تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     01-09-2016

کشمیر پر بات فی الفور شروع ہونا چاہیے!

کشمیر کے سوال پر ہماری سرکار مخمصے میں پڑی ہوئی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کرے؟ پہلے تو ہمارے مستقبل شناس وزیر اعظم نے خاموشی اختیار کیے رکھی‘ جب وہ بولے تو ان کے دل سے درد بھری باتیں نکلنے لگیں اور پھر وہ 'آئین کے دائرے‘ میں پھنس گئے۔ انہوں نے کشمیر کے حل کا غبارہ فضا میں اڑا دیا۔ دائمی حل بھی نکل آئے گا‘ فی الحال کشمیر کے کہرام پر فوراً امن کی تدبیر کھوجیے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اچھی پہل کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ کرفیو جاری ہے‘ پتھر بازی بھی۔ گولیاں چل رہی ہیں‘ اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ اب کیا کریں؟
جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مودی سے مل کر کچھ ٹھوس سجھائو دیے ہیں۔ سبھی پارٹیوں کے لیڈر کشمیر جائیں اور بات کریں۔ علیحدگی پسندوں سے بھی بات کریں۔ غیر سرکاری لوگوں کی ایک جماعت قائم کی جائے جو کشمیر کی سبھی تنظیموں سے کھل کرے بات کرے۔ یہ سبھی مشورے گزشتہ ڈیڑہ ماہ میں کئی بار دے چکا ہوں۔ محبوبہ نے کشمیر کی تکالیف کے لیے پاکستان کو کھل کر کوسا ہے جو کسی بھی کشمیری لیڈر کے لیے ہمت کا کام ہے‘ لیکن انہوں نے پاکستان سے بات کرنے کا سجھائو بھی دیا ہے۔ یہ سب باتیں آئین کے دائرے میں کیسے ہو سکتی ہیں؟ ان کے لیے تو انسانیت کا دائرہ ہی ٹھیک ہے لیکن انسانیت کی سمجھ کس کو ہے؟
اس پاکستان کا حال دیکھیے۔ وہ کیا کر رہا ہے؟ وہ بھی پُرانے حربے اپنا رہا ہے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے عرب لیگ‘ اقوام متحدہ وغیرہ کو چٹھیاں بھیج دی ہیں۔ مغربی ممالک اب کشمیر سے اوب چکے ہیں۔ کشمیر میں کچھ بھی ہو جائے‘ اب ان کے کان کھڑے نہیں ہوتے۔ میاں نواز شریف نے اپنے 22 اراکین پارلیمنٹ کے حوالے یہ کام کیا ہے کہ وہ مختلف ممالک میں جائیں اور ڈھول بجائیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ ایسی نوٹنکیوں سے کیا بیچارے کشمیریوں کے زخموں پر کوئی مرہم لگے گا؟ پہلے کشمیر کے نام پر پاکستان‘ امریکہ اور نیٹو ممالک سے کافی امداد کھینچتا رہا‘ لیکن وہ سب آبشار اب سوکھنے لگے ہیں۔ ہاں‘ چین کی دلچسپی اب بھی بنی ہوئی ہے کیونکہ کشمیر کی ہزاروں میل زمین پر اسے 1963ء سے قبضہ ملا ہوا ہے لیکن وہ زیادہ واضح نہیں ہے۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ابھی صرف بات چیت پر ہی زور دے اور بات چیت دونوں کشمیروں‘ گلگت اور سکردو کے بارے میں بھی ہو اور اس کا دائرہ فلک تک (نرسمہا رائو) یا انسانیت (اٹل جی) ہو ۔
اس کرشمے کا رازکیا ہے؟
لکھنؤ کے ایک صفائی ملازم کے گھر میں کرشمہ ہو رہا ہے۔ اس فیملی میں تین بچے ہیں اور تینوں اتنے زیادہ کرشماتی کہ آپ دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔ ان کے والدین دلت ہیں۔ ماں بالکل ان پڑھ ہے۔ والد سویپر ہیں‘ مزدور۔ سب سے چھوٹی بچی اننیا ہے۔ اس کی عمر محض چار سال ہے لیکن اسے نویں جماعت میں بھرتی کیا گیا ہے۔ اس کو سکول کے ہیڈ ماسٹروں نے داخلہ دیا ہے۔ اننیا سے بڑا بھائی شیلیندر ہے‘ جس نے 14 برس کی عمر میں کمپیوٹر سائنس میں ڈگری کا امتحان پاس کیا تھا۔ اسے 75 فیصد نمبر ملے تھے۔ آج کل وہ بنگلور میں سافٹ ویئر انجینئر ہے۔ اننیا کی بڑی بہن سُشما نے تو عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس نے صرف سات سال کی عمر میں دسویں کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ وہ لکھنؤ یونیورسٹی کی سب سے کم عمر شاگرد تھی۔ اب وہ پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ کیا یہ کرشمہ نہیں ہے؟ ملک کے سائنسدان‘ تجزیہ نگار‘ ڈاکٹر‘ انجنیئر اور ڈی این کے ماہر آج تک یہ پتا نہیں کر پائے ہیں کہ اس کرشمہ کا کیا راز ہے؟ کسی ان پڑھ اور غریب خاندان میں ایسے بچے کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب شاید ہمارا جدید سائنسی دور کھوج نہیں پائے گا کیونکہ ان کی اپنی ایک حد ہے۔ اسے اس تودہء خاکی سے الگ روح کے وجود پر اعتبار ہی نہیں ہے۔ جو لوگ روح پر اعتقاد رکھتے ہیں‘ وہ اسے دائم مانتے ہیں اور اس کے دوبارہ پیدا ہونے پر بھی یقین کرتے ہیں۔ اگر آپ دوسری بار پیدا ہونے کے عقیدے پر یقین کرتے ہیں تو اس کرشمے کی وضاحت آسانی سے ہو سکتی ہے کہ کسی نہایت ہی غیر معمولی روح نے لکھنؤ کے تیج بہادر کے گھر جنم لیا ہو۔ پھر بھی ایک سوال رہ جاتا ہے۔ تین تین روحوں کو ایک ہی گھر میں دوبارہ جنم لینا‘ یہ کیسے ہوا ہو گا؟ کیوں ہوا ہو گا؟ یہ سوال ہمیں پھر علم سائنس کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ والد تیج بہادر اور ان بچوں کی والدہ کے ملن سے ایسی عجیب پُراثر روح کا جنم ہوا ہو‘ لیکن سائنس کیا اسے اپنی تجربہ گاہ میں ثابت کر سکتی ہے؟ سائنس کچھ ثابت کرے یا نہ کرے‘ اس کرشمے نے یہ تو ثابت کر دیا کہ اتنی صلاحیت یا قابلیت کسی خاص ذات کی محتاج نہیں ہے۔
درگاہ میں خو اتین کیوں نہ جائیں؟
ممبئی ہائی کورٹ نے بھارت کی مسلم خواتین کے حق کی حفاظت کی ہے۔ ممبئی کی حاجی علی درگاہ کے اندر ان کے جانے پر روک لگا دی گئی تھی۔ یہ روک درگاہ انتظامیہ نے چار برس پہلے لگائی تھی۔ اس سے پہلے کوئی روک نہیں تھی۔ جب یہ معاملہ عدالت میں گیا تو درگاہ کی انتظامیہ نے جو دلائل پیش کیے‘ وہ اتنے کھوکھلے تھے کہ انہیں بڑے بڑے جج اور وکیل تو کیا‘ کوئی کھومچے والا بھی رد کر دیتا۔ ان کی پہلی دلیل یہ تھی کہ اسلام میں عورتوں کو کسی مرد فقیر کی درگاہ پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ اسلام اگر اجازت نہیں دیتا تو آپ نے درگاہ بنائی ہی کیوں؟ میں نے ایران کے شہروں مشہد اور تہران کی بڑی درگاہوں میں عورتوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ بغداد کے پیر عبدالقادر گیلانی ؒ کے مزارمیں‘ میں خود بیٹھا ہوں اور وہاں میں نے عرب عورتوں کو بیٹھے دیکھا۔ کعبہ شریف میں جب عورتوں کے جانے پر روک نہیں ہے تو درگاہ میں کیوں؟ علاوہ ازیں حاجی علی ٹرسٹ کو یہ زمین سرکار نے دی ہے۔ یہ ٹرسٹ آئین کی حکم عدولی کیسے کر سکتا ہے؟
جو مولانا حضرات اس فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں‘ ان سے ایک بنیادی بات عرض کرتا ہوں۔ ہر مذہب میں کچھ دائمی اعتقاد ہوتا ہے اور کچھ ملک اور زمانے کے مطابق ہوتا ہے۔ دائمی باتوں کو آپ جم کر پکڑے رہیے لیکن ملک اور زمانہ بدلتا رہتا ہے۔ اگر آپ ان کے مطابق نہیں بدلیں گے تو آپ کے مذہب کی آپ کے لوگ ہی ان دیکھی کر دیں گے۔ آج برابر ی کے زمانے میں خواتین پر ظلم کرنا ٹھیک نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved