تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     30-08-2016

لے سانس بھی آہستہ

20 جولائی کی شام کو لندن میں اپنے گھر ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھا کہ دن بھرکی خبریں دیکھ سکوں۔ اچانک تصویر کے نیچے چلنے والی ایک پٹی پر نظر پڑی تو پتہ چلا کہ صرف کراچی میں نہیں بلکہ ہزاروں دوستوں کے دلوں میں رہنے والا ایک شخص ہم سے جدا ہو گیا۔ سکرین پر چند الفاظ اُبھرنے کی دیر تھی کہ آناً فاناً 62 سال پُرانا رشتہ ٹوٹ گیا۔ عرصہ ہوا کہ ملاقات ہوئی تھی۔ ماہ جون کے شروع میں کراچی گیا تو ڈاکٹر ابوبکر شیخ نے یہ مہربانی کی فون پر بات کروا دی۔ آواز دوست میں ایک پرُانے رشتہ کی اپنائیت تو تھی مگر گرم جوشی نہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ایک عرصہ سے میرے دوست کی صحت کم خراب یا زیادہ خراب رہتی ہے۔ کلاسیکی شاعر (اور شاعروں کے اُستاد) انیس نے اس کار گہ شیشہ گری میں ہمیں آہستہ سانس لینے کی تائید کی تھی اور وجہ یہ بتائی کہ اس جہاں رنگ و بو کا نظام اس قدر نازک ہے کہ احتمال ہے کہ اُونچی آواز میں لینے سے کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہو جائے گی۔مصیبت یہ تھی کہ دمہ کی موذی بیماری کی وجہ سے میرے ہمدم دیرینہ کو آہستہ سانس لینے میں بھی بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ دوست کا نام تھا معراج محمد خان۔ اُن کی جوانی میں ایک آنکھ کی بینائی کم ہو جانے کے سنگین مسئلہ سے اور بڑھاپا سانس کی ناقابل علاج بیماری سے جنگ لڑتے گزری۔ وہ پہلے سیاسی جنگ ہارے اور پھر زندگی کی۔میرا تعارف معراج سے بین الکلیاتی مباحثوں کے توسط سے ہوا۔ میرے زوال کے کئی اسباب ہیں مگر کالج کے زمانہ میں شوق تقریر مجھے لے ڈوبا اور غالباً معراج کو بھی۔ کراچی میں طالب علم راہنمائوں کا جو گروپ پچاس کی دہائی میں اُبھرا۔معراج اُن میں سب سے نمایاں اور سب سے سنجیدہ تھا۔ اس گروپ کی سیاسی ناکامی نے آگے چل کر ایم کیو ایم کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں زیر عتاب رہنے والا معراج۔ کراچی بدر ہو کر پنجاب میں پناہ گزین ہوا۔ ساٹھ کی دہائی میں کئی بار جیل گیا۔ ستر کی دہائی میں اقتدار کی غلام گردشوں میں چلتا یا چلنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا اور پھر مرنے تک اپنی شکست کی آواز بن کر اس طرح زندہ رہا کہ : ع
دیکھ مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو
مذکورہ بالا گروپ میں سعید حسن فتحیاب علی خان اور کئی دوسرے دوست شامل تھے (افسوس کہ میں اُن کے نام بھول گیا) میں 1967 ء میں برطانیہ آیا تو سعید حسن پہلے سے یہاں موجود تھا۔ ایک امیر باپ (جو ادبی ذوق کی وجہ سے فیض صاحب کا دوست بھی تھا) کی امیر بیٹی سعید حسن کی کفالت کرتی تھی۔ ساری عمر یہ پتہ نہ چل سکا کہ سعید حسن کے سیاسی نظریات کیا ہیں؟ فتح یاب کی فتوحات کی تعداد صرف دو تھی۔ ایک تو وہ اُس وقت مزدور کسان پارٹی کا زبردستی اور خود ساختہ صدر بن گیا جب وہ یتیم ہو چکی تھی اور اُس کا کوئی والی وارث نہ رہا اور دُوسری یہ کہ اُن کی اپنی لائق فائق بیوی کو (بھٹو صاحب کی کرم فرمائی کی وجہ سے) کسی یوروپی ملک میں سفارت کا عہدہ دلوایا۔ کراچی کے طالب علم راہنمائوں کے گروپ میں سے صرف معراج پیپلز پارٹی میں شامل ہوا۔ ہالہ کانفرنس میں انتخابات میں حصہ لینے کی مخالفت اور انقلابی جدوجہد کرنے کے حق میں پرُ جوش تقریر کی۔ اچھا ہوا کہ اُن کی بات نہ مانی گئی ورنہ کوئی بھی شخص انقلابی جدوجہد میں حصہ لینے اور عملی کام کرنے میں معراج سے زیادہ نااہل ثابت نہ ہوتا۔ بھٹو صاحب نے دو لوگوں کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ ایک مصطفی کھر اور دُوسرا معراج محمد خان۔ پیپلز پارٹی کے تضاد کی اس سے بہتر کوئی اور مثال نہیں دی جا سکتی۔ بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعدجانشینی کی جنگ اس لئے نہ لڑی گئی چونکہ ان کی زندگی میں ہی ان کے دونوں جانشین اُن سے بہت دُور ہو گئے تھے اور مخالف کیمپ میں جا چکے تھے۔ بھٹو صاحب نے معراج کو وزارت کا عہدہ دیا ،مگر وہ زیادہ دیر تک ایک دُوسرے کے ساتھ چل نہ سکے اور معراج کو مستعفی ہونا پڑا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ معراج شخصی اختلاف کی وجہ سے استعفیٰ دینے کی بجائے اُس وقت عزت آبرو سے علیحدہ ہو جاتا جب بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی کے بانی اور سیکرٹری جنرل جناب جے اے رحیم (سابق سفیر جسے بھٹو صاحب اپنا سیاسی باپ کہتے تھے) پر بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی ایف ایس ایف نے بزدلانہ اور شرمناک حملہ کر کے اُنہیں شدید زخمی کیا تھا۔ معراج حکومت سے فارغ ہوئے تو پھر محنت کشوں کی طرف لوٹے۔ اُن کے ایک جلوس کی قیادت کر رہے تھے کہ پولیس کے لاٹھی چارج کی زد میں آگئے۔ ایک آنکھ جاتی رہی اور بینائی شدید متاثر ہوئی۔ پھر اُنہوں نے اپنا ایک سیاسی گروپ قومی محاذ آزادی کے نام سے بنا لیا جو برائے نام تھا اور غالباً سارے ملک میں سب سے کمزور سیاسی گروپ تھا۔ تحریک انصاف بنی تو وہ اس کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے۔ جس شخص کا بھٹو صاحب سے گزارانہ ہوا اُس کا عمران خان سے کس طرح ہو سکتا تھا؟ ایک بار پھر مستعفی ہوئے اور اس طرح گھر بیٹھے کہ پھر اپنا جنازہ اُٹھنے تک باہر نہ نکلے۔ اس کالم نگار کی رائے میں (جو اُن کے لئے محبت اور عزت کے جذبات رکھتا ہے) معراج کی موت سے زیادہ اس کی زندگی المناک تھی۔ اُنہوں نے کتاب تو کیا کبھی ایک مضمون بھی نہ لکھا۔ اُن کے بڑے بھائی منہاج برنا بڑے نامور صحافی تھے اور ایک بے حد سخت دور میں فیڈرل یونین آف جرنلٹس کے ایسے بہادر راہنماتھے جو مارشل لاء کی پابندیوں کے خلاف بلا خوف و خطر لڑتے رہے۔ بڑا بھائی بھی اپنے چھوٹے بھائی کو اپنی خود نوشت کی صورت میں لکھنے پر آمادہ نہ کر سکا۔ معراج نے ساری عمر جو سیاسی کام کیا وہ صحرائی ریت پر لکیریں کھینچنے کے مترادف تھا۔ اگر وہ خود کوئی ایک بھی اچھا اور مثبت اور یادگار کام نہ کر سکتے تھے تو ہ جناب عبدالستار ایدھی کا ساتھ تو دے سکتے تھے۔ وہ سندھ کے مظلوم عوام اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے والوں کی معاونت تو کر سکتے تھے۔وہ جاوید جبار یا انصار برنی کا ہاتھ تو بٹا سکتے تھے۔ مگر اُنہوں نے اپنی ساری عمر نظریاتی اور ہوائی باتیں کرنے میں صرف کر دی۔ یہ ہے ایک بڑے ذہین اور اعلیٰ سیاسی شعور رکھنے والے شخص کی زندگی کا المیہ۔ یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آج بھی ہمارے پاس بہت سے معراج محمد خان ہیں۔ اُن کی نیک نیتی اور علمیت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ مگر وہ زمینی حقائق سے اتنے دُور ہیں کہ اُنہیں زمین اورزمین پر رہنے والے نظر نہیں آتے۔ جو کروڑوں لوگ زمین سے جڑے ہوئے ہیں وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں مگر ذہنی طور پر اتنے پسماندہ ہیں کہ بول نہیں سکتے۔ عوام کا دُکھ درد محسوس کرنے والے لوگ اندھے ہیں اور عوام گونگے۔ اب معراج ہمیں چھوڑ کر وہاں چلا گیا ہے جہاں حسن ناصر شہید‘ قصور گردیزی‘اسحاق محمد‘۔ اسلم‘ دادا امیر حیدر‘ حیدر بخش جتوئی اور سوبھو چندرانی کی روحوں نے ان کا استقبال کیا ہوگا۔
معراج کی وفات نے کئی ایسے زخموں کو ہرا کر دیا۔ جنہوں نے میرے بوڑھے دل کو ماضی قریب میں لہو لہان کر دیا تھا۔ شمالی انگلستان کے ایک خوبصورت ساحلی مقام Scar Borough میں عمر گزارنے والے ڈاکٹر مصطفی کریم۔ جو نہ صرف اعلیٰ درجہ کے سرجن تھے اور Consultant جیسے بڑے عہدے پر فائز تھے بلکہ اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ عوام دوست۔ ترقی پسند اور اشتراکی ذہن کے مالک ہونے کی وجہ سے فیض صاحب سے لے کر احمد فراز تک سے متعارف تھے۔ ملک الشعراء انیس کہتے ہیں کہ ہم سانس بھی آہستہ لیں۔ بالکل درست فرمایا، نہایت صائب مشورہ دیا۔ انیس مرثیہ گوئی کے فن کے بادشاہ تھے۔ آج وہ زندہ ہوتے تو یہ کالم نگار اُن کی خدمت میں گزارش کرتا کہ ہماری ڈھارس بندھانے کے لئے آپ معراج محمد خان اور ڈاکٹر مصطفی کریم کا بھی مرثیہ لکھیں۔ صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں گا۔ وہ دونوں ایک عمر میں آتش نوا تھے۔ آخری عمر میں بہت آہستہ آہستہ سانس لیتے تھے۔ روانگی کے وقت تک جو سانس بھی آئے (چاہے آہستہ) وہ غنیمت ہے اور سانس لینے والوں کو خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے ۔ آخر وہ وقت آیا کہ اُن دونوں نے سانس لینا ہی بند کر دیا اور ابدی نیند سو گئے۔ اُن کے اَن گنت سوگوار شدت غم سے دم بخود ہیں اور زیر لب کہتے ہیں ع
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved