میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ جمہوری ملکوں میں مذاکرات کا عرصہ کئی کئی سال ہوتا ہے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان ادارہ جاتی مذاکرات ‘دس سال کے طویل عرصے کو محیط رہے۔ اس دوران حکومتی سطح پر باہمی بدمزگی پیدا ہوئی اور کشیدگی بھی۔ لیکن دونوںٹیمیں اپنے اہداف کو سامنے رکھ کر ‘ قدم بقدم ان کی طرف بڑھتی رہیں‘ جو ان کے سپرد کئے گئے تھے۔ پیش قدمی جاری رہی۔ کسی ٹیم نے دائیں بائیں مڑ کر نہیں دیکھا کہ حکومتی معاملات کیسے چل رہے ہیں؟ ادارہ جاتی مذاکرات کے لئے‘ جو غیرمتزلزل ہدف دیا گیا تھا‘ اس میں کسی بھی مرحلے پر بال برابر فرق نہیں آیا۔ وہ اپنی اپنی جگہ جو ہدف لے کر بیٹھے تھے‘ اس کی طرف بڑھتے رہے۔ حکومتوں نے اپنے لئے جو اہداف مقرر کئے تھے‘ ان کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ مختلف بیانات جاری ہوتے رہے۔ لیکن جو چیز مستقل رہی‘ وہ تھا یہ الزام کہ پاکستان ان دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا خاتمہ کرے‘ جو مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے جب بھی موقع ملا‘ امریکہ کے غیرمتزلزل مطالبے میں کبھی فرق نہیں آنے دیا۔ امریکہ اور بھارت جس دوسرے مقصد کے حصول کی طرف ‘کسی لغزش کے بغیر پیش قدمی کرتے رہے‘ وہ تھا ان کا مشترکہ نشانہ‘ جس کی طرف بڑھنے کے لئے انتہائی اعلیٰ سطح پر‘ مذاکرات کے دور ‘تسلسل سے جاری رہے۔ دہلی اور واشنگٹن دونوں نے‘ اسے سٹریٹجک تعاون کا درجہ دیا اور ان مذاکرات میں جو موضوعات زیربحث آتے رہے‘ ان کی ایک بوند بھی دونوں ملکوں کے حساس معاملات تک ‘رسائی حاصل کرنے والی کسی ٹیم تک نہیں پہنچی۔ ان خفیہ اعلیٰ سطحی مذاکرات کا موضوع مسلسل یہ رہا کہ ''پاکستان ‘ دہشت گرد گروہوں کو محفوظ ٹھکانے مہیا کرتا ہے۔‘‘
پاکستان اس حوالے سے جو بھی دعوے کرتا رہا ہو‘ بھارت اور امریکہ دونوں اتفاق رائے کے ساتھ اس موقف پر قائم رہے کہ پاکستان ‘ دہشت گردوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت میں بال برابر فرق نہیں لا رہا۔ بھارت کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ نے کبھی اس خیال کو لائق توجہ نہیں سمجھا کہ پاکستان کی سرزمین پر تیار ہونے والے دہشت گرد‘ کسی دوسرے ملک میں کوئی فرق ملحوظ نہیں رکھتے۔ افغان اور بھارتی دہشت گردوں میں تمیز نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری مجاہدین کے حق میں ‘امریکہ نے مضبوطی سے کوئی آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی وہ انسانی بنیادوں پر‘ ان کے حق میں کوئی اقدام کرتا ہے اور نہ ہی اس بات کا اعلان۔ جان کیری کے اس بیان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ''ہم نے کبھی نہ تو اچھے اور برے طالبان میں فرق رکھا ہے اور نہ ہی کریں گے۔‘‘ کیری نے کہا ''امریکہ نے کبھی دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کی اس دلیل پر توجہ نہیں دی کہ دہشت گرد اپنے اہداف کا تعین کرتے وقت ‘کوئی فرق پیش نظر رکھتے ہیں۔ ‘‘ کیری نے بتایا کہ اس نے پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف سے بات کرتے ہوئے بارہا اپنی رائے کا اظہار کیا۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان پر الزام لگایا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد بے چینی پھیلانے والے عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا ہے۔ بھارت نے کہا ''ہم نے اپنا یہ موقف بار بار دہرایا ہے کہ پاکستان سرحد کے پار سے‘ دہشت گردوں کے گروپوں کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کرنے سے روکے۔‘‘ امریکہ اور بھارت دونوں کا اتفاق ہے کہ ''ہمیں دہشت گردی کو روکنے کے لئے زیادہ موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمیں کائونٹر ٹیررازم کے لئے زیادہ سخت‘ جدید اور موثر ہتھیار استعمال کرنا ہوں گے۔ ‘‘ باہمی انڈرسٹینڈنگ کے یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مقبوضہ کشمیر کے نہتے لوگوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے امریکہ ‘ بھارت کو جدیدترین ہتھیار مہیا کرے گا۔ مزید وضاحت کی ضرورت ہو‘ توجان کیری کے یہ الفاظ غور سے پڑھ لیں۔ کیری جلد ہی اپنا یہ سمجھوتہ منظر عام پر لائیں گے جس کے تحت مشترکہ سہ فریقی پروگرام پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
افغانستان کے ساتھ مل کر ‘ پاکستان کے گرد جارحانہ گھیرا ڈالنا‘ دیرینہ بھارتی منصوبہ تھا۔ ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم دشمن کے منصوبوں کا اندازہ ‘ اس کے عزائم اور ارادوں سے نہیں‘ اس کی زمینی سرگرمیوں سے کرتے ہیں۔ حالیہ بھارت امریکہ معاہدے کے بارے میں‘ ہمارے ماہرین ‘ابھی تک مقاصد کی تہہ میں جھانک کر نہیں دیکھ پائے۔ مجھے افسوس کے ساتھ اپنے ماہرین کے تبصروں کو دیکھنا پڑا‘ جو ایک عام پاکستانی صحافی سے بھی بہتر نہیں تھے۔ کتنی گہری بات کہی ہے ہمارے ایک اعلیٰ درجے کے صحافی اور پاک امریکہ تعلقات کے ماہر نے کہ ''محض دو خودمختار ملکوں کے درمیان معاہدے پر‘ کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔‘‘ مزید کہا گیا ''اس طرح کے معاہدے سے خطے پر کچھ اچھے اثرات نہیں پڑیں گے۔‘‘ کتنا شاندار انکشاف ہے؟ گویا کوئی شخص یہ امید کر سکتا تھا کہ اچھے اثرات بھی پڑ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مزید خیالات پیش خدمت ہیں۔ بھارت کے وزیرداخلہ منوہر پاریکر کے دورہ امریکہ کے موقع پر ‘دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے۔
''اس معاہدے کے تحت امریکی اور بھارتی افواج مرمت اور سامان کی رسد و ترسیل کے لئے‘ ایک دوسرے کے فوجی اڈے استعمال کر سکیں گے۔ ‘‘ امریکہ کے وزیردفاع ایش کارٹر نے کہا کہ '' اس پیش رفت سے دونوں ممالک کی افواج کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کرکام کرنے میں مدد ملے گی۔ ‘‘
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو کے دوران کہا کہ ''دو خود مختار ملکوں کے درمیان معاہدے پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔اگر اس طرح کے معاہدے کسی تیسرے ملک پر اثر انداز ہوں گے تو یقینا اس پر تشویش کا اظہار بھی ہو گا۔‘‘
''ہم نے بطور خود مختار ملک کبھی اعتراض نہیں کیا‘ بھارت اگر معاہدے کرے‘ امریکہ سے یا روس سے یا اسرائیل سے۔ لیکن چین جب پاکستان میں اقتصادی راہداری بناتا ہے یا کسی اور ملک سے ہم دفاعی معاہدے کرتے ہیں یا امریکہ سے فوجی امداد حاصل کرتے ہیں‘ تو بھارت فوراً چلا اٹھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک اصول ہونا چاہیے۔‘‘
''ہمیں خدشہ ہے کہ جو تعاون بھارت اور امریکہ کے مابین ہے‘ اس سے کوئی نئی سرد جنگ کی تیاری تو نہیں ہو رہی؟ خاص طور سے چین اور امریکہ کے حوالے سے؟پاکستان کو بنیادی خدشات پریشان تو نہیں کریں گے؟ ہم پاکستان اور چین اقتصادی راہداری ہی بنا رہے ہیں۔ ہم (چارملکی) ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان اور بھارت‘ پائپ لائن بھی بنا رہے ہیں۔ ہم اقتصادی تعاون چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی جو جنگی تیاریاں یا فوجی اسلحے کی بنیاد پر جو اتحاد بن رہے ہیں‘ یہ ایشیا کے امن‘ استحکام اور خوشحالی کے مفاد میں نہیں ہیں۔‘‘ یہ چند سطریں آپ کو بے ربط نظر آئیں گی۔ مگر میں اتنا ہی کر سکتا تھا کہ یا تو اس کی بے ربطی ختم کر دوں یا اس میں مزید اضافہ کر ڈالوں۔ جہاں ستیاناس‘ وہاں سوا ستیاناس۔ بہرحال جس بات کی میں نے نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے‘ وہ یہ ہے کہ معاہدے کے اندر ہی تین ملک تو واضح طور پر شامل ہیں اور مزید ایک ملا کر‘ پائپ لائن کے حوالے سے بھارت کا نام بھی آ جاتا ہے۔ یہ ہرگز دو ملکوں کا باہمی معاہدہ نہیں‘ یہ ہمارے پورے خطے کو محیط ہے۔ جس میں امریکہ دیدہ دلیری سے جنوبی ایشیا کے اندر جنگی فریق کی حیثیت سے داخل ہو گیا ہے۔ یہ معاہدہ اس لحاظ سے پاکستان کے خلاف ہے کہ امریکہ نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بھارت کا اتحادی بن کر ‘ باضابطہ جنگی کارروائیوں میں فریق بننے کا حق حاصل کر لیا ہے اور افغانستان کے حامی فریق کی حیثیت سے ‘امریکہ پہلے ہی پاکستان پر دبائو ڈالتا رہتا ہے۔ مجھے معاہدے کی پوری تفصیلات پڑھنے کا وقت نہیں ملا۔ کالم کی تنگی داماں درمیان میں آڑے آ گئی۔ لیکن نہ تو یہ معاہدہ ایک دن کی بات ہے اور نہ میرا کالم۔ اس میں ان گنت پرتیں ہیں۔ جیسے جیسے کھلتی رہیں‘ لکھتا رہوں گا۔