تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     01-09-2016

کراچی: نیشنل ایکشن پلان اور پولیٹیکل وِل

حکومتِ پاکستان نے الطاف حسین کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ریفرنس برطانیہ بھجوا دیا ہے۔ سیکرٹری داخلہ کے دستخطوں کے ساتھ بھجوائے گئے ریفرنس میں باقاعدہ ثبوت بھی مہیا کئے گئے ہیں کہ برطانوی شہری الطاف حسین نے لندن سے 22 اگست کی تقریر میں کس طرح کراچی کے لوگوں کو تشدد پر اکسایا‘ جس پر شرپسندوں نے میڈیا پر حملے کئے اور توڑ پھوڑ کی۔ ریفرنس میں الطاف کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کے حوالے سے‘ پاکستان کے خلاف اس کے نعروں کا ذکر بھی ہے۔ ادھر سکاٹ لینڈ یارڈ کا کہنا ہے کہ الطاف کی 22 اگست کی تقریر کا ترجمہ کرایا جا رہا ہے تاکہ یہ جائزہ لیا جا سکے کہ اس میں کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں۔
الطاف کی 22 اگست کی تقریر ہر محب وطن کے لیے شدید دلآزاری کا باعث بنی تھی۔ فاروق ستار سمیت متحدہ قومی موومنٹ کے وابستگان کی اکثریت کے جذبات بھی مختلف نہ تھے۔ وہ بھی اپنے (سابق) قائد کے پاکستان مخالف نعروں سے اظہار لاتعلقی ہی نہیں، ان کی مذمت بھی کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اپنے ردعمل کے اظہار میں تاخیر نہ کی‘ وہ کہہ رہے تھے: کراچی میں پاکستان مخالف اشتعال انگیز بیانات سے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو دلی ٹھیس پہنچی ہے۔ ہم وطن کی سلامتی اور قومی وقار پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔۔۔۔ پاکستان ہمارا گھر ہے اور ہم اپنے گھر کی حرمت کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔۔۔۔ پاکستان کے خلاف بات سن سکتے ہیں نہ اس کے خلاف بولنے والوں کو معاف کر سکتے ہیں۔۔۔۔ پاکستان کے خلاف کہے گئے ایک ایک لفظ کا حساب ہو گا۔ 
23 اگست کو وزیر اعظم کی زیرِ صدارت اجلاس میں سیاسی و عسکری قیادت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملکی سلامتی اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ان کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ شرپسندوں کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں گی۔
وزیر اعظم کی زیر صدارت دوسرے روز بھی اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں‘ وزیر خزانہ اسحق ڈار‘ مشیر خارجہ سرتاج عزیز‘ قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف‘ ڈی جی آئی ایس آئی‘ ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی ایم او سمیت اعلیٰ سول اور عسکری حکام نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں بھی اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کراچی میں امن کوششوں کو کسی صورت سبوتاژ نہیں ہونے دیا جائے گا اور شرپسند عناصر کے عزائم ناکام بنا دیے جائیں گے۔ اجلاس میں الطاف حسین کی پاکستان مخالف اور شرانگیز تقاریر پر مبنی شواہد برطانوی حکومت کو فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اجلاس کے بعد وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔ ایک گھنٹے سے زائد اس ملاقات میں کراچی میں گزشتہ دو روز میں پیدا ہونے والی صورتِ حال پر مفصل بات چیت ہوئی اور اتفاق کیا گیا کہ کراچی آپریشن کے مثبت اثرات کو کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا اور کسی اندرونی یا بیرونی طاقت کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کراچی میں امن و امان وزیر اعظم نواز شریف کے ایجنڈے کا اہم نکتہ رہا ہے۔ انہیں احساس تھا کہ گیارہ مئی 2013ء کا مینڈیٹ گزشتہ پانچ سال کی بری حکمرانی اوربدعنوانی سے نجات اور دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ قومی معیشت کی بحالی کے لیے بھی تھا کہ لوگوں کو بے روزگاری اور مہنگائی کے عذاب سے نجات ملے اور اقتصادی ترقی کا پہیہ رواں دواں ہو، لیکن معیشت کی بحالی کے لیے امن و امان کا قیام شرطِ اوّل ہے۔ اگر ملک میں دہشت گردی ہو اور قومی اقتصادیات کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ‘ بھتہ خوری ‘ بوری بند لاشوں‘ اغوا برائے تاوان اور مختلف نوعیت کی مافیائوں کا راج ہو تو قومی معیشت کی بحالی کا خواب کیونکر شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں تو معیشت کی کمزور نبضیں ڈوب ہی جائیں گی۔
کراچی میں خرابیٔ احوال کا آغاز کب اور کیسے ہوا اور اس عفریت کو خونخواری کی اس حد تک لانے میں کس کس نے اپنا حصہ ڈالا‘ اس میں بیرونی ہاتھ کی کرشمہ سازی کتنی تھی اور سیاسی مصلحتوں اور اداروں کی نااندیشیوں نے کتنا کنٹری بیوٹ کیا‘ یہ ایک الگ اور طویل بحث ہے۔ اس حوالے سے
''K for K‘‘ (کشمیر کے بدلے کراچی) کی تھیوری بھی موجود تھی۔
کراچی کے مسئلے کو وزیر اعظم نواز شریف کتنی سنجیدگی سے لے رہے تھے، اس کا اظہار یوں ہوا کہ وزارتِ عظمیٰ کا (تیسری بار) حلف لینے کے کچھ ہی دنوں بعد وہ اپنی کابینہ کے ساتھ کراچی پہنچے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ اور دیگر متعلقہ ادارے اس سے پہلے ہی ضروری ہوم ورک کر چکے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرزکو اعتماد میں لینا‘ ان کی سننا اور اپنی سنانا ضروری سمجھا۔ مقامی سطح پر ایک ''آل پارٹیز کانفرنس‘‘ اسی حکمت عملی کا حصہ تھی جس میں شرکاء نے کھل کر اظہار خیال کیا۔ تحریک انصاف کے سوا اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی تھی (جناب عارف علوی نے تحریک انصاف کی عدم موجودگی کو کمیونی کیشن میں گڑ بڑ کا نتیجہ قرار دیا کہ بروقت اطلاع نہ ہونے کے باعث وہ اس روز شہر میں موجود نہ تھے۔) شام کو شہر قائد کے تاجروں اور صنعت کاروں نے اپنا دل چیر کر وزیر اعظم کے سامنے رکھ دیا تھا۔ ہر ایک کے پاس ایک المیہ کہانی تھی۔۔۔۔ ایک ''دلچسپ‘‘ کہانی! ایک موبائل فون سے کال موصول ہوئی جس میں 25 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جناب گورنر اور وزیر اعلیٰ کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی‘ اس میں موبائل فون نمبر کا حوالہ بھی تھا۔ دو روز بعد اسی نمبر سے ایک اور کال آئی‘ اب 25 لاکھ کی بجائے 50 لاکھ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کے نوٹس میں یہ بات لانے کا خمیازہ تھا؟ کالم نگاروں ‘ تجزیہ کاروں اور مدیروں کے ساتھ مفصل بریفنگ میں بھی کئی مفید تجاویز سامنے آئیں۔ اس کے بعد کابینہ کا اجلاس تھا جس میں امن و امان کے ذمہ دار ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ کراچی میں دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کے خلاف آپریشن رینجرز کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا جس میں پولیس اس کی معاونت کرے گی۔ ڈی جی رینجرز نے مطلوبہ نتائج کے لیے دو شرائط پیش کی تھیں۔۔۔۔ رینجرز کو پولیس کے اختیارات دیے جائیں‘ گرفتاری کے ساتھ پراسیکیوشن بھی اس کے سپرد ہو اور اس میں کسی طرف سے کوئی مداخلت نہ ہو۔ قانون شکن اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کو سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کے خلاف کارروائی قرار نہ دیں کہ کراچی میں جرم اور سیاست باہم گڈ مڈ ہو چکے ہیں۔ ان دنوں اس طرح کی خبریں بھی پڑھنے سننے میں آئی تھیں کہ کراچی میں تحریک انصاف ایک ابھرتی ہوئی طاقت نظر آئی تو بعض جرائم پیشہ افراد اس کی چھتری تلے بھی چلے آئے۔
کراچی آپریشن کے نئے مرحلے کا فیصلہ ہو گیا‘ بزرگ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اس کے کپتان قرار پائے۔ تب جنرل کیانی آرمی چیف تھے، پھر جنرل راحیل شریف سپہ سالار بنے۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کا آغاز ہوا‘ تب سے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ آج کراچی‘ تین چار سال پہلے والا کراچی نہیں۔ بلوچستان میں بھی امن لوٹ رہا ہے، اس میں سیاسی قیادت کی ''پولیٹیکل ول‘‘ اور امن و امان کے ذمہ دار سول اداروں کی بھر پور معاونت اور سرگرم کردار سے انکار بھی ممکن نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved