پاکستانی جمہوریت ایک ایسی بند گلی میں پھنس کے رہ گئی ہے‘ جس میں نہ آگے نکلنے کی گنجائش ہے اور نہ پیچھے ہٹنے کی۔ کہنے کو ملک میں اسمبلیاں بھی ہیں۔ کابینہ بھی‘ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ بھی۔ لیکن ان اسمبلیوں میں کوئی بھی مسئلہ زیربحث نہیں آتا۔ حکومت کا کام ہوتا ہے کہ وہ ملکی معاملات کو حرکت میں بھی رکھے۔ مسلسل بحث و مباحثے کا سلسلہ بھی جاری رہے۔ اس میں پوری قوم کو حصہ لینے کے مواقع بھی فراہم کئے جاتے رہیں۔ یہ مواقع فراہم کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے۔ عوامی زندگی سے تعلق رکھنے والے ‘اَن گنت مسائل اور معاملات میں ‘پوری قوم حصہ لیتی ہے اور اس کے لئے وزیراعظم اور کابینہ ‘ہر وقت ایسے مسائل اور موضوعات ایوان کے سامنے لاتے ہیں‘ جن پر پوری قوم اظہارِ خیال کر کے‘ سوچ اور غور و فکر کے مستقل پہلو سامنے لائے۔ اس عمل میںسیاستدان ہی نہیں‘ ہرفرد اپنی اپنی حیثیت میں حصہ ڈالتا ہے۔ مثلاً تعلیم اور صحت ‘دو ایسے مسائل ہیں‘ جن پر قوم کے ہر فرد کو اپنی فہم و فراست کے مطابق حصہ ڈالنا چاہیے۔ یہ کیسے ہوتاہے؟ صحت کے شعبے میں موجود بے شمار مسائل ایسے ہیں اور ان کا تعلق قوم کے ہر خاندان اور ہر فرد سے ہے کہ دو چار بیوروکریٹس اور کمروں میں مقید‘کتابی ماہرین ‘اس وسیع تر شعبے میں ‘ اپنے تجربات اور فہم و فراست کا حصہ ڈال ہی نہیں سکتے۔ جمہوری حکومت میںتعلیمی نظام کو بہتر‘ تخلیقی اور تحقیقی شعبوں میں اجتماعی ذہانت سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کی بدقسمتی کیا ہے؟
تعلیمی مسائل حل کرنے کے لئے قومی وسائل اور منجمد تعلیمی نظام میں ارتقاء اور پھیلائو کے لئے ایسا کوئی عمل ہی نہیں کیا جاتا‘ جس میں وسیع تر عوامی شرکت کے مواقع دستیاب ہوں۔ معاشرے میں حرکت ‘ ہمہ جہت وسعت‘ جدت‘ ارتقائ‘ علم و تحقیق میں وسعت اورنئے نئے خیالات سے استفادہ کرنے کے لئے معاشرے کے ہر تعلیم یافتہ فرد کو مواقع مہیا کئے جائیں کہ وہ تعلیم کے مختلف شعبوں میں اپنی تجاویز‘ خیالات‘ علم میں وسعت اور توسیع لانے کے عمل میں شریک ہوسکے۔ آپ اخبارات میں پڑھتے ہوں گے کہ کس ذہین طالب علم نے‘ کس شعبے میں جدت اور حیرت انگیز ذہنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ ذہنی استعداد کی زیادہ سے زیادہ مثالیں پیش کیں؟ اگر کوئی تحقیق کرے کہ نوجوان پاکستانی لڑکے لڑکیوں نے ‘جدید زندگی کے کس کس شعبے میں‘ جدتوں اور دریافتوں کے حیرت انگیز معرکے انجام دیئے‘ تو آپ کو ان کی تعداد دیکھ کر فخر ہو گا۔ مگر ساتھ ہی رنج اور دکھ بھی ہو گا کہ ہمارا معاشرہ ان کی اعلیٰ صلاحیتوں سے خاص فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ بیشتر لڑکے لڑکیاں پاکستان میں اپنے لئے مواقع نہ دیکھ کر‘ بیرونی ملکوں میں چلے جاتے ہیں اور وہیں کے معاشروں میں ارتقائی عمل میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
میں آپ کی توجہ اپنے معاشرے کے گرتے ہوئے تہذیبی اور اخلاقی معیار کی طرف بھی دلائوں گا۔ جو نوجوان اعلیٰ تعلیم کی صلاحیتوں ‘ تحقیق اور مختلف ایجادات کی مثالیں قائم کر کے‘ پاکستان میں کچھ کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے‘ تو پہلے ہی مرحلے پر ‘اس کی ایسی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ وہ فوراً ہی اپنے امتیاز اور فخر کو بریف کیس میں بند کر کے‘ ایسی دنیا کی طرف نکل جاتا ہے‘ جہاں اس کے علم اور فن کی جائز قدرومنزلت ہو۔ امریکہ کی طاقت‘ دولت اور ترقی کو سبھی رشک اور حیرت سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کی اصل طاقت کی بنیاد کی طرف کم ہی دیکھا جاتا ہے۔ ہر شعبے میں امریکہ کی ترقی کو حیرت سے دیکھنے والے‘ اس پر بہت کم غور کرتے ہیں کہ امریکہ ترقی کی اصل بنیاد کو کس طرح وسعت دیتا ہے؟امریکہ واحد ملک ہے‘ جو دنیا بھر سے علم اور ایجادات میں امتیازی حیثیت حاصل کرنے والے نوجوانوں کو‘پہلے ہی مرحلے میں بہترین کیریئر‘ بڑے بڑے وظائف اور مزید تعلیم و تحقیق کے شاندار مواقع فراہم کر کے‘ اپنے معاشرے کی علمی اور تخلیقی طاقت میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ امریکہ میں تعلیم بہت مہنگی ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں تعلیم پر ہونے والا خرچ امریکہ کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ وہ کرتا یوںہے کہ جیسے ہی کسی ترقی پذیر ملک میں کوئی نوجوان‘ غیرمعمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر امتیازی حیثیت حاصل کرتا ہے‘ امریکہ اسے اپنے ملک میں لے جا کر بہترین مواقع فراہم کر دیتا ہے۔ یوں انتہائی کم خرچ پر وہ دنیا بھر سے امتیازی حیثیت حاصل کرنے والے نوجوانوں کی ‘ اعلیٰ صلاحیتیں اپنے ملک میں جمع کر لیتا ہے۔ جبکہ تیسری دنیا کے ممالک میں حکمران طبقوں کی ذہنی اور علمی غربت‘اپنے معاشرے کے بہترین ذہنوں سے فائدہ اٹھانے سے قوم کو محروم کر دیتی ہے۔ ان بدبختوں کی اکثریت ‘اپنی اولاد کی اعلیٰ تعلیمی صلاحیتوں کو بھی وطن کے کسی کام نہیں آنے دیتی اور انہیں ترقی یافتہ معاشروں کا حصہ بنا کر فخر کرتی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیںجو اپنی لائق اولاد کی صلاحیتوں سے وطن کو فائدہ پہنچانے کا موقع دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے انہیں اپنے اثر و رسوخ کی طاقت پر زیادہ بھروسہ ہوتا ہے۔ میرے مشاہدے میں ایسے بڑے بڑے خاندان موجود ہیں کہ بیٹا یا بیٹی ‘ کسی جدید شعبے میں مہارت حاصل کر کے واپس آتا ہے اور وہ اسے سیاست میں دھکیل دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر میں اقتدار اور اختیار کی اہمیت اور قدروقیمت زیادہ ہوتی ہے۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ اولاد‘ سائنس اور تعمیری صلاحیتوں میں‘ امتیازی خصوصیات سے مالامال ہے مگر اسے دولت اور اختیار کے کھیل میں دھکیل کر‘ وطن کو جدید علوم کی برکات سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ زیادہ دولت مند گھرانے ڈگریاں تو خرید لیتے ہیں مگر ان کے بچے علم سے محروم رہتے ہیں۔
میں ایک ہی شعبے کی ممکنات کا ذکر شروع کر کے‘ بہت آگے نکل آیا۔ اصل موضوع تو اپنی نام نہاد جمہوریت کی وہ درگت تھی‘ جو ہم بنا رہے ہیں۔ جمہوریت کی اصل درسگاہ اسمبلیاں ہوتی ہیں‘ جو مقامی اداروں سے شروع ہو کر‘ صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور سینیٹ کی صورت میں انجن کا کام دیتی ہیں۔ انہی اداروں کی رکنیت حاصل کرنے والے‘ ملک و قوم کی رہنمائی کرنے کی صلاحیتیں اجاگر کرتے ہیں۔ انہی اداروں میںاجتماعی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر‘درپیش مسائل حل کرنے کی نئی نئی راہیں دریافت کی جاتی ہیں۔ اجتماعی صلاحیتوں کے استعمال سے ملکی نظام کو بہتر سے بہتر انداز میں چلایا جاتا ہے۔
میں آپ کی توجہ ایک چھوٹی سی بات کی طرف مبذول کرائوں گا۔ کہنے کو یہ ایک ناقابل توجہ چیز ہے۔ لیکن غور کیجئے کہ اس میں ایک بڑا راز مضمر ہے۔ جدیدزندگی کی بنیادی خوبیوں کا شمار کرتے ہوئے‘ ایک یہ بیان کی جاتی ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں کی سب سے بڑی نشانی وہاں کاغذ کا بے تحاشہ استعمال ہے۔جس معاشرے میں زیادہ سے زیادہ کاغذ استعمال کیا جاتا ہو‘ وہی ترقی کے راستے پر آگے بڑھتا ہے۔ کہنے کو یہ ایک بے معنی سی بات ہے۔ لیکن غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کاغذ ہی وہ چیز ہے‘ جس پر آپ نئے نئے خیالات‘ یادداشتیں ‘ امکانات اور ممکنات کو محفوظ کرتے ہیں اور پھر اپنے محفوظ شدہ خیالات کی چھان بین کرکے‘وہی کاغذ استعمال میں لاتے ہیں‘ جس پر آپ نے اپنے خیالات تحریر کئے ہوں اور پھر ان کاغذوں کو پڑھتے ہوئے‘ دوسرے کاغذوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کو اپنا بہتر سے بہتر خیال منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تحریر کی صورت میںآپ نے اپنے سارے خیالات محفوظ کر لئے ہوں‘ تو ان میں سے بہترین خیال کا انتخاب کرنا آپ کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور جو لوگ محض ذہنی آوارگی کر کے‘ متعدد عمدہ اور اچھے خیالات‘ فراموشی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہوں اور پھر یادداشتوں کے ڈھیر سے‘ کوئی ایک خیال چنتے ہیں‘ تو سمجھ لیں کہ آپ معاشرے کو اپنے ذہن کے سطحی ثمرات دیتے ہیں۔جدید دور اور تخلیقی معاشروں کی اصل طاقت کاغذ میں ہے۔ ہم کتنا کاغذ استعمال کرتے ہیں؟ اسی سوال کے جواب میں ترقی کا راز مضمر ہے۔کلاس روم میں سب سے زیادہ نوٹس لینے والے نوجوان‘ علمی قابلیت میںدوسروں سے آگے رہتے ہیں۔ جس نے کاغذ بچایا‘ اس نے علم گنوایا۔