ ورنہ وہ سنجیدہ ہوتے‘ توقومی اسمبلی میں پاناما لیکس پر ‘ڈھنگ سے اظہار خیال کرتے۔ ہمارے وزیراعظم نے قومی اسمبلی کو‘ اپنی اور معزز اراکین کی تفریح کے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ ہمارے مخصوص حالات میں اس سے بڑی تفریح کیا ہو سکتی ہے؟ کہ کمیٹی بنائی جاتی ہے جناب وزیراعظم اور ان کے اہل خاندان کی بیرونی ممالک میں جمع شدہ ''مشکوک دولت‘‘ کی جستجو میں اور پارلیمانی کمیٹی میں شرکت کرنے والا حکومتی وفد‘ بیٹھتے ہی اعلان کر دیتا ہے کہ ہم آپ سے وزیراعظم اور ان کے خاندان کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے۔ باقی آپ سارے قومی اور بین الاقوامی امور پر گفتگو کر سکتے ہیں۔بیشک سکھ‘ پاکستان سے ترک وطن کر گئے لیکن ان کی متروکہ جائیدادوں اور متروکہ لطائف پر قبضہ جمانے کی لت ہم نے نہیں چھوڑی۔ یہ بھی سکھوں کے متروکہ لطائف میں سے ایک ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کی ناجائز دولت کا سراغ لگایا جائے ۔مگر سرکاری وفد کی شرط یہ ہو گی کہ پاناما لیکس کے حوالے سے ہم وزیراعظم اور ان کے خاندان پر بات نہیں کریں گے۔ باقی جتنے مذاکرات چاہیں کر لیں۔ لطیفے پر لطیفہ یہ ہے کہ اس کے باوجود پارلیمانی کمیٹیوں کی سات یا آٹھ نشستیں ہو چکی ہیں‘ حکومتی شرط یہ ہے کہ ہم وزیراعظم اور ان کے خاندان پر بات نہیں کریں گے۔ اپوزیشن کا اصرار ہے کہ مبینہ ناجائز دولت کے سوا ‘ہمیں کسی موضوع میں دلچسپی ہی نہیں۔ سکھوں کی متروکہ املاک میں سے ‘قابل ذکر تحفہ یہ ہے کہ مذاکراتی ایجنڈے پر‘ دونوں فریقوں کا اتفاق نہیں۔ یعنی حکومت ‘ وزیراعظم کے اثاثوں پر بات نہیں کرے گی اور اپوزیشن‘ وزیراعظم کے اثاثوں کے سوا کسی موضوع کو زیربحث نہیں لائے گی۔ ہے نا سکھوں والی بات؟ 
اب آتے ہیںمزید متروکہ لطائف کی طرف۔ پاکستان کی ساری حکومتیں ‘ابھی تک عالمی برادری کے سامنے ‘کشمیر پر اپنا موقف واضح نہیں کر سکیں۔ 69سال سے ہمارے وفود آ رہے ہیں۔ ہمارے وفود جا رہے ہیں۔ ہر وفد کے ہر رکن پر‘ قومی خزانے سے زرمبادلہ کی بھاری رقوم خرچ ہو رہی ہیں۔ بیشتر اوقات میں پاکستان اپنے وفود بھیجتا رہا اور بھارت نے ‘ اپنے وفد کے ایک دو اراکین کے سوا کوئی وفد بھیجنے کا تکلف ہی نہیں کیا۔ پھر بھی یہ ثابت ہے کہ بھارت میں بنیے کی تعداد سکھوں سے زیادہ ہے۔ وہ اپنا ایک پیسہ خرچ نہیں کرتے۔ ہم اپنے مذاکراتی وفو د پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتے آ رہے ہیں۔ بھارت کے پاس زرمبادلہ کے وسیع ذخائر ہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کی کل مالیت‘ 20 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ اس کے باوجود اسحق ڈالر نے‘ ہم پر اپنی عمر سے زیادہ مرتبہ‘ احسان جتایا ہے کہ میں نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ اب کشمیر کے سوال پر‘ دنیا سے وہ بات منوائی جائے‘ جو ہم پہلے 69سال میں نہیں منوا سکے۔ یہ ہے سکھوں کے متروکہ لطائف میں سے ایک اور لطیفہ۔ 
ہمارے محترم وزیراعظم بھی متروکہ لطائف الاٹ کرانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے لطائف لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عمران خان تو خواہ مخواہ لوٹے ہوئے ڈالروں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اگر وہ پاناما آف شورز میں‘ ناجائز دولت کی تلاش کے بجائے‘ متروکہ لطائف میں سے وزیراعظم کے مقبوضہ لطائف کی چھان 
بین کرتے‘ تو شاید ابھی تک کامیاب ہو چکے ہوتے۔ عمران خان کی ضیافت طبع کے لئے ‘ایک اور لطیفہ پیش کر رہا ہوں۔ ہمارے وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو‘ عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے ‘ 22اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ہنسنے کے لئے اپنی پسلیاں ذرا مضبوط کر لیجئے۔ کیونکہ میں وفد میں شامل اراکین کے نام لکھنے لگا ہوں۔ دل بلکہ پسلیوں پر ہاتھ رکھ کر پڑھیئے کہ وزیرخزانہ جناب اسحق ڈار ''پتہ نہیں‘‘ کتنے ملکوں میں پاکستان کی وکالت کرنے جائیں گے؟ سفارتی امور میں اسحق ڈار کی مہارت اسی معیار کی ہے‘ جو مہارت حاصل بزنجو کو سفارتی امور میں''حاصل‘‘ ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان کے وزیرخزانہ ‘حاصل بزنجو ہوتے‘ تو ان کا مالیاتی فلسفہ ‘غریبوں کو روزی روٹی کمانے کی تھوڑی بہت گنجائش ضرور دے دیتا۔ اسحق ڈار کی توجہ بطور وزیرخزانہ صرف دو چیزوں پر رہتی ہے۔ بچے آئس کریم نہ کھانے پائیں اور غریب خاندان کو روٹی نصیب نہ ہو۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ حاصل بزنجو ‘ وزیرخزانہ ہوتے‘ تو کم از کم یہ دونوں چیزیں بہرحال مہیا کر دیتے۔ 
مترو کہ لطائف پر قبضہ کرنے والے ‘ہمارے وزیردفاع خواجہ آصف ہیں۔ قومی دفاع میں تو ان کی مہارتوں اور صلاحیتوں کا مجھے علم نہیں۔ لیکن وہ دھاندلی کے دفاع میں ‘بے مثال ثابت ہو رہے ہیں۔ میں گنتی کے معاملے میں کافی نکما ثابت ہوا ہوں۔ خواجہ صاحب کی وزارت دفاع کا راز مجھ پر یہ کھلا کہ وہ گنتی کے معاملے میں‘ خواجہ کم اورسردار جی زیادہ ثابت ہوئے ہیں۔ یا پھر الٹا کر دیکھ لیں کہ خواجہ صاحب نے الیکشن کمیشن کی طرف سے‘ گنتی کرنے والوں کوکتنا زبردست ''سردارجی‘‘ ثابت کیا ہے کہ الیکشن میں جیتنے والا ‘ہار کے مقدمے لڑتا پھر رہا ہے اورہارنے والا‘ اپنی جیت ثابت کر کے‘ وزیردفاع بنا پھر رہا ہے۔ یہاں میں وزارتیں بانٹنے والوں کی حس ظرافت کی داد دوں گا کہ انہوں نے خواجہ صاحب کو انتہائی موزوں وزارت دی ہے۔ انہوں نے الیکشن میں ہارنے کے باجود‘ اپنا دفاع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ الیکشن ہار کے‘ اپنا دفاع ایسے کیا کہ وہ پاکستان کے وزیردفاع بننے میں بہرطور کامیاب رہے۔ یہ ہے سکھوں کی متروکہ املاک پر‘ خواجہ آصف کا قبضہ۔
سکھوں کے متروکہ لطائف میں سے‘ میاں صاحب کے تقسیم شدہ لطیفوں میں سے ایک لطیفہ‘ خواجہ ریلوے یا خواجہ سعد رفیق کے حصے میں آیا۔خواجہ سعد رفیق کی اصل شہرت تعلیمی اداروں میں مارپیٹ کی ہے۔ ہمارے وزیراعظم اپنے حواریوں میں شامل کرنے کے لئے ‘جن لوگوں کی شہرت کو پیش نظر رکھتے ہیں‘ وہ مارپیٹ ہے۔ خواجہ سعد رفیق کو یتیمی کے باوجود ‘گھر والوں نے پڑھنے کے لئے کالج بھیجا تھا۔ لیکن انہوں نے جو شہرت حاصل کی‘ وہ مارپیٹ کی تھی۔ وہی سکھوں کی متروکہ ملکیت۔ کالج میں داخل ہوئے پڑھنے کے لئے اور شہرت پائی''مارتھپڑ‘ مار گھونسہ‘ مار لات‘‘۔ اگر پاکستان کے معیار وزارت کو سامنے رکھا جائے‘ تو خواجہ سعد رفیق کو کامیاب ترین وزیرہونا چاہیے۔ ''چاہیے‘‘ میں نے صرف تکلفاً لکھ دیا ہے۔ اصل میں وہ انتہائی کامیاب ہیں۔ بسترمرگ پر لیٹی ہوئی ریلوے کو ‘انہوں نے چند بھاری بھرکم انجنوں اور پرزوں کی چوٹیں لگا کر‘ سیدھا کر دیا ہے۔ یہ خواجہ سعد رفیق کی خواجگی ہے کہ زخمی انجن اور ڈبے‘ مسافروں کو گھسیٹ کر لائن پرچڑھا دیتے ہیں اور نیم جاں انجن اور ڈبے کسی ویرانے میں جا کر‘ مسافروں کواتار دیتے ہیں۔ بلوچستان میں ریل کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے بموں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ خواجہ صاحب ‘لاہور سے موبائل پر ایک دھمکی دے کر ریل کا انجن اور اس کے ڈبوں کو‘ اچھا سا ویرانہ دیکھ کر الٹا کر دیتے ہیں۔ میرے سامنے 22اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کی لمبی چوڑی فہرست ہے۔ وفد کے اراکین کا انتخاب ان گنت بیرونی ملکوں میں مذاکراتی ایجنڈا اور وفد کے اراکین کی صلاحیتیں اور مہارتیں سامنے رکھ کر دیکھا جائے‘ تو خدا لگتی کہیے کہ سکھوں کے متروکہ لطیفوں کے ساتھ‘ ہم نے انصاف کیا ہے یا نہیں؟ لوٹ مار کے مواقع سے ہم نے‘ جتنا موزوں فائدہ اٹھایا‘ وہ صرف سکھوں کے متروکہ لطائف ہیں۔ سچی بات ہے کہ لوٹ مار کی نذر ہونے والی متروکہ چیزوںکی تعداد ‘گھریلو استعمال کے جھاڑو کی تیلیوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ حقیقت میں ہمارے منتخب نمائندوں کی تعداد کا احوال بھی یہی ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے تو بیرونی سیروسیاحت کے لئے‘ صرف 22منتخب اراکین کو موقع دیا ہے۔ ابھی صرف ایک ہزار کے لگ بھگ منتخب اراکین میں سے 22 کا وفد ‘چنا گیا ہے۔ ایسے کئی وفود چنے جا سکتے ہیں۔ اگر منتخب بلدیاتی اراکین کی گنتی کی جائے‘ تو ہمارے وزیراعظم پوری ایک صدی تک ان گنت وفود ‘دنیا کو تنازعہ کشمیر سمجھانے کے لئے‘ بیرونی دوروں پر بھیج سکتے ہیں۔ ایک مزید متروکہ لطیفہ۔گزشتہ دنوں امرتسر میں‘80سال سے زیادہ عمر کے سکھ ‘اپنے متروکہ اثاثوں کا شمار کر رہے تھے۔ ایک رعشہ زدہ بزرگ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ''اب میں ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ جو گیم چینجر ہے۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved