ڈائیلاگ
باغی اور جلاوطن بلوچ رہنما براہم داغ بگٹی نے کہا ہے کہ ہم ڈائیلاگ میں یقین رکھتے ہیں اور حکومت پاکستان کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں لیکن وہ بلوچوں کے حقوق کے بارے میں ہو گی۔ آپ اگلے روز واشنگٹن میں سردار اکبر خان بگٹی کی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے جس میں پاکستان کے سابق سفیر امریکہ حسین حقانی نے بھی حصہ لیا۔ جن کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان کے پاکستان کا حصہ رہنے کے حق میں ہیں لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچوں کے مسائل اور مصائب کی طرف بھی توجہ دے۔
مسٹر بگٹی نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور بات کرنے کو تیار‘ لیکن جو کچھ ہمارے اور حکومت کے درمیان طے ہو اس کی کوئی ضمانت بھی ہونی چاہیے کہ اس پر عملدرآمد بھی ہو گا اور یہ ضمانت آرمی چیف ہی دے سکتے ہیں۔ اب یہ تو طے ہے کہ نواز حکومت کبھی ایسا نہیں کرے گی اس لیے آرمی چیف کو خود اس کا تردد کرنا چاہیے تاکہ باغی طبقہ قومی دھارے میں شامل ہو سکے کہ یہ بھی ضرب عضب ہی کے مقاصد کا ایک حصہ ہیں۔
گیم چینجر سی پیک...!
حکومت لاکھ کہے کہ راہداری منصوبہ اطمینان بخش طریقے اور رفتار سے جاری ہے لیکن چھوٹے صوبوں کے تحفظات کا ابھی تک ازالہ نہیں کیا گیا جبکہ اس میں کرپشن اور سست رفتاری کے عناصر بھی نمودار ہو رہے ہیں جس کا چینی حکومت نے خود نوٹس لیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تجویز پیش کی گئی تھی کہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اور کچھ مخالف طاقتیں اسے سبوتاژ کرنے کے بھی درپے ہیں اس لیے اسے توڑ چڑھانے کے لیے ایک بااختیار مانیٹرنگ اتھارٹی قائم کی جائے جس کی فوج کی طرف سے تعاون اور ذمہ داری لینے کی پیشکش بھی کی گئی تھی لیکن اسے سرکاری سطح پر اس لیے پذیرائی حاصل نہ ہوئی کیونکہ حکومت چونکہ اس کی بنیاد پر آئندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے اس لیے اس میں کسی اور فریق کو شامل کرنا پسند نہیں کرتی‘ بھلے یہ منصوبہ مکمل ہو نہ ہو۔ واضح رہے کہ اورنج لائن ٹرین اور 22 ارکان اسمبلی کو پوری دنیا کی سیر کے لیے بھیجنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
اعترافات
میں کم علمی یا بے دھیانی کی وجہ سے بعض اوقات غلطی بھی کر جاتا ہوں مثلاً ایک مصرع میں اکثر غلط لکھ جاتا تھا جبکہ اگلے روز برادرم ارشاد عارف کے ایک کالم میں دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ میں اسے اب تک غلط لکھتا رہا ہوں اصل مصرع اس طرح تھا ع
عدو شّرے برانگیزد کہ خیرمادرآں باشد
جبکہ میں عدو کی بجائے خدا لکھتا رہا ہوں۔ اسی طرح پچھلے دنوں میں نے ایک مصرع اس طرح لکھا تھا ع
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے سامان اُتارا کرتے ہیں
بعد میں مجھے خیال آیا کہ سامان کی بجائے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں‘ زیادہ درست ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کالم لکھتے وقت کوئی نام بھول جاتا ہوں چنانچہ اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا کرتا ہوں۔ بعد میں یاد آ جائے تو فون کر کے لکھوا دیا کرتا ہوں‘ اور اگر یاد نہ آئے تو درخواست کرتا ہوں کہ یہ خانہ پُری خود ہی کر لیں!(اسی طرح میں نے اگلے روز ''برا منایا‘‘ تو محبی سید انیس شاہ گیلانی نے فون پر مجھے بتایا کہ ''منایا‘‘ کی بجائے ''مانا‘‘ لکھنا چاہیے تھا۔ میں ان کا بھی شکر گزار ہوں)۔
ساجد رضا
جھنگ سے ساجد رضا کے یہ شعر موصول ہوئے ہیں جو سیدھے سادھے بھی ہیں اور مزیدار بھی‘ آپ بھی دیکھیے ؎
ہم نے روز کا آنا جانا چھوڑ دیا
اُس سے ملنا اور ملانا چھوڑ دیا
تیری خاطر میں یہ بھی کر سکتا ہوں
میں نے اپنا عشق پرانا چھوڑ دیا
میرے اندر باہر میری آنکھیں ہیں
خود کو تیرے خواب دکھانا چھوڑ دیا
پہلے بھی ایک بار لکھا تھا کہ میں نے شاعری چھوڑ رکھی ہے لیکن جیسے چور چوری چھوڑ دیتا ہے لیکن ہیراپھیری نہیں چھوڑتا‘ سو میں بھی کبھی کبھار یہ ہیراپھیری کر لیا کرتا ہوں‘ اس لیے اسے شاعری بے شک نہ سمجھا جائے :
اگرچہ مُہر بہ لب ہوں‘ سُنائی دے رہا ہوں
کہ ہوں کہیں بھی نہیں اور دکھائی دے رہا ہوں
یہ جانتا ہوں کہ یاد آئوں گا بہت اک دن
میں اپنے آپ کو زخم جدائی دے رہا ہوں
میں فصل بیجتا ہوں اپنی ہی زمیں پہ‘ مگر
وہ کون ہے جسے اس کی بٹائی دے رہا ہوں
وہ کم نُما ہے تو آنکھوں کی روشنی ساری
خوشی خوشی میں اُسے مُنہ دکھائی دے رہا ہوں
جگہ تو دل میں بچی ہی نہیں کوئی باقی
تو اس میں کیوں ترے غم کو سمائی دے رہا ہوں
گناہگار سمجھنے لگے ہیں لوگ مجھے
میں جب سے اتنی زیادہ صفائی دے رہا ہوں
یہ لین دین ہے میری سمجھ سے ہی باہر
کہ زہر پھانکتا ہوں اور مٹھائی دے رہا ہوں
ابھی میں خود بھی جہاں تک پہنچ نہیں سکتا
مسافروں کو وہاں تک رسائی دے رہا ہوں
چمن سے جا بھی چکا ہوں‘ ظفرؔ مگر اب تک
خراج نالہ و نغمہ سرائی دے رہا ہوں
آج کا مطلع
اب کے اُس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
پائوں پر پائوں جو رکھنا تو دبا بھی دینا