تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     31-08-2016

جدید انسان کی عمراہم ہے یا صلاحیت؟

تحقیق کرنے والا آدمی نتائج کو تحریری شکل میں ایک ڈائری میں نوٹ کرتا رہا۔اس نے لکھا : مختلف رنگ و نسل ، ہر قد کاٹھ اور شکل و صورت کا جدید انسان (ہومو سیپین سیپین ) کرئہ ارض کے ہر قابلِ سکونت خطے پر پایا جاتاہے ۔ سیپین لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ''عقل والا‘‘۔ یوں ہومو سیپین سیپین کا مطلب ہے ''عقل مند، عقل مند انسان‘‘ یعنی انتہائی عقل مند آدمی۔باقیات کے مشاہدے کا علم (فاسلز) یہ بتاتا ہے کہ جنوبی ایتھوپیا سے ملنے والی ''اومو باقیات‘‘(Omo Fossils) سب سے قدیم ہیں ۔ ان پہ یقین کیجیے تو جدید انسان کی عمر دو لاکھ سال ہے لیکن دویا ڈیڑھ لاکھ سالہ قدیم انسان جسمانی طور پر بالکل ہم جیسا نظر آنے کے باوجود اپنے رویے میں ہم سے مختلف تھا۔
یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں کبھی ایسے فاسلز دریافت ہوں ، جن سے یہ انکشاف ہو کہ جدید انسان تو دو لاکھ سال سے بہت پہلے سے زمین پہ موجود تھا۔ عین ممکن ہے کہ سائنسی دنیا کے کچھ نامور دماغ 195,000سال قدیم جنوبی ایتھوپیا میں Kibishسے ملنے والی باقیات کی صحت کو مشکوک قرا ر دیتے رہیں۔ اس سے مگرفرق کیا پڑتا ہے ؟اصل اہمیت کی اور غیر متنازعہ بات یہ ہے کہ آج کا انسان کیا ہے اور کیا کر رہا ہے ۔اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ ہومو سیپین سیپین ایسا کیوں ہے ؟ انسانی عمر پر متنازعہ فاسلز پہ جھگڑنے کی بجائے، دیکھنا یہ چاہیے کہ ہمارے سامنے موجود نتائج کیا ہیں ۔ وہ یہ ہیں کہ زمین کی تاریخ میں اس پر آباد رہنے والی پانچ ارب انواع میں سے ایک، بنی نوعِ انسان دوسرے سبھی جانداروں سے مختلف ہے ۔ان سب پہ وہ غالب ہے ۔ زمین کی تاریخ میں پہلی بار ایک جانور (انسان ) کی سرگرمیاں کرئہ ارض کو ہر لحاظ سے متاثر کر رہی ہیں ۔ زمین کی تاریخ میں پہلی بار ایک جاندار دوسروں کے برعکس محض خالی خالی نظروں سے کائنا ت کا مشاہدہ کرنے کی بجائے اسے گہرائی میں اتر کے پرکھ رہا ہے۔ پہلی بار ایک ایسا جاندار وجود میں آیا ہے ، جو یہ جانتاہے کہ سورج کے مرکز میں کیا ہو رہا ہے ۔ جوکائنات کو صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ اس پہ تبصرہ بھی کرتاہے ۔ جو نظر نہ آنے والے بلیک ہولز کی ہیبت ناک قوت ناپ سکتاہے ۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ ہماری کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول اتنا طاقتور ہے کہ ہمارے چالیس لاکھ سورج کے برابر قوت اس میں موجو دہے ۔ پہلی بار ایک جاندار (انسان ) کروڑوں برس پرانے فاسلز کا مشاہدہ کرکے اس کی عمر بتا سکتااور اس کے طرزِ زندگی ، ہلاکت کی وجہ پہ رائے زنی کر سکتاہے ۔ زیرِ زمین دفن قیمتی دھاتیں، توانائی کے ذخائر وہ نکالتا چلا جا رہا ہے ۔ وہ ہر قسم کے پیچیدہ اوزار بناتا ہے ۔ ایکس ریز، الٹرا سائونڈ جیسی شعاعوں اور لہروں کی مدد سے وہ کائنات کا جائزہ ہی نہیں لیتا ،انہیں طب میں بھی استعمال کرتاہے ۔ وہ ایک ایسی گول چیز (پہیہ) بناتا ہے ، جو کششِ ثقل کے تحت خود اپنے ہی وزن پہ گھومتی چلی جاتی ہے اور یوں وزن اٹھانے میں مددگار ہے ۔ اس پر وہ لوہے کا انجن لگاتا، تیل سے اسے توانائی دے کر دوڑاتا ہے ۔زمین کی اپنی طرف کھینچنے والی کشش کو توڑ کر ہوا میں اڑنا وہ جانتاہے ۔وہ مصنوعی پر لگا کر ہوا میں تیرتا اور اسے پیرا گلائیڈنگ کا نام دیتاہے ۔ہزاروں میل کے سفر اس نے سمیٹ دئیے ہیں ۔ لہروں اور شعاعوں سے کام لیتے ہوئے، کرئہ ارض کے ایک سرے پہ بیٹھا آدمی دوسرے سرے پہ 
موجود شخص تک ڈیٹا بھیجتا ہے ۔ ہزاروں میل کی دور پر وہ دونوں آپس میں بات چیت کرتے،لیپ ٹاپ پر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ۔یہی نہیں ، وہ چا ر لاکھ کلومیٹر دور واقع چاند پہ جا اترا ہے ۔ وہ زمین سے راکٹ اڑاتا ہے اورآلات کو نظامِ شمسی کے سب سے دور دراز سیاروں تک بھیجتا ہے ۔ یہی نہیں ، معلوم کائنات میں صرف انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے ، جس کا بھیجا ہوا مشن (voyager 1)اپنے ستارے (سورج)کے دائرئہ اثر سے باہر نکل چکا ہے ۔ اس کے باوجود وہ ڈیٹا واپس بھیج رہا ہے ۔ پہلی بار ایک جانور کائنات کا مطالعہ کر رہا ہے ۔ کائنات جن اصولوں کے تحت کام کرتی ہے ،وہ انہیں سیکھتا چلا جا رہا ہے ، ایک دوسرے کو سکھاتا چلاجا رہا ہے ۔ یہ پیٹ بھرنے سے بہت آگے کی بات ہے ۔ یہ دو ٹانگوں والا جانورنظر نہ آنے والی کششِ ثقل پہ کتابیں لکھتاہے ؛حتیٰ کہ متوازی طور پر کئی کائناتوں کا نظریہ پیش کرتاہے ۔ 
لندن میں ایکسیڈنٹ کا شکار ہونے والا جب مد د مانگتا ہے تو پاکستان کے کال سینٹرمیں بیٹھا آدمی ایمبولینس والے کو اطلاع پہنچاتا ہے ۔کرّ ئہ ارض کی تاریخ میں پہلی بار ایک جانور مفید پودے اگانے لگا ہے ۔ اس نے تیزی سے بڑھنے والی فصلیں اور تیزی سے نسل بڑھانے والے دوسرے جانوروں کو پالنا شروع کیا ہے ۔ دیگر جانور اپنی بھوک مٹانے کے لیے پہلے سے موجود پودوں کو کھاتے ہیں یاوہ دیگر جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں ۔ کبھی ایک جانور کو معاہدے کے تحت دوسرے جانور کا کل وقتی ملازم بنتے نہیں دیکھا گیا۔ انسان مستقل معاہدے کے تحت ایک دوسرے کی غلامی قبول کرتاہے ۔ کبھی کسی جانور کو اپنے پاس موجود اشیا دوسرے جانور کی اشیا سے تبادلہ کرتے نہیں دیکھا گیا۔ انسان نے بارٹر کے بعد کرنسی رائج کی۔ اب ترقی یافتہ ممالک میں ساری معاشی سرگرمیاں ایک ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ہوتی ہیں ۔ انسان اشیااور خدمات کا تبادلہ کرتے ہی نہیں ،کرتے، وہ علم کا تبادلہ بھی کرتے ہیں ۔ جو بات ایک انسان کو معلوم ہوئی ، گویا وہ پوری انسانیت کو معلوم ہو گئی ۔ آج اگر ہم یہ جانتے ہیں کہ اس خطہ ء ارض کے نیچے تیل موجود ہے یا لیزر کے ذریعے گردے میں پتھری کو کیسے توڑا جا سکتاہے ۔ آج اگر ہم اپنے جسم کے اندر کیمرہ داخل کر کے خرابی دیکھ سکتے ہیں۔ آج اگر ہم لوہے کے جہاز پر ہوا میں اڑتے ہیں تو اس کا بنیادی سبب انسانوں میں علم کا تبادلہ ہے ۔یہ سب دیکھتے ہوئے، اس بات کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے کہ انسانی عمر ڈیڑھ لاکھ سال ہے یا دو لاکھ ۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ انسانی و حیوانی دماغ میں کیا فرق ہے اور اس فرق کا محرک کیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کا ذہن باقی جانوروں سے اس قدر مختلف کیوں ہے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved