امریکہ کے صدور، دفاع اور خارجہ امور کے وزراء اور ان کے جنرلز، تھنک ٹینکس اور میڈیا کے گرو جب آئے روز پاکستان سے ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا اس وقت ہماری کسی بھی ذمہ دار شخصیت نے ان سے کہا کہ جناب والا! آپ نے1960ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائوں کے پانی پر بڑھنے والے اختلافات کو حالت جنگ کی طرف بڑھتا دیکھ کر اسے حل کرانے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس نام سے ایک معاہدہ کرایا تھا جس کے تحت راوی، ستلج اور بیاس بھارت کے لئے اور چناب، جہلم اور انڈس یعنی دریائے سندھ پاکستان کے لئے مخصوص کر دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کا ورلڈ بینک ضامن تھا۔ اقوام متحدہ کی رکنیت رکھنے والا دنیا کا وہ کونسا ملک ہے جو با خبر نہیں کہ بھارت نے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں اور جب بھی نیا دن طلوع ہوتا ہے وہ پاکستان کی جانب بہنے والے دریائوں، نہروں حتیٰ کہ نالوں پر بھی چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا رہا ہوتا ہے۔ بگلیہار، کشن گنگا اور وولر بیراج بڑے ڈیم ہیں جن کی پاکستان بار بار نشاندہی کرتا چلا آ رہا ہے۔ دنیا کی نظروں سے یہ سب کیسے پوشیدہ ہے؟ ذرا ہمت کر کے بھارت سے پوچھیں تو سہی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟
ایک طرف امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور فرانس سمیت تمام مغربی ممالک اور روس بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے اسلحے اور تباہ کن ہتھیاروں سے بھر رہے ہیں، دوسری جانب پاکستان کی شہ رگ میں اترنے والے پانی کو روکا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ارادے رکھنے والے سینکڑوں کلو میٹر دور بیٹھے بھارت کو افغانستان لا کر پاکستان کے سر پر بٹھا دیا گیا ہے۔ پھر پاکستان سے کہا جارہا ہے۔۔۔''ڈو مور‘‘۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کو آنے والی کسی تیسری عالمی جنگ کا فرانس یا پولینڈ دیکھنا چاہتے ہیں؟ شاید وہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ بر صغیر کو پانی کی جنگوں میں تبدیل کر دیا جائے۔
اگر آپ پاکستانی ہیں تو وقت نکال کر اپنے پیارے وطن، جس کی آزادی کے دن کو بڑی شان اور شوکت سے آپ نے چند دن پہلے منایا ہے اور جس کی آزادی کے آپ نے گیت گائے اور سنے ہیں، اس کے دریائی سلسلوں پر ایک نظر ڈال کر دیکھیں کہ کس طرح یہ دن بدن خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ تبت کے گلیشیئرز جس تیزی سے پگھلتے جا رہے ہیں اس سے پیدا ہونے والی قیا مت کا تصور ہی لرزہ طاری کر دینے کے لئے کافی ہے۔ آپ کو کسی اور جانب متوجہ کر کے رکھا گیا ہے اس لئے آپ تک دنیا بھر کے آبی ماہرین کہ وہ آوازیں پہنچ پاتیں جن میں وہ چیخ چیخ کر پاکستان کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ اپنے آبی وسائل کو محفوظ کرنے کی کوششیں تیز کر دے کیونکہ ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار کا سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو اگلے پندرہ سالوں میں پاکستان کا سدا بہار اور سارا سال بہنے والے دریائے سندھ میں پانی کی مقدار انتہائی کم ہو جائے گی۔ عوامی جمہوریہ چین کی اکیڈیمی آف سائنس کی ایک چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق2030ء تک کچھ گلیشیئر پگھل کر
اس قدر چھوٹے ہو جائیں گے کہ ان سے بہت ہی کم مقدار میں پانی حاصل ہو سکے گا۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ پاکستان میں کسی کو اس بات کی پروا نہیں کہ پانی کے بغیر انسانی زندگی کس بد ترین صورت حال سے گزرتی ہے۔ آج ہمیں دنیا کے مختلف علاقوں میں جو صحرائی تہذیب دکھائی دیتی ہیں ان کی وجوہات کیا ہیں؟
حکمران تو ایک طرف، ملک بھر کی کسی ایک بھی سیاسی جماعت اور ان کے لیڈر بھی بھارت کی طرف سے بین الاقوامی معاہدے 'انڈس واٹر ٹریٹی‘ کی خلاف ورزیوں پر ایک لفظ بھی نہیں کہا جا رہا جس کے ذریعے وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی کی ایک ایک منبعے کو بند کئے جا رہا ہے۔ ہماری حکومتیں اور اپوزیشن بھارت کے ان آبی حملوں پر یوں چپ ہیں جیسے ان کا پاکستان، اس کی زمین اور اس کے عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ میں موٹر ویز اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کا مخالف نہیں ہوں لیکن شکوہ یہ ہے کہ آپ کو احساس ہی نہیں ہو رہا کہ پاکستان کا آج سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو اگر کسی دن فرصت ملے تو واسا کے افسران کے پاس جا کر پوچھیں تو سہی کہ لاہور میں ان کے لگائے جانے والے پانی کے ٹیوب ویل 750 فٹ تک کی گہرائی تک کیوں جا پہنچے ہیں؟ وہ بتائیں گے کہ جناب والا! اس کی اصل وجہ چار دہائیوں سے پاکستان کے پانیوں کو ذخیرہ کرنے کے لئے نہ بنائے جانے والے ڈیمز ہیں۔ غضب خدا کا، کل تک پانی کی گہرائی جو ایک سو فٹ تک تھی آج 750تک نیچے جا چکی ہے۔ اس ملک کی تقدیر کے مالک ہونے کے دعویداروں میں کسی ایک کو بھی اس کی فکر نہیں۔ جس طرح میٹرو بسوں اور اورنج ٹرین کی تعمیر میں وزیر اعلیٰ فیلٹ ہیٹ پہن کر صبح سویرے کام کی نگرانی کا جائزہ لیتے ہیں، اسی طرح بجلی پیدا کرنے اور پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیم بھی شروع کروائیں۔ پوٹھو ہار میں سواں ڈیم بنائیں، بھاشا ڈیم بنائیں۔ خیبر سے کراچی تک بسنے والے پاکستان کے ایک ایک فرد کی حیات کے لئے کالا باغ ڈیم پراپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے علاوہ اپنے باقی اتحادیوںکو ایک ساتھ بٹھائیں۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف سے درخواست ہے کہ ارسا اور اپنے ارد گرد جمع ''جماعت علی شاہوں‘‘ کو جس قدر جلدی ہو سکے پکڑ کا قرار واقعی سزا دیں۔ انٹر پول کے ذریعے بگلیہار ڈیم پر عالمی عدالت انصاف میں درون خانہ بھارت کی مدد کرنے والے جماعت علی شاہ کو کینیڈا سے پاکستان واپس لا کر وطن سے غداری کا مقدمہ چلا کر نشان عبرت بنائیں ۔
دنیا کا کون سا ملک ہے جو نہیں جانتا کہ مئی2007 ء میں من موہن سنگھ جنرل مشرف سے سیا چن پرمعاہدہ کرنے کے لئے پاکستان آ رہے تھے جس کے لئے نئی دہلی اور اسلام آباد میں ضروری تیاریاں مکمل کی جا رہی تھیں، لیکن ایک بہت بڑی طاقت اور بھارت کی اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کی آزادی کے نام سے تحریک چلوا کر مشرف کو اپاہج کر دیا۔ جنرل جے جے سنگھ کو سونیا گاندھی اور من موہن سنگھ پر دبائو ڈالنے کے لئے یہ کہنا پڑ گیا کہ اس وقت پاکستان کے حالات اس قابل نہیں کہ اس سے سیا چن پر کوئی معاہدہ کیا جائے کیونکہ ہمیں خدشہ ہے کہ جنرل مشرف اپنا اقتدار بچانے کے لئے بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپیں شروع کرا دے گی اور اگر سیاچن سے بھارتی فوج واپس بلا لی گئی تو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی کیونکہ بھارت کا ہر آرمی چیف اچھی طرح جانتا ہے کہ جس کے پاس سیا چن ہو گا کل کو وہی دریائے سندھ کے پانی پر قابض ہو گا ۔ سیاچن ہی دریائے سندھ کا بیڈ کہلاتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا بجلی پیدا کرنے والا تربیلا ڈیم 9.3 ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور سارا سال سندھ کے تمام بیراجوں میں تربیلا سے نکل کر دریائے سندھ میں جانے والے اسی پانی سے سیلاب آتے ہیں۔ اگر کراچی، حیدر آباد سمیت سندھ کے دانشور یا زمیندار اور ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز اس حقیقت سے بے خبر ہیں تو وہ اپنے جاننے والے کسی بھی آبی ماہر سے اس کی تصدیق کرا سکتے ہیں۔ سابق چیئرمین واپڈا فرزند پاکستان جناب ظفر محمود کو قوم کا سلام۔۔۔۔!