قوموں کے مابین فوجی معاہدے راتوں رات طے نہیں پا جاتے۔یہ ایک طویل عمل ہوتا ہے۔جس میںد ونوں ملک اپنے اپنے مفادات اور ضروریات کا ہمہ پہلو جائزہ لیتے ہیں۔ امکانات‘ مضمرات اور اس کے ایک ایک نکتے پر‘ باریک بینی سے غور کرتے ہیں۔ خطے اور دنیا بھر کے تمام ملکوں کے ساتھ‘ اپنے اپنے تعلقات میں تضادات اور ہم آہنگی کی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔اس کی مثال بھارت اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ ہے۔بھارت جب آزاد ہوا‘ اس وقت دنیا دو بڑے بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی۔ بھارت‘ سوویت یونین کا قریبی اتحادی تھا لیکن اس کے باوجود وہ‘ امریکہ کے ساتھ اپنے ممکنہ تعلقات کے امکانات کا بھی مطالعہ کر رہا تھا۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ روس کا اتحادی ہونے کی وجہ سے‘ بھارت نے امریکہ کے ساتھ محاذآرائی کا راستہ اختیار کیا ہو۔ لیکن پاکستانی قیادت نے اس کے برعکس کیا۔امریکہ سے فرسودہ اسلحہ لے کر‘سوویت یونین کے خلاف‘ ہمیں کرائے کا اتحادی کا بنا دیا گیا اور جہاں بھی امریکی مفادات کا تقاضا ہوتا‘ پاکستان‘ سوویت یونین کے خلاف محاذآرائی میں شریک ہو جاتا۔ شرق اوسط میں جو مسلمان ملک‘ سوویت یونین کا اتحادی بنتا‘ ہم بلاوجہ اس کے ساتھ اپنے تعلقات کشیدہ کر لیتے۔اس کی مثال طویل عرصے تک مصر کے ساتھ ہمارے باہمی تعلقات تھے۔ جمال ناصر کے زمانے سے مصر‘ سوویت بلاک کا قریبی اتحادی تھا۔ ہماری حکومتوں نے بلاجواز اس کے ساتھ کشیدگی پیدا کر لی‘ جو طویل مدت تک برقرار رہی۔ آج مصر ‘ا مریکہ کا فوجی اتحادی بن چکا ہے‘ ماضی میں پیدا کردہ ہماری کشیدگی کے اثرات میں ابھی تک کمی نہیں آئی۔ مصر کے ارباب اقتدار‘ ہمیں شک و شبے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔یہ مثال ظاہر کرتی ہے کہ ہر ملک کی انتظامیہ کے رویے ‘افراد کے ردو بدل سے تبدیل نہیں ہوتے۔ریاستی انتظامیہ مختلف شعبوں میں تقسیم ہوتی ہے جنہیں ہم وزارتی شعبے یا ڈائریکٹوریٹ کہتے ہیں۔ ہر شعبے کے پاس کسی بھی ملک کے ساتھ باہمی تعلقات کا ایک ریکارڈ ہوتا ہے۔ زیادہ اہلیت رکھنے والے ملکوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ جیسے پاکستان اور بھارت کے تعلقات دونوں ملکوں کی خارجہ وزارتوںمیں ایک ایک موضوع کا تفصیلی ریکارڈ تجزیوں اور تجربوں سمیت موجود ہوتا ہے۔ہر نیا آنے والا افسر پرانے ریکارڈ اور اپنے سینئرز کی بریفنگ کی روشنی میں‘ اپنا ذہنی رویہ تشکیل دیتا ہے‘ جسے دفتری زبان میں مائنڈ سیٹ کہتے ہیں۔
خارجہ امور کے ماہرین اپنے تجربے اور اس کے تسلسل کی روشنی میں‘ زیر مطالعہ ملک کے ساتھ‘ تعلقات کے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنی وزارت کے متعلقہ شعبے کے ماہرین کے ساتھ صلاح و مشورہ کر کے‘ا پنے ردعمل کا تعین کرتے ہیں۔یہ نہیں ہوتا کہ وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کسی ملک کے اقدام پر بلاتاخیر‘ جوابی اقدام یا بیان کا فیصلہ کر لے۔ متعلقہ وزارت کی مشینری ہر اقدام اور ہر پیش قدمی پر جوابی اقدام کے لئے‘ متعدداور متبادل تجاویز تیار کرتی ہے اور پھر وزارت کے اعلیٰ افسران‘ وزیر خارجہ یا وزیراعظم کے لئے تجاویز پیش کرتے ہیں اور پھر کہیں یہ طے ہوتا ہے کہ جوابی اقدام کیا ہو؟
مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہمارے ملک کی وزارت خارجہ(بے شک اس میں کہنہ مشق ماہرین موجود ہوں) فوری ردعمل تیار کر لیتی ہے۔ بھارت خوب سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت ‘جس شعبے میں پہل کرتا ہے‘ ہم عموماً اچانک کسی نئی صورت حال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ایسی مثالوں سے فائلیں بھری پڑی ہیں کہ بھارت نے اچانک کبھی پہل کی اور ہمارے لئے نئی صورت حال پیدا ہو گئی‘ جس کے لئے ہم تیار نہیں تھے۔ایسی ان گنت مثالیں بھی موجود ہیں کہ پہل ہم نے کی اور سرپرائز بھارت نے دے دیا۔1965ء کی جنگ میں ہم نے مقبوضہ کشمیر میںاپنی دانست میں گوریلا جنگ لڑنے والے جنگجو ‘خفیہ طور سے بھارت میں داخل کئے تاکہ وہاں کے عوام کو ساتھ ملا کر‘ قابض بھارتی افواج کے خلاف کارروائیاں کریں لیکن مقبوضہ کشمیر میں ‘ ہم نے جس مقامی شخص سے بھی رابطہ کیا‘ اس نے رازداری سے یہ راز بھارتی حکام تک پہنچا دیا اورہمارے جنگجو پکڑے گئے۔ چند روز کے بعد‘ ہمارے لئے حیرانی کے لمحات شروع ہو گئے‘ جب ہمیں بھارتی ریڈیو سے پتہ چلتا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے نرغے میں ہوں۔
ہمارے منصوبہ سازوں کو اپنے تجربے کی ناکامی کا پھر بھی اندازہ نہ ہوا اور انہوں نے جموں کے محاذ پر‘ دریائے توی پار کرنے کے لئے باقاعدہ فوج کشی کر لی۔ ہمارے فوجی دستے جب منصوبے کے تحت‘ خفیہ طور سے بھارتی علاقے میں داخل ہو کر‘ بغیر کسی مزاحمت کے بڑھتے چلے گئے‘ تب انہیں پتہ چلا کہ بھارت کی طرف سے بھر پور مزاحمت شروع ہو گئی ہے۔ اعلیٰ سطح پر رپورٹیں موصول ہوئیں کہ بھارت‘ کشمیر کے محاذ پر فیصلہ کن جنگ لڑنے کی تیار کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ آزاد کشمیر کے بڑے حصے پر بھی قبضہ کر لیا جائے۔ بھارت ان دنوں بھی سوویت بلاک کا حصہ تھا لیکن کشمیر کے تنازعے میں وہ‘ امریکہ کا درپردہ حامی رہا۔ یو این کے تمام مباحثوں اور قرار دادوں کی تیاری اور تدوین کے دوران‘ امریکہ بظاہر ہمارا ہمدرد رہا لیکن حقیقت میں وہ‘ بھارت کی مدد کرتا رہا۔آج صورت حال یہ ہے کہ امریکہ‘ بھارت کی طرف طویل جھکائو کے بعد‘ برملا اس کا فوجی اتحادی بن چکا ہے۔گزشتہ روز دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی فوجی تنصیبات اور سازو سامان کے متعلق ایک اہم فوجی معاہدے پر دستخط کئے۔ اس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر‘ فوجی سازو سامان کی مرمت‘ فراہمی اور ایندھن بھرنے کا راستہ کھول دیں گے۔ اس معاہدے کا اعلان امریکہ کے دورے پر آئے بھارتی وزیر دفاع‘ منوہر پارکر اور امریکی وزیر دفاع‘ ایشٹن کارٹر کی ملاقات کے بعد‘ ایک مشترکہ بیان میں کیا گیا۔ اس معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے ایشٹن کارٹر نے بتایا کہ اس معاہدے سے دونوں ملکوں کی فوجوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ دونوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس معاہدے سے کسی بھی فریق کو ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر‘ فوجیوں کو تعینات کرنے کی اجازت ہو گی۔ بھارت میں یہ معاملہ سیاسی طور سے کافی نازک رہا ہے اور اس معاہدے کی کوشش قریباً ایک دہائی سے کی جا رہی تھی۔ پاکستان کے وہ ماہرین جنہوں نے چٹکی بچاتے ہی امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدے کر لئے اور امریکہ کے چھوٹے سے اہلکار کے ٹیلی فون پر ایک خونخوار جنگ میں کود پڑے۔جس سے آج بھی نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔بھارتی چال بازیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ حالیہ معاہدے کے دوران بائیں بازو کی جماعتیں اس معاہدے کے خلاف رہیں اور روس نواز کانگرسی حکومت اسے ٹالتی رہی۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے تحت‘ بھارت اپنی غیر جانبداری کی پالیسی سے ہٹ رہا ہے۔لیکن یہ مرحلہ گزشتہ دس سال کی مسلسل سفارت کاری کے نتیجے میں ہوا ہے اوران دس سالوں کے دوران‘ بھارت اور امریکہ کے فوجی تعلقات میں کافی گرم جوشی دیکھنے میں آئی۔بھارت کو فوجی سازوسامان کا سب سے بڑابرآمد کنندہ امریکہ ہے اور بھارت اب تک غیر جانبدار رہتے ہوئے بھی‘ تقریباً 14ارب ڈالر کا فوجی سازو سامان خرید چکا ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے ۔ بھارت اس کا بھی فوجی اتحادی بن چکا ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہدف۔ہمارے ہاں کوئی بھی عوامی یا حکومتی ادارہ‘ خارجہ پالیسی کے کسی بھی شعبے پر غوروفکر اور مشاورت کے لئے مخصوص نہیں۔ امریکہ اور بھارت کا فوجی معاہدہ ‘ ہمارے لئے غیر متوقع اقدام ہے۔ چین ہمارا آزمودہ اتحادی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ جدید دور میں اتحادی ہونے کا مطلب کیا ہوتاہے؟ ہم امریکہ کے جھانسے میں آکر‘ اس کے لئے کرائے کے جنگجو کا کردار ادا کرتے رہے لیکن ہمیں اب بھی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ اپنے دفاع کو کسی بڑی طاقت کے بھروسے پر چھوڑ دینا ‘محض حماقت ہوتا ہے۔چین اپنے مفادات کی حد تک ہی‘ ہمارا ساتھ دے سکتا ہے۔امریکہ اور بھارت کے فوجی معاہدے کو چین آج کے بعد نئے انداز سے دیکھے گا۔ہم آج بھی امریکی تالاب کے پانیوں میں مچھلیاں ڈھونڈ رہے ہیں۔اس تالاب میں بے سود ڈبکیاں ہی ملیں گی۔ جو ملک کسی تیاری کے بغیر‘ کوئی مقصد حاصل کرنے پر اپنی حیثیت سے زیادہ مالی اور انسانی وسائل جھونک دیتا ہو‘ اسے پاناما لیکس کے سوا کیا مل سکتا ہے؟