اس بھارتی شاعر کے کلام کی جستجو مجھے دیر سے تھی جو اب برادرم گلزار بخاری کے توسط سے میسر آیا ہے۔ اسے حق پبلی کیشنز اردو بازار لاہور نے چھاپا ہے اور جو اس معروف اور ممتاز شاعر کے ہرگز شایان شان نہیں ہے‘ کاغذ اور طباعت نہایت معمولی‘ پروف کی غلطیوں کی بھرمار ہے اور کئی غزلوں کی تکرار ہو گئی ہے اور قیمت400 روپے رکھی گئی ہے۔
یہ شاعر کے چار مجموعوں پر مشتمل ہے جن میں آمد‘ آسمان‘ امیج اور آہٹ شامل ہیں۔ غزلوں کی اس کتاب میں کوئی دیباچہ یا پس سرورق تحریر شامل نہیں ہے‘ ماسوائے شاعر کی تصویر اور مختصر تعارف کے‘ جس کے مطابق یہ چاروں مجموعے اردو اکیڈمی سے ایوارڈ یافتہ ہیں۔ انتساب مرحومہ قمر جہاں شہناز کے نام ہے‘ اس شعر کے ساتھ ؎
انہی راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مجھے روک روک پوچھا‘ ترا ہمسفر کہاں ہے
شروع شروع میں ڈکشن کو تبدیل کرنے کی بھی ایک کوشش نظر آتی ہے لیکن اگر شاعری دستیاب نہ ہو تو یہ ایک سعیِٔ رائیگاں ہی ہو کر رہ جاتی ہے۔ تاہم بشیر بدرؔ بھارت کے اہم غزل گوئوں میں شمار ہوتے ہیں‘ خاص طور پر مشاعروں کی رونق انہی کے دم قدم سے ہے۔ جگہ جگہ فنی نقائص بھی موجود ہیں‘ حتیٰ کہ وزن کی غلطیاں بھی۔ اس کے باوجود انہیں شعر کہنے کا سلیقہ خوب آتا ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے چند شعر دیکھیے!
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شعر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
کہیں آنسوئوں سے لکھا ہوا کہیں آنسوئوں سے مٹا ہوا
آنکھوں میں رہا دل میں اُتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
ایسا لگتا ہے کہ تو مجھ سے جدا ہو جائے گا
تیرے میرے درمیاں اب فاصلہ کوئی نہیں
اب بھی چہرہ چراغ لگتا ہے
بجھ گیا ہے مگر چمک ہے وہی
اک دوجے سے مل کر پورے ہوتے ہیں
آدھی آدھی ایک کہانی ہم دونوں
میں دہلیز کا دیپک ہوں‘ آ تیز ہوا
رات گزاریں اپنی اپنی ہم دونوں
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
خطا وار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
پہلے سے کچھ صاف نظر آئی دنیا
جب سے ہم نے آنکھوں پر پٹی باندھی
محبت‘ عداوت‘ وفا‘ بے رُخی
کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے
اب کسے چاہیں کسے ڈھونڈا کریں
وہ بھی آخر مل گیا اب کیا کریں
مری غزل کسی پردہ نشیں کا قصہ ہے
اگر سُنائوں تو بے پردگی سی ہوتی ہے
اُس موڑ پہ ہم دونوں کچھ دیر بہت روئے
جس موڑ سے دُنیا کو اک راستہ جاتا ہے
سب نظر کا فریب ہے ورنہ
کوئی ہوتا نہیں کسی کی طرح
جو پیاس تیز ہو تو ریت بھی ہے چادر آب
دکھائی دُور سے دیتے ہیں سب تمہاری طرح
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملنا تو ہاتھ بھی نہ ملا
یہ اشعار پہلے دو مجموعوں ''آمد‘‘ اور ''آسمان‘‘ سے لے گئے ہیں یہ ایک عجیب بات ہے کہ باقی دونوں مجموعوں میں سے کوئی ایسا شعر دستیاب نہیں ہوا جو میں آپ کی تواضع طبع کے لیے پیش کر سکوں۔ لگتا ہے کہ میری طرح‘ آدھی شاعری کرنے کے بعد وہ یہ کام ہی بھول گئے ہیں‘ البتہ دوسری دو کتابوں میں تعلّی اور خود ستائی تھوک کے حساب سے موجود ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ میرے پاس غالبؔ کے معیار کے اشعار غالب سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ممکن ہے وہ ٹھیک ہی کہتے ہوں کیونکہ ہمارا کہا ہوا بھی سند تو نہیں ہو سکتا۔
ایک مشہور شعر جسے ہم غالبؔ سے منسوب کرتے رہے ہیں وہ غالبؔ کا نہیں بلکہ ایک تحقیق کے مطابق قربان علی سالک کا ہے جن کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا اور دورانیہ 1824ء تا 1880ء تھا۔
تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے
اور اب داجل سے احمد جہانگیر داجلی کے یہ اشعار جو ہمیں نیٹ سے دستیاب ہوئے ہیں:
کسی نے پائوں کیا مجھ میں بھگوئے
خوشی میں پُل سے اُوپر بہہ رہا ہوں
تیرے پیروں تلے جو آ رہے ہیں
پُھول پُھولے نہیں سما رہے ہیں
جانے کب چھوڑ دوں فلک کی طرف
جانے کب سے کماں پہ ہے دُنیا
کب مجھے اپنے گھر میں آنا تھا
یہ کسی اور نے بتانا تھا
ہے مرے دونوں طرف کھائی، مجھے دُور سے دیکھ
دور سے دیکھ مرے بھائی‘ مجھے دور سے دیکھ
یہ نہیں رہنے کی جا‘ چلتا بن
آنے والوں کو بتا‘ چلتا بن
میں اگر کسی دوست کے درج کردہ شعر میں غلطی کی نشاندہی کرتا ہوں تو اس کا مقصد اس کی توہین یا دل سوزی ہرگز نہیں ہوتا‘ بیشک کسی کو ناپسند ہی گزرے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ شعر تو اس قدر لطیف چیز ہے کہ اس کی درستی ایک نیک کام کی طرح کرنی اور شکریے کے ساتھ وصول کرنی چاہیے۔ غلطیاں میں خود بھی کرتا ہوں لیکن میں بیشک عروض پڑھا ہوا نہیں ہوں اور اٹکل ہی سے کام لیتا ہوں‘ تاہم میرے شعر میں وزن کی فاش غلطی نہیں ہو سکتی۔ پروف میں اگر کوئی غلطی رہ جائے تو الگ بات ہے۔
آج کا مقطع
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر، ظفرؔ
سوراخ اُسی قدر ہیں پُرانی جُراب میں