ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے وہ بات کہی جس کی توقع لوگ کسی مدبر سیاستدان سے کرتے تھے۔ مگر ہمارے نصیب میں مدبر سیاستدان کہاں؟ ڈی جی رینجرز نے کہا کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے اور ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں ع
تیری آواز مکے اور مدینے
سندھ میں فساد کی جڑ کوٹہ سسٹم ہے اور مہاجر‘ سندھی کی تقسیم کو اس لعنت نے گہرا کیا مگر ضیاء الحق‘ بے نظیر‘ نوازشریف‘ پرویز مشرف اور آصف علی زرداری میں سے کسی نے بھی اس لعنت سے چھٹکارا پانے کی تدبیر کی‘ نہ کبھی سوچا۔ اس خلیج کو بڑھایا الطاف حسین نے اور نفرت و تعصب کی آبیاری ایم کیو ایم نے کی۔
9/11کے بعد ہمارے ہاں ایک لطیفہ مقبول ہوا تھا۔ ایک تھیٹر فنکار دوسرے سے پوچھتا ہے کہ اگر یہ واقعہ پاکستان میں ہوتا تو حکومت کیا کرتی؟ ''کرنا کیا تھا ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتی‘‘ دوسرے فنکار نے جواب دیا۔
پاکستان آج کل اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے نرغے میں ہے۔1971ء کے بعد پاکستان کو اس طرح کی صورتحال کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت پاکستان نیو کلیئر پاور نہ تھا اور چین، امریکہ و سوویت یونین کے مقابلے میں کمزور۔ نیو کلیئر پاور چین اس وقت بھی تھا۔ اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کے بحران کا فائدہ اٹھا کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم چلا رکھی تھی‘کلکتہ میں مکتی باہنی کے رضا کار فوجی تربیت حاصل کر رہے تھے اور عوامی لیگ پاک فوج اور اس کے ذیلی اداروں کے خلاف بنگالیوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مذموم پروپیگنڈے میں مصروف تھی۔ پاکستان کی فوجی حکومت اور سیاسی قوتیں مگر اقتدار کی بندر بانٹ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف تھیں۔ یحییٰ خان کو ملک سے زیادہ اپنی صدارت عزیز تھی اور سیاستدانوں کو اقتدار میں سے اپنا حصہ مطلوب۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند گروہ الزام لگاتا‘ بھارت تائید کرتا اور امریکہ و یورپ کے ذرائع ابلاغ کے علاوہ انسانی حقوق کے ادارے فوراً ایمان لے آتے۔ ان دنوں یہ کھیل پھر جاری ہے۔ کلبھوشن نیٹ ورک کی گرفتاری‘ اعترافی بیانات اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریکِ مزاحمت تیز ہونے کے بعد بھارت بوکھلا گیا ہے۔ وہ ایران اور افغانستان کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کی جس حکمت عملی پر عمل پیرا تھا وہ موثر نہیں رہی۔ کشمیری عوام نے ''پاکستان سے رشتہ کیا لاالٰہ الا اللہ‘‘ کے نعرے کیا لگائے‘ سبز ہلالی پرچم کیالہرا یا، بھارتی فوج کو پاگل کر دیا۔ یہ تحریک اس قدر داخلی ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف دراندازی کا الزام لگانے اور نہتے کشمیری عوام کو دہشت گرد قرار دینے کے قابل نہیں رہا۔ بعض گرفتاریوں پر جو الزام تراشی بھارتی وزراء نے کی، اسے بھارتی میڈیا‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اپوزیشن جماعتوں نے غلط قرار دے دیا۔ تنگ آ کر بھارت نے پاکستان میں اپنے ساختہ ‘پرداختہ‘ گماشتہ عناصر کو بدامنی پر ابھارا ،مگر بات بن نہیں پا رہی۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے دورئہ امریکہ اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ نئی دہلی سے البتہ صورتحال گمبھیر ہے۔ بھارت اور امریکہ کے مابین فوجی تعاون کا معاہدہ دونوں ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں‘ واشنگٹن میں امریکہ‘ بھارت‘ افغانستان سہ فریقی مذاکرات اور جان کیری کے غیر دوستانہ بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نریندر مودی نے اندرا گاندھی کی طرح پاکستان کے خلاف جو جارحانہ سفارتی مہم چلائی تھی‘ وہ برگ و بار لا رہی ہے۔
اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایا وتی کا خیال ہے کہ نریندر مودی اپنی داخلی ناکامیاں چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور پاکستان سے جنگ بھی ہو سکتی ہے جبکہ سارک وزرا ئے خزانہ کی کانفرنس میں بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے علاوہ بنگلہ دیش و افغانستان کے وزرائے خزانہ کی عدم شرکت بھی معمولی واقعہ نہیں۔ نریندر مودی پارلیمینٹ کے اندر اور باہر پاکستان کو دھمکیاں دے چکے ہیں اور پچھلے سال جاتی اُمرا یاتراکو انہوں نے اپنا سفارتی شاہکار قرار دیا تھا جس کی ان کے بقول نواز شریف کو سمجھ نہیں آئی۔ پاکستان میں مگر جوابی حکمت عملی تیار کرنے کے بجائے دال جوتیوں میں بٹ رہی ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی کی سوچ کار فرما ہے ۔سول ملٹری تعلقات ہموار نہیں‘ اپوزیشن حکومت محاذ آرائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کی احتجاجی ریلیاں جاری ہیں اور پانامہ سکینڈل حکومت کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ اپوزیشن نے سینیٹ میں اپنا بل پیش کر دیا ہے اور وفاقی حکومت نے اپوزیشن کی تجاویز مسترد کرتے ہوئے اپنی مرضی کے کمیشن آف انکوائری بنانے کی منظور دے دی ہے۔ الطاف حسین نے بھارت کے ایما پر مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے جو کارڈ کھیلا تھا وہ اس حد تک کامیاب رہا کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ اور سیاسی سطح پر مسئلہ کشمیر ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور موضوع بحث اب الطاف حسین ہے یا ایم کیو ایم۔
کشمیر کے مسئلہ پر حکومت ابتدا میں تو سنجیدہ نظر آئی ‘بیان بازی بھی ہوئی اور سفیروں کی کانفرنس بھی ۔اب اسے ارکان اسمبلی کے سیر سپاٹے کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد دو درجن ارکان اسمبلی کو بیرون ملک سفارتی مہم پر بھیجنے کا فیصلہ کیا مگر دو چار کے سوا باقی ارکان وہ ہیں جنہیں دورے کا ایجنڈا معلوم ہے نہ سید علی گیلانی‘ محبوبہ مفتی اور شیخ عبداللہ کے بارے میں ابتدائی نوعیت کی معلومات۔ ٹی وی پروگرام میں ایک سینئر پارلیمنٹرین سے پوچھا گیا کہ وہ روس میں جا کر کیا بات کریں گے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے‘ محبوبہ مفتی کا نام تک انہیں معلوم نہ تھا۔ ویسے بھی پارلیمینٹ کی کشمیر کمیٹی جب تک مولانا فضل الرحمن کے تصرف میں ہے، حکومت قوم کو سنجیدگی کا یقین نہیں دلا سکتی۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے حوالے سے وفاقی حکومت کا تذبذب مزیدقیامت ڈھا رہا ہے۔ چودھری نثار علی خان نے الطاف حسین کے خلاف ریفرنس برطانوی حکومت کو بھیجا مگر مصطفی کمال نے سوال کیا کہ دشمن نے تھپڑ ہمارے منہ پر مارا ہے، جواب دینے کے بجائے ہم ہمسائے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اسے روکے۔ فاروق ستار‘ وسیم اختر‘ خالد مقبول صدیقی اور نسرین جلیل کے نت نئے بیانات سے معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھنے لگا ہے۔ الطاف حسین سے کامل قطع تعلقی اور ایک ملک دشمن شخص کی کھل کر مذمت سے گریز شکوک و شبہات میں اضافہ کر رہا ہے، مخالفین یہ ثابت کرنے پر تُلے ہیں کہ فاروق ستار ‘ نسرین جلیل‘ وسیم اختر الطافی سکّے کا دوسرا رخ ہیں۔ پچھلے سال بھارتی ہائی کمشنر ٹی ایس رگھو ناتھ کو لکھا گیا نسرین جلیل کا خط اور چند روز قبل امریکی قونصل جنرل سے فاروق ستار و نسرین جلیل کی ملاقات اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے بعد امریکہ نے متحدہ کے حق میں بیان جاری کیا۔
وفاقی حکومت مگر تاحال کسی ٹھوس فیصلے پر پہنچنے سے قاصر ہے اور اٹارنی جنرل نے یہ بیان دے کر لٹیا ہی ڈبو دی ہے کہ متحدہ پر پابندی کے لیے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ روایتی ملازم کی طرح جو مہمانوں کی رخصتی تک جوتا تلاش کر رہا تھا۔گویا اب تک جو سامنے آیا وہ ٹھوس ثبوت نہیں۔ ع
خوئے بد را بہانہ بسیار
ناقدین کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ وفاقی حکومت فاروق ستار کے ذریعے آپریشن میں مصروف اداروں سے ڈبل گیم کررہی ہے، الطاف حسین کے ساتھیوں کو موقع فراہم کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو متحد رکھ سکیں۔نمائشی اقدامات پر زور ہے اور موثر اقدامات میں تساہل برتا جا رہا ہے۔ مشرف دور میں یہ پالیسی دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے لیے مفید ثابت ہوئی اور انہوں نے ریاست کی نرم‘ گومگو پالیسی کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ مزید تاخیر ہوئی تو یہ امکان موجود ہے کہ امریکہ درمیان میں ٹپک پڑے اور جس طرح امریکی کانگریس نے بلوچ رہنمائوں کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کا موقع دیا‘ ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو یہ سہولت فراہم کی جائے۔ الطاف حسین بھارت اور اسرائیل کے علاوہ امریکہ سے مدد مانگ چکے ہیں، بعید نہیں کہ یہ درفنطنی پیشگی یقین دہانی کے بعد چھوڑی گئی ہو۔ پاکستان کمزور ہے، نہ 1971ء کی طرح تنہا، مگر احتیاط لازم ہے بھارت سے زیادہ اپنی آستینوںکے سانپوں کے معاملے میں۔ حکومت سیاسی مصلحتوں کے خول سے نکل کر دو ٹوک پالیسی اختیار کرے۔کوٹہ سسٹم ختم کرنے کے لیے سیاسی اجماع اور جرأت مندانہ فیصلہ۔ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کی عادت ہم کب چھوڑیں گے ؟