تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     31-08-2016

پردیس میں ناصبور ہے تو

گھر والوں کو چاہیے کہ جلدی کریں۔ دیر ہو رہی ہے۔ دُھلے ہوئے کپڑے نکالیں تاکہ تبدیل کروں، راستے کے لیے کھانا ساتھ دیں۔ ہم جب آبائی بستیوں میں مقیم تھے تو سفر پر جاتے ہوئے پراٹھے اور انڈوں کا خاگینہ کپڑے میں باندھ کر ساتھ رکھ لیتے تھے۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ بیٹی سینڈوچ تیار کر رہی ہے۔ 
جانا ہے اور لازماً جانا ہے۔ اظہارِ افسوس کے لیے، کاش آج کی نسل کو بھی معلوم ہوتا کہ کچھ مواقع پر دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کے پاس حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سماجی فرض ہے اور معاشرتی پابندی! دیہات کے کلچر میں کیا حُسن ہے۔ گائے بھینس مر جائے، تب بھی افسوس کے لیے جاتے ہیں۔
لیکن مجھے ایک اور ہی سلسلے میں جانا ہے۔ دل قلق سے بھر گیا ہے۔ یوں لگتا ہے زخم ہے جو اندر ہی اندر رِس رہا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اندر سے ہوک اٹھتی ہے۔ میں نے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما جناب اسفند یار کی خدمت میں حاضر ہونا ہے، اظہارِ افسوس کے لیے۔ ان سے گلے ملوں گا تا کہ سینہ چاک باہم اکٹھے ہو جائیں۔
افسوس کرنا ہے کہ وہ افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ افغانستان سے دور ہیں! ان کی حالت عبدالرحمن اول جیسی ہے۔ وہ ہسپانیہ میں حکومت کرنے گیا۔ وہاں کھجور کا درخت بویا تو اسی سے ہجر کا دُکھ بانٹنے بیٹھ گیا ؎
پردیس میں ناصبور ہوں میں
پردیس میں نا صبور ہے تو
یہاں کھجور کا درخت تو نہیں ہے مگر مشابہت اس لحاظ سے مکمل ہے کہ اسفند یار صاحب کا خاندان پاکستان میں حکومت کرتا رہا ہے۔
اظہارِ افسوس کے علاوہ میں نے اپنے پسندیدہ لیڈر کو اپنی خدمات بھی پیش کرنا ہیں۔ مشورہ دینا ہے کہ حضور! آپ افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے تو افغانستان کون سا دور ہے۔ یہاں کے کام دھندے چھوڑیے فوراً روانہ ہو جائیے۔ سامان باندھنے کے لیے بندہ حاضر ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے، بار بار نہیں ملتی۔ وہ بھی کیا زندگی جو حسرت میں کٹ جائے، ارمان پورے نہ ہوں۔ مانا کہ پاکستان افغانستان کی نسبت اتنا ہی زیادہ ترقی یافتہ ہے جتنا پاکستان کے مقابلے میں یورپ، جو سہولیات یہاں حاصل ہیں ان کا آپ کے ''اپنے‘‘ ملک میں تصور بھی محال ہے مگر وطن کی مٹی کے لیے ترس رہے ہیں تو پاکستان کو لات ماریے اور افغانستان جائیے۔ یہاں آپ کے اعزہ میں کوئی وزیر اعلیٰ رہا، کوئی وفاقی وزیر، کوئی سینیٹر ہے مگر جو کچھ آپ کو افغانستان میں ملے گا، اس کے مقابلے میں پاکستان آپ کو کیا دے سکتا ہے! جیسے ہی آپ سرحد پار کریں گے، افغان حکومت، افغان طالبان، امرا، عمائدین، عوام، سب آپ کے استقبال کے لیے پھولوں کے ہار لے کر کھڑے ہوں گے اور کہیں گے صبح کا بھولا شام کو گھر آیا ہے۔ جی آیاں نوں! شہرِ کابل کی چابیاں آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔ غزنی، قندھار، ہرات، جلال آباد کی گورنری آپ کے خاندان کو سونپی جائے گی۔ اپنا ملک، اپنا ملک ہی ہوتا ہے۔
بس وہاں ایک چھوٹا سا مسئلہ درپیش ہو گا۔ آپ افغان ہیں مگر مشکل یہ ہو گی کہ وہاں یعنی افغانستان میں تو تاجک بھی افغان ہیں۔ ازبک بھی افغان ہیں۔ بامیان کے ہزارہ بھی افغان ہیں۔ بہت آسان، بہت موٹا یعنی جاٹواں نکتہ جناب کے ذہنِ رسا میں نہیں سما سکا کہ پختون اپنی قوم افغان لکھتے تھے۔ بجا، مگر یہ اُس وقت سے چلا آ رہا تھا جب افغانستان ملک نہیں تھا۔ یہ ایک کھلا خطہ تھا۔ کبھی وسط ایشیا کے تحت، کبھی مغلوں کے ہندوستان کا حصہ، کبھی ایرانیوں کی اقلیم کا جزو۔ اس وقت پختون، جہاں بھی تھا، افغان قوم لکھتا تھا۔ کابل میں رہنے والا ازبک افغان نہیں تھا، ازبک تھا۔ بدخشاں میں رہنے والا تاجک افغان نہیں تھا، تاجک تھا۔
بامیان کا ہزارہ، افغان نہیں تھا، ہزارہ تھا۔ مگر جناب کی اطلاع کے لیے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں نیا ملک افغانستان کے نام سے وجود میں آ گیا۔ اب افغان وہ ہے جو افغانستان کا ہے۔ اب ازبک بھی افغان ہے، ہزارہ بھی افغان ہے، ترکمان بھی افغان ہے اور تاجک بھی افغان ہے۔ وہ آپ کو افغان کیوں مانیں گے؟ کیا دوستم آپ کو افغان مانے گا؟ نہیں، کبھی نہیں! آپ خود اگست 1947ء سے پہلے ہندوستانی تھے مگر اب نہیں ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، آپ پاکستانی ہیں۔ افسوس! یہی دُکھ تو کھائے جا رہا ہے۔
مگر آپ نہیں جائیں گے! جو افغان یہاں آئے ہیں، جو آپ کی یک طرفہ منطق کی رُو سے آپ کے ہم وطن ہیں، وہ بھی نہیں جا رہے۔ اس لیے کہ پاکستان سے محبت ہو یا نہ ہو، پاکستان سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔ افغان یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ مہاجرت کا لیبل لگا کر مقامی لوگوں کو ہر معاشی سرگرمی سے باہر نکال رہے ہیں۔ پاکستان ان کے لیے دبئی ہے، امریکہ ہے، یورپ ہے مگر وہ رہیں گے افغان! پاکستان کو نہیں اپنائیں گے! میٹھا میٹھا ہپ! ماں اچھی نہیں لگتی مگر دہی کے ساتھ جو روٹی دیتی ہے، وہ روٹی بہت اچھی لگتی ہے۔
صرف پختون سرحد کے دونوں طرف نہیں، باقی گروہ بھی منقسم ہیں۔ پنجابی بھارت میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی۔ سندھی سرحد کے دونوں طرف ہیں۔ تو کیا وہ جو یہاں ہیں، کبھی اپنے آپ کو انڈین کہتے ہیں؟ بلوچی ایران میں بھی ہیں مگر جو بلوچی پاکستان میں ہے وہ پاکستانی ہے۔ افسوس! آپ پاکستانی نہ ہو سکے۔ افغانستان کے تاجک، ہزارہ، ترکمان افغان بن گئے، آپ ابھی تک پاکستانی کہلانا پسند نہیں فرماتے! زخم ہے کہ بھرتا ہی نہیں! رِس رہا ہے اور مسلسل رِس رہا ہے۔ ریفرنڈم میں خیبرپختونخوا کے عوام نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے کر آپ کے خاندان پر ایسا زخم لگایا جسے آپ بھول ہی نہیں پا رہے۔
مگر جناب اسفند یار، ایک بات ضرور یاد رکھیے، پاکستان میں رہنے والے پختون صرف اور صرف پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو سروے کرا لیجیے۔ فاٹا ہے یا وزیرستان، سوات ہے یا مردان، کوہاٹ ہے یا بنوں، پاکستانی پختون اول آخر پاکستانی ہے۔ جو محبت پاکستان سے پٹھانوں کو ہے، اس کی مثال کہیں اور موجود ہی نہیں۔ پختونوں میں بہادری ہے، مہمان نوازی ہے، جواں مردی ہے مگر تعصب نہیں۔ ورنہ لاہور کا عمران خان، پنجاب کے بجائے کے پی میں کیسے حکومت بناتا؟ حضور! آپ کن وقتوں میں رہ رہے ہیں؟ پاکستانی پختون کو معلوم ہے کہ وہ سرحد پار پختون کی نسبت بدرجہ ہا بہتر زندگی گزار رہا ہے۔
آپ جان بوجھ کر یہ حقیقت اپنے حافظہ سے کھرچنا چاہتے ہیں کہ پختونوں نے پاکستان کو اپنا خون دیا ہے۔ پختون بوڑھوں نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو پاکستان پر قربان کر دیا ہے۔ پختون مائوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے اس وطن کی نذر کیے ہیں۔ ان مائوں نے بیٹوں کی میتیں وصول کرتے وقت، اسفند یار صاحب! بخدا یہ کہا ہے کہ وہ اپنے باقی فرزند بھی مادرِ وطن پر نچھاور کر دیںگی۔ آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پاکستان کے پختون آپ کے ہم نوا نہیں، نہ ہو سکتے ہیں۔
تو کیا کرنل شیر خان شہید افغان تھا؟ کیا گلتری اور مشکوشی جہاں کرنل شیر خان شہید نے حفاظتی حصار کھینچے اور چوکیاں قائم کیں، افغانستان میں واقع ہیں؟ یہ تو پختون علاقہ بھی نہیں، یہ پاکستان تھا جس کے لیے اس نے ایسی دادِ شجاعت دی کہ بھارتیوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ انسان ہے یا مافوق الفطرت طاقت؟ افغانستان کرنل شیر خان کا پاسنگ بھی پیدا نہیں کر سکتا۔ کیا ہنگو کا اعتزاز حسن جس نے اپنی جان دے کر دو ہزار طلبہ کی جان بچائی، افغان تھا؟ آپ افغان ہیں تو افغانستان ہجرت کر جائیے مگر ہمارے شہیدوں کی توہین تو نہ کیجیے۔
اور ہاں! ایک کرم اور ضرور کیجیے گا! افغانستان سدھارتے ہوئے اچکزئی صاحب کو بھی لیتے جائیے گا کیونکہ ان کا پورے کا پورا خاندان، بلکہ دور کے رشتہ دار بھی اعلیٰ عہدوں پر پاکستان میں فائز ہیں مگر اس کے باوجود وہ افغان ہیں۔
واہ! دھرتی ماں کے وفادار سپوتو! واہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved