تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     02-09-2016

کوٹہ سسٹم کی وبا

فوج وضاحت نہ بھی کرے تو آپریشن ضرب عضب کی کامیابی پر کسی کو شک نہیں۔ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے اور خوف کی فضا برقرار نہ رہی۔ یہ آپریشن کا فیض ہے کہ میڈیا اب ہر طرح کے دہشت گردوں پر نام لے کر تنقید کرتا ہے۔ ع
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر 
یہ سوال مگر برقرار ہے کہ آپریشن کے اختتام پر سول انتظامیہ‘ پولیس اور دیگر ریاستی ادارے شمالی وزیرستان سے لے کر کراچی اور خیبر ایجنسی سے لے کر بلوچستان تک فوج‘ رینجرز اور ایف سی کی واپسی سے پیدا ہونے والا خلا پُر کرنے کے اہل ہیں؟ مذہبی‘ لسانی اور نسلی بنیاد پر تفریق پیدا کرنے‘ حقوق کے نام پر نفرتوں کو پروان چڑھانے اور محرومیوں کا شور مچا کر نوجوان نسل کو ٹارگٹ کلرز‘ خود کش بمبار اور فراری بنانے والے عناصر سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اور منتخب حکومت نے فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں وہ اصلاحات کر دیں جو وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا ہیں؟ 
آپریشن ختم ہونے اور بے دخل کیے گئے باشندوں کی شمالی وزیرستان میں واپسی کے بعد وہ کس نظام کے تحت زندگی بسر کریں گے؟ ایف سی آر کے تحت یا کوئی متبادل انتظام مثلاً الگ صوبے کی تشکیل یا فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کی تدبیر؟ جواب تاحال نفی میں ہے۔ وفاقی حکومت سہل پسند ہے اور قوت فیصلہ سے محروم‘ ورنہ اب تک فیصلہ کر لیا جاتا۔ بلوچستان میں 95 فیصد علاقہ تاحال بی ایریا ہے وفاق اور صوبے کی پولیس‘ انتظامیہ اور عدلیہ سے محروم۔ ستم رسیدہ عوام جرگہ سسٹم‘ پولیٹیکل ایجنٹ اور سرداروں کی مرضی سے بھرتی ہونے والی لیویز کے رحم و کرم پر۔ غریب اور کمزور کے لیے یہ نظام عذاب اور طاقتوروں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ یہی نظام فراریوں‘ تخریب کاروں اور غیر ملکی ایجنٹوں کی پرورش میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف نے اسے بدلنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ دونوں سرداروں اور وڈیروں کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔
سندھ میں شہری‘ دیہی کی تقسیم قیامت ڈھا رہی ہے۔ چالیس سال سے تباہی و بربادی پھیلانے والا کوٹہ سسٹم نافذ ہے اور کوئی نظرثانی کے لیے تیار نہیں۔ سندھ میں شہری اور دیہی تقسیم موجود تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتی چلی جاتی‘ مگر 1972ء میں ممتاز علی بھٹو کے لسانی بل اور 1973ء کے آئین میں کوٹہ سسٹم نے اس تقسیم کو مستقل حیثیت دے دی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ قوم پرست رہنما تھے اور تعلیمی سہولتوں سے محروم اندرون سندھ کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری اداروں میں ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے کے لیے انہوں نے دس سال کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا۔ ان کے ممتاز بھٹو‘ عبدالوحید کٹپر جیسے تنگ نظر ساتھیوں کا مطمح نظر اگرچہ یہ نہیں تھا۔ وہ سندھ کو مستقل حلقۂ نیابت بنانے کے چکر میں تھے کیونکہ 1970ء کے انتخابات میں سندھ نے پنجاب کی طرح پیپلز پارٹی کو قبول نہ کیا اور کراچی‘ حیدر آباد اور سکھر میں پیپلز پارٹی بری طرح ہار گئی۔ سندھ میں حکومت بنانے کے لیے بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو آزاد ارکان کے علاوہ جمعیت علمائے پاکستان کے بعض ارکان کا تعاون حاصل کرنا پڑا تھا۔
جب 1960-70ء کے عشروں میں ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں رنگ‘ نسل‘ زبان‘ جنس‘ علاقے اور مسلک کی بنیاد پر امتیاز و تفریق کو ختم کرنے اور تعصبات پر قابو پانے کے لیے پُرجوش تحریک چل رہی تھی‘ عوام اور ممالک تنگ نظری پر قابو پانے کے لیے اقدامات کر رہے تھے پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ مولانا بھاشانی‘ عبدالولی خان اور بعض مذہبی رہنما اس تفریق کو بڑھانے پر کمربستہ تھے۔ اس تفریق نے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کیں اور 1971ء کا سانحہ پیش آیا۔ تقسیم برصغیر کے بعد مہاجروں کو سندھ میں کھلے بازوئوں سے خوش آمدید کہا گیا‘ اور کشادہ دل سندھی عوام نے انصار مدینہ کی یاد تازہ کی مگر کراچی‘ حیدر آباد اور سکھر میں مہاجروں کے ارتکاز نے سندھ کے سیاسی وڈیروں کو پریشان کر دیا۔ مسلم لیگ اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں سے وابستہ مہاجر پڑھے لکھے تھے‘ سیاسی طور پر باشعور‘ اپنے سیاسی‘ اقتصادی اور سماجی حقوق سے آگاہ‘ جمہوریت پسند اور منظم ہونے کے علاوہ متحرک اور فعال۔ وڈیروں کے محتاج نہ اظہار رائے میں جھجھک کے عادی۔ ہر سیاسی تحریک میں پیش پیش اس کمیونٹی کا اپنے حقوق سے محروم اور وڈیروں کے باجگزار سندھی شہریوں سے میل ملاپ‘ اندرون سندھ عوام کا استحصال کرنے والے میروں‘ پیروں اور جاگیرداروں کو پسند نہ آیا۔ انہیں احساس ہوا کہ مہاجروں کی اگلی نسل ان غریب‘ پسماندہ‘ ان پڑھ و نیم خواندہ‘ اپنے حقوق سے لاعلم اور محروم سندھیوں سے گھل مل گئی تو شہری علاقوں کی طرح دیہی حلقے بھی ان کی مضبوط گرفت سے نکل کر اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی ریاست کی تشکیل کے لیے جاری جدوجہد میں شریک ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ شہری‘ دیہی اور مہاجر‘ سندھی کے مابین نفرت و اختلاف کا بیج بویا گیا جسے تناور درخت الطاف حسین اور ان کے کوتاہ اندیش ساتھیوں نے بنایا۔
مختصر عرصہ کے لیے کوٹہ سسٹم کا نفاذ قابل اعتراض نہ تھا۔ انگریز نے بھی اعلیٰ ملازمتوں میں اس کا اہتمام کیا۔ بھارت نے نچلی ذات کی اقلیتوں کے لیے اسے جاری رکھا مگر اسے نسلی اور لسانی بنیادوں پر رائج کرنا اور غیر معینہ مدت تک جاری کرنا ناعاقبت اندیشی تھی۔ کوٹہ سسٹم کے اجرا کے بعد اگر سندھ میں تعلیم کے فروغ اور روزگار میں اضافہ کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاتی تو پیپلز پارٹی کی قیادت کا یہ ناقابل فراموش کارنامہ ہوتا‘ مگر چالیس سال گزرنے کے بعد سندھ کا اقتصادی‘ معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ رہنا‘ غربت و افلاس اور بے روزگاری میں اضافہ اور مظلوم سندھی عوام کا وڈیروں پر انحصار بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ کوٹہ سسٹم کا فائدہ شہروں میں مقیم جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ میروں‘ پیروں اور ان کے چمچوں کڑچھوں نے اٹھایا جو سندھ کے ڈومیسائل پر سارے فوائد سمیٹتے اور عوام کو مہاجروں کے علاوہ پنجاب‘ فوج اور رینجرز کے خلاف اکساتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے محض پیپلز پارٹی کے خوف سے مقررہ مدت میں کوٹہ سسٹم ختم کرکے میرٹ کا اہتمام نہ کیا‘ اور جنرل پرویز مشرف بھی ایم کیو ایم کے سرپرست ہو کر یہ جرات نہ کر سکے۔ کوئی معاشرہ میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل کر سکتا ہے نہ طبقات میں اتحاد و اتفاق کا اہتمام۔ ایک محنتی‘ لائق اور ذہین نوجوان امتحان میں زیادہ نمبر اور سی ایس ایس میں اچھی پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود نکمّے نالائق اور غبی کے مقابلے میں محض اس بنا پر ملازمت حاصل نہ کر سکے یا ڈی ایم جی‘ فارن افیئرز اور پولیس گروپ سے نکال کر انفارمیشن گروپ میں ڈال دیا جائے کہ وہ کراچی میں پیدا ہوا اور اس کے والدین نے جعلسازی سے دیہی ڈومیسائل بنوانے کا جرم نہیں کیا‘ تو احساس محرومی جنم لے گا اورکوئی نہ کوئی اسے ایکسپلائٹ بھی کرے گا۔ بلوچستان میں بھی ہر غیر بلوچی سرکاری اہلکار اپنے عزیز و اقارب اور چہیتوں کو نوازنے کے لیے یہ واردات کرتا ہے کوئٹہ جا کر بہت سی داستانیں سننے کو ملتی ہے اکثر درست‘ کچھ غلط۔
کوٹہ سسٹم تو ہر سطح پر ختم ہونا چاہیے مگر سندھ‘ پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے دیہی و قبائلی علاقوں کو شہری آبادی کے مساوی لانے کے لیے امتیازی رویوں کا خاتمہ ضروری ہے آخر اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور فیصل آباد کا نام تو پاکستان نہیں کہ ہر اچھا تعلیمی ادارہ‘ ہسپتال اور ملازمت کے لیے موقع یہاں دستیاب ہے اور دیگر علاقوں کے ذہین بچوں کو تعلیم اور صحت کے مساوی مواقع حاصل ہیں نہ روزگار کی سہولت۔ کہا جا سکتا ہے کہ شہروں کے اپنے حقوق سے آگاہ لوگ شور شرابہ کرکے یہ سہولتیں حاصل کرتے ہیں جبکہ شہری عوام خواہ سندھ کے ہوں یا پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب کے وہ اپنے وڈیروں پر تکیہ کرکے نقصان اٹھاتے ہیں۔ بجا! مگر پھر جمہوریت کس مرض کی دوا ہے اور سیاسی جماعتوں کا وجود کیوں ضروری ہے؟ ایک مخصوص طبقہ تو ان مراعات سے جمہوریت کے بغیر بھی بہرہ ور ہوتا ہے اور سیاسی جماعتوں کا محتاج نہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کا دار و مدار ان پائیدار اقدامات پر ہے جو دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری‘ قانون شکنی کے اسباب و علل کا مکمل خاتمہ کریں۔ دہشت گردی کرپشن کا گٹھ جوڑ ٹوٹے اور کوئی مقامی یا بیرونی طاقت محروم‘ مشتعل اور مایوس نوجوانوں کو گمراہ نہ کر سکے۔ جو کام ضیاء الحق‘ آصف علی زرداری اور پرویز مشرف نہ کر سکے موجودہ حکمرانوں کو کر گزرنا چاہیے۔ پُرامن‘ خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل اس کے بغیر ممکن نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved